ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے؟
پاکستان کو اس وقت تین بڑے مسائل کا سامنا ہے اور یہ تینوں فی الحال اندرونی مسائل تصور کئے جا رہے ہیں۔ہمارے بیرونی دشمن انتظار میں ہیں کہ یہ پکا ہوا پھل ان کی جھولی میں کب گرتا ہے....ویسے میرے منہ میں خاک!
دھرنے ،آئی ڈی پیز اور آپریشن ضرب عضب تینوں ایسے چیلنج ہیں کہ ان سے عہدہ برآ ہونے کی سٹرٹیجی کے ڈانڈے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔دھرنوں کا کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا اورمیڈیا ہے کہ اس کا سارا زورِ بیان صرف اسی ایک مسئلے کے گرد استوار ہے۔ دھرنوں کی سوئی صرف ”گو نواز گو“ تک جا کر اٹک چکی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں ان دھرنوں کا تقریباً بلیک آﺅٹ ہے۔بھارتی وزیراعظم فی الوقت امریکہ میں ہیں، جبکہ ہمارے وزیراعظم واپس تشریف لا چکے ہیں۔ جو کچھ نریندر مودی امریکہ میں کہہ اور کررہے ہیں،اس کی ضرورت بھارت کی بجائے پاکستان کو زیادہ تھی۔مثلاً مودی۔نیتن یاہو ملاقات ہی کو لے لیں۔اس ملاقات میں جو موضوعات زیر بحث آئے، وہ پردئہ راز میں ہیں۔صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ ان میں باہمی دفاعی معاملات بھی تھے۔دونوں ملکوں میں تجارت کا حجم فی الحال 6ارب ڈالر سالانہ ہے جس کا بیشتر حصہ دفاع کے بارے میں ہے۔ بھارت بہت سا جدید دفاعی سازوسامان (Equipment) اسرائیل سے خرید چکا ہے اور مزید خرید رہا ہے، اس لئے ادائیگیوں کا توازن اسرائیل کے حق میں ہے کہ اسرائیل بھلا بھارت سے کیا درآمد کر سکتا ہے؟ .... دوسرے مودی صاحب وہاں امریکی سرمایہ کاروں سے مل رہے ہیں اور ان کو دعوت دی جا رہی ہے کہ بھارت آﺅ اور 49%حصوں کے مالک بن کر بھارت میں صنعتیں لگاﺅ۔
غیر ملکی میڈیا، پاکستان میں دھرنوں کی کوئی خبریں دیتا ہے نہ ان پر تبصرے کرتا ہے جبکہ ہمارا میڈیا دن رات انہی کے ڈھول پیٹ رہا ہے۔سچی بات ہے مجھے تو اس صورت حال نے خوف زدہ کیا ہوا ہے۔ بطور ایک آزاد اور خود مختار ریاست، ہم کدھر جا رہے ہیں اور قوموں کی برادری میں ہماری کیا حیثیت ہے، اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ....اور یہی چیز پریشان کن ہے۔
دھرنوں کے علاوہ باقی دو مسائل آئی ڈی پیز (IDPs) اور خود آپریشن ضربِ عضب ہیں۔کچھ معلوم نہیں کہ ان کی پراگرس کیا ہے....پہلے ضرب عضب کو دیکھتے ہیں۔
ایک طویل عرصے سے جو کئی مہینوں پر محیط ہے،ہم پاکستانیوں کو صرف ایک فقرہ میڈیا پر سنایا جاتا ہے اور وہ ہے: ”آپریشن ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے“۔ ٹیلی ویژن سکرینوں پر پرانے Footagesدکھائے جاتے ہیں۔ہمارے گراﺅنڈ ٹروپس رائفل بدست کسی اَن دیکھے ٹارگٹ پر نشانہ باندھ رہے ہوتے ہیں یا دیواریں پھلانگ کر کسی کچے کوٹھے کے اندر کود رہے ہوتے ہیں۔دو دن پہلے کھاریاں میں دہشت گردوںکے خلاف کارروائیوں کے جدید طور طریقوں کی پریکٹس دکھائی جا رہی تھی۔مجھے تو اس میں بھی کوئی نئی اور خاص تکنیک، چال یا عسکری حربہ دکھائی نہیں دیا۔پھر فضا میں پاک فضائیہ کے طیارے کوندتے دکھائے جاتے ہیں۔دور کسی پہاڑی پر دھویں کے بادل بلند ہوتے ہیں اور بس.... خبر آتی ہے کہ آپریشن میں 115دہشت گرد مارے گئے ہیں اور اپنا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا!.... چلو چھٹی ہوئی.... لیکن اس کی تصدیق کون کرے؟
جس طرح دھرنوں کے مناظر مضمونِ واحد ہیں اسی طرح آپریشن کی ”تفصیلات“ بھی مضمونِ واحد معلوم ہوتی ہیں۔اب اکتوبر شروع ہو چکا ہے، وزیرستان کے پہاڑوں پر سردی کی آمد آمد ہے۔ان علاقوں میں موسم سرما بڑا سخت ہوتا ہے۔میر علی، میرن شاہ، دتہ خیل جیسی آبادیوں میں موسم سرما کی شدت کا وہ عالم نہیں ہوتا جو جنوب مغرب میں شوال کے پہاڑوں کے اوپر اور اندر ہوتا ہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وزیرستان میں فوجی کارروائیوں کے لئے ایک طویل اور مشکل دورانیہ پاک فوج کے سر پر کھڑا ہے۔اس موضوع پر ہمارے میڈیا میں کوئی ٹاک شو نہیں آ رہا جو آنا چاہئے۔ وزیرستان میں میڈیا کو ”اذنِ باریابی“ نہ دے کر فوج نے جن نتائج کی توقع کی تھی، وہ فی الحال سامنے نظر نہیں آ رہے۔سوال کیا جا سکتا ہے کہ آخر اور کتنے مہینوں تک ”آپریشن ضرب غضب کامیابی سے “ جاری“ رہے گا؟
ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ بھی وزیرستان پر ڈرون حملے کر رہا ہے اور پاکستانی ڈرون بھی اگرچہ پوری طرح مسلح نہیں ہوتے، لیکن انٹیلی جنس کی جمع آوری (Gathering) کے لئے اس آپریشن میں مدد دے رہے ہیں۔جہاں تک میری سمجھ میں آتا ہے پاکستان اس آپریشن کو پایہ ءتکمیل تک پہنچانے میں خود ”عمداً “ تاخیر سے کام لے رہا ہے۔
ہماری وزارتِ خارجہ اور وزارت دفاع اُس معاہدے کی منتظر تھیں جو کل (30ستمبر2014ئ) امریکہ اور افغانستان کے درمیان Signہوا ہے اور جس کی چیدہ چیدہ شقیں یہ ہیں:
(1) 31دسمبر2014ء کو غیر ملکی فورسز، افغانستان خالی کر دیں گی۔ صرف 10000ٹروپس کی نفری باقی رکھی جائے گی جو 9 آﺅٹ پوسٹوں پر تعینات رہے گی۔
(2) یکم جنوری 2015ءکو افغانستان کی 100فیصد خود مختاری (ساورنٹی)بحال کرکے نئی حکومت کے حوالے کر دی جائے گی۔
(3) اس 10000کی فورس میں NATO کے ٹروپس بھی شامل ہوں گے۔
(4) اس غیر ملکی فورس کا کام ”القاعدہ“ کی باقیات کو افغانستان سے ختم کرنا اور افغانوں کی نیشنل آرمی اور نیشنل پولیس کو ٹریننگ دینا، انہیں اسلحہ سے مسلح کرنا اور پروفیشنل مشاورت فراہم کرنا شامل ہوگا۔
(5) یہ امریکی فورس دس سال تک (2025ءتک) افغانستان میں قیام کرے گی۔
(6) یہ فورس افغانستان کے ان صوبوں میں 9بیرونی چوکیوں پر تعینات رہے گی جو پاکستان اور ایران کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔
(7) یہ فورس کسی افغان عدالت کے سامنے جوابدہ نہیں ہوگی۔
(8) یہ فورس، افغانستان کی سرزمین پر کسی بھی قسم کا آپریشن، حکومت کی اجازت کے بغیر، لانچ نہیں کرسکے گی۔
(9) افغانستان پر اگر کوئی بیرونی طاقت حملہ آور ہوتی ہے تو یہ فورس افغانستان کی مدد نہیں کرے گی کیونکہ اس کے نتیجے میں اس طاقت اور امریکہ کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے۔
(10) یہ معاہدہ افغانستان کی نئی حکومت اور امریکہ کے درمیان سمجھا جائے گا۔
میرا خیال ہے کہ پاکستان کو پہلے ہی سے معلوم تھا کہ یہ معاہدہ انہی شرائط پر محیط ہوگا اس لئے اس نے پہلے سے اس کا ردعمل (Response)بھی تیار کر رکھا ہوگا۔مجھے شک ساہے کہ وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب میں موجودہ تعطل اور اس معاہدے کے درمیان کوئی نہ کوئی قدر مشترک ضرور ہے۔اس معاہدے کے تحت جن نو امریکی چوکیوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان اور ایران کی سرحدوں کے نزدیک واقع ہوں گی۔ان میں نورستان، کنر، خوست، پکتیکا اور ہلمند کے صوبے یقینا شامل ہوں گے کیونکہ یہی وہ علاقے ہیں جن کے ساتھ پاکستان کے چترال اور فاٹا کے علاقے ملحق ہیں۔اگر میرا یہ خیال درست ہے تو آپ دیکھیں گے کہ آنے والے ہفتوں میں آپریشن ضرب عضب کی رفتار تیز تر ہو جائے گی۔پاکستان ایک عرصے سے کہہ رہا ہے کہ جو دہشت گرد وزیرستان وغیرہ سے نکل کر افغان علاقوں میں چلے جاتے ہیں، ان کا کوئی نہ کوئی ”علاج“ کیا جائے جو کرزئی حکومت نہیں کر رہی تھی۔اب اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی حکومت شائد امریکہ کے دباﺅ میں آکر ایسا کر گزرے۔اگر ایساہو جائے تو یہ پاکستان کے لئے ایک اچھا شگون ہوگا۔
دوسری طرف طالبان نے اس معاہدے کو افغانستان کی علاقائی سالمیت کے خلاف ایک سازش قرار دیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ جس طرح امریکہ، دوبارہ عراق میں آ رہا ہے اسی طرح افغانستان کو بھی خالی نہیں کررہا۔افغانستان کو مکمل خالی کر دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکہ، مشرق وسطیٰ کے اپنے دائیں فلینک کو برہنہ کر دے گا۔
جہاں تک IDPsکے مسئلے کا سوال ہے تو اس پر بھی حکومتیں(مرکزی اور صوبائی) چپ ہیں۔ہمارا میڈیا بھی اس طرف متوجہ نہیں ہو رہا یا شائد اس کو متوجہ ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔جب تک میڈیاکے مبصر اور حکومت کی وزیرستان پالیسی ایک ہی صفحے پر نہیں آ جاتے، تب تک وزیرستان آپریشن سے میڈیا کو دور رکھاجائے گا(اور میرا خیال ہے ایسا ہی ہونا بھی چاہیے)ہم جیسے مبصروں کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ایک تو ہمیں ”پوری تصویر“ کا علم نہیں ہوتا اور دوسرے عسکری معاملات کے پیشہ ورانہ پہلوﺅں کا وہ ادراک نہیں ہوتا کہ جو اس آپریشن کی کوریج کے لئے ضروری ہے۔چنانچہ ماسوائے چند مبصرین کے کہ جن کا تعلق افواج پاکستان سے رہا ہو، باقی حضرات جو کچھ بھی کہیں گے یا لکھیں گے ان میں پروفیشنل Input اور سپورٹ کم کم ہوگی۔
اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مستقبل قریب میں کوئی سمجھوتہ طے پا جاتا ہے تو ان تینوں مسائل کا حل نکل سکتا ہے جن کے ڈانڈے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور جن کا ذکر راقم السطور نے کالم کے آغاز میں کیا تھا۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر پاکستان اور پاکستانیوں کو کسی بھی نئے ”عذاب“ کے لئے تیار رہنا پڑے گا۔