اسلامک اسٹیٹ کے خلاف عراقی کرد فورسز کی پہلی بڑی کامیابی
بغداد (آن لائن)عراقی کرد فورسز نے شامی سرحد سے ملحق علاقوں میں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوو¿ں کو پسپا کرتے ہوئے اہم پیشقدمی کی ہے۔ جہادیوں کے خلاف امریکی اتحادی فضائی کارروائی کے بعد کرد فورسز کے لیے یہ پہلی مرتبہ بڑی کامیابی قرار دی گئی ہے۔ بر طا نو ی خبر رساں ادارے نے کرد حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان کی افواج حکمت عملی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیے جانے والے ضلع ربیعہ میں داخل ہو گئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ کرد فورسز کی طرف سے اس علاقے میں تین اطراف سے حملہ کیا گیا، جس کے بعد گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی۔ منگل کے شام کرد فورسز کے ترجمان ہلگورد حکمت نے تصدیق کی کہ دن بھر جاری رہنے والی اس خونریز لڑائی میں انہوں نے اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوو¿ں کو بڑا نقصان پہنچایا۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب کرد سپاہیوں نے ربیعہ اور الزمر کے علاقوں میں جہادیوں کو تیس محاذوں پر پسپا کیا۔ ہلگورد حکمت نے اس کامیابی کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس علاقے کے سنی قبائل نے ان کے ساتھ اتحاد بھی بنا لیا ہے۔ موصل سے سو کلو میٹر دور شمال مغرب میں واقع ربیعہ کا علاقہ اس لیے بھی اہم تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہ عراق کو شام سے ملاتا ہے، جہاں شامی کرد فوج کو اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوو¿ں کے شدید حملوں کا سامنا ہے۔ اس علاقے پر قبضے کے بعد ہی جہادی شام اور عراق کے مابین آزادانہ طور پر نقل و حرکت کے قابل ہو گئے تھے۔ادھر ترک سرحد سے متصل شامی علاقے عین العرب (کوبانی) کے علاقے میں اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کی پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد مقامی باشندے ترکی ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔ انقرہ حکومت نے بھی ممکنہ خطرے کے پیش نظر اپنے سرحدوں علاقوں میں ٹینک تعینات کرتے ہوئے سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی ہے۔ ترکی نے کہا ہے کہ وہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جاری عالمی عسکری مہم میں شامل ہونے کے لیے پارلیمانی بحث کا آغاز کرے گا۔اسی اثناءشامی حالات پر نظر رکھنے والے ایک غیر سرکاری ادارے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے خبردار کیا ہے کہ جہادی عین العرب سے چند کلو میٹر دور پوزیشن سنبھال چکے ہیں اور اگر عالمی اتحاد نے وہاں کرد فورسز کو فوری مدد نہ پہنچائی تو اسلامک اسٹیٹ کے یہ جنگجو جلد ہی عین العرب کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔