درست سمت کا تعین کرلیں

اقتدار کے لالچ میں پاکستانیوں کو ملک کے وسیع تر مفاد میں یونہی بیوقوف بنایا جاتا رہے گاجس طرح شروع سے لے کر اب تک بنایا جارہا ہے ، جو کل ایک دوسرے سے دست وگریبان تھے انہوں نے ملک کے وسیع تر مفاد میں ایک دوسرے کو گلے لگا کر ثابت کردیا ہے کہ پاکستانیوں کی قسمت کے فیصلے کہیں اور ہی ہوتے ہیں۔ اگرپاکستان میں اسی طرح کی سیاست بازی ہونی ہے تو پھر ملک کے حالات سدھرتے ہوئے نظر نہیں آتے کیونکہ جن حکمرانوں کے قول وفعل میں تضاد ہو جو اپنی کہی ہوئی بات پر قائم نہ رہ سکیں اور تو اور ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرنے والے وقت پڑنے پر ایک دوسرے کو بھائی بنا لیں توبیچاری غریب اور پسماندہ قوم کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ مستقبل کے سنہری خواب دکھانے والوں نے اپنا مستقبل سنہری بنا لیا اور جن سے ووٹ لیے تھے ان کو ایک بار پھر انہی کے حال پر چھوڑ دیا گیا اس کے ساتھ ساتھ اب ملک کا کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں جو متنازعہ نہ ہو ابھی تو اس حکومت کو بنے ہوئے صرف چند مہینے ہوئے ہیں اور چاروں طرف سے ایک شور بلند ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔
پاکستان کو ترقی کی منزل پر پہنچانا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اپنے سیاسی مفادات سے بالا تر ہو کر اس کی سمت کا تعین کرنا ہو گا کہ ملک کی ترقی کا یہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں اپنا شمار کرواسکیں گے جس وقت ہم اپنی سمت کا تعین کرلیں تو اسکے بعد اسکا سفر شروع ہوتا ہے مثال کے طور پر ایک مسافر نے ٹرین پر سفر کرنا ہے اور اسکی منزل کراچی ہے اگر تو ٹرین اپنے ٹریک پر چلتی رہے بے شک راستے میں اسکا انجن بھی فیل ہوجائے ،آندھی آجائے ،طوفان آجائے،سیلاب آجائے یااسکے راستے میں کوئی بھی رکاوٹ آجائے وہ اسے روندتی ہوئی بالآخرمسافروں کو لیکر اپنی منزل مقصود تک پہنچ ہی جائے گی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے مقررہ وقت سے دو گھنٹے یا دو دن تاخیر سے پہنچے مگر پہنچ لازمی جائے گی اگر اس ٹرین کو ہم ٹریک سے ہی اتار دیں اور لوہے کی پٹری کی بجائے اسے ہم بہت ہی اعلیٰ قسم کی بنی ہوئی سڑک پر لے جائیں اور پھر اپنی پوری توانائیاں اس ٹرین کو کراچی پہنچانے پر لگا دیں تو وہ کیسے اپنی منزل مقصود تک پہنچے گی بے شک پوار پاکستان ملکر اس ٹرین کو دھکا لگائے یہی حال ہمارے ساتھ ہمارے دشمنوں نے کررکھا ہے انہوں نے آج تک ہماری سمت ہی طے نہیں ہونے دی کہ ہم نے جانا کہا ں ہے اوریہ بھی ہمیں معلوم نہیںکہ کس نے ہمیں منزل تک پہنچانا ہے۔
ہم اپنے بھاری بھرکم لیڈروں کو اپنا ہیرومان کر انکے پیچھے انکھیں بند کرکے چلتے رہتے ہیں اور جب عمر گذر جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ہم تو کولھو کے بیل کی طرح اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے اپنے ہی ارد گرد گھوم رہے تھے اور جنہوں نے ہمیں گھمایا وہ اپنی منزل تک پہنچ گئے انکے بچوں نے ملک سے باہر جائیدادیں بنا لیں جبکہ پاکستان اور پاکستانی عوام اسی طرح آج بھی زندگی گذار رہے ہیں جیسے پاکستان کے ابتدائی دن تھے یاد رکھیں اگر ہم نے اب بھی اپنی منزل تک پہنچنا ہے توضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنی سمت کا تعین کرلیں پھر اسکے بعد بیشک ٹھیلے پر ہی بیٹھ جائیں اور اسکے دھکا لگاتے جائیں ایک دن آئے گا کہ ہم اپنی منزل پالیں گے ایسی منزل جہاں ہر طرف سکون ،راحت اور خوشحالی ہوگی جہاں ہمیں نہ حکمرانوں کے خالی نعروں سے کوئی غرض ہوگی اور نہ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھنٹوں لمبی لائن میں انتظار کرنا پڑے گا ہمیں اب انتظار ہے تو صرف ایسے حکمرانوں کو جو ملک کے وسیع تر مفاد میں عوام کا گلا نہ کاٹیں بلکہ ٹرین کے نیچے چلنے والے پہیے کی وہ سپورٹ بنیں جو اتنی بھاری بھرکم ٹرین کو پٹڑی سے اترنے نہیں دیتی۔ ٭