جنگ اور جنگی جنون!
’’بہت ہوگیا ‘بزدل دشمن کی گیدڑ بھبکیاں بہت سن لیں‘لائن آف کنٹرول سے گولیاں چلا کر سرجیکل سٹرائیک کا نعرہ لگادیا‘ اب ہمیں ہندوستان پر چڑھائی کردینی چاہئے‘ہزاروں مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کو سولی پر چڑھانے کا وقت آگیا ہے ‘بے گناہ کشمیریوں پر گولیاں برسانے والی‘ بہنوں بیٹیوں کی عزتیں پامال کرنے والی قابض بھارتی فوج کی گردنیں اڑانے اور لاشیں چوکوں میں لٹکانے کا وقت آگیا ہے ‘جنت نظیر کشمیر کی وادیوں کو لہو لہو کرنے والے درندوں کو بھون دینا چاہئے‘‘یونیورسٹی کے پرجوش نوجوان کے چہرے شدت جذبات سے تمتما رہے تھے۔ کمرے کی فضا میں سکون اور تحمل نمایاں تھا‘ باہر راہداریوں سے سٹوڈنٹس کی مدھم آوازیں آرہی تھیں ۔میز کے اس پار سپاٹ چہرے والے پروفیسر نے چائے کی پیالی رکھتے ہوئے کہا ’’نوجوان ! جنگ صرف جنگی ترانے‘ لہراتے پرچم اور فتح کے نعرے نہیں۔جنگ کا مطلب ہے بمباری کرتی توپیں ‘گولیاں برساتے جنگی جہاز‘بارود بھرے میزائیل جن کا نشانہ ہوتے ہیں انسان ۔جنگ کا مطلب ہے ہلاکتیں اور لاشیں‘ یتیم ہوتے بچے اور بیوہ ہوتی عورتیں‘ جنازے ہی جنازے ‘گھر گھر ماتم‘شہر شہر تباہی۔ جنگ کا مطلب ہے خون میں لت پت زخمی اور زخمیوں سے بھرے ہسپتال‘ دوائیوں ‘غذائی اشیاء اور پانی کی قلت‘ ایک بہت غیر معمولی صورتِ حال۔۔۔‘‘
سر جی ! معذرت کے ساتھ یہ سب بے ہمتی کے ڈھکوسلے ہیں‘ڈرپوک لوگ ایسی دانش کاری کے پیچھے پناہ لیتے ہیں‘ہم یہ سوچتے رہیں اور ہندو درندے ہمارے بھائیوں کو ذبح کرتے رہیں اور بہنوں کو نوچتے رہیں؟کیا ہم بے غیرتوں کی طرح دیکھتے ر ہیں ؟ ’’جنگ عظیم اول میں پونے دو کروڑ انسان ہلاک ہوئے ‘دوکروڑ زخمی ہوئے عمر بھر کے لئے معذورجبکہ جنگ عظیم دوم میں پانچ کروڑ لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے ‘لاکھوں انسان بیماری اور قحط سے مرگئے ‘لاکھوں جنگی قیدی بن کر جیلوں میں ہولناک اذیتیں لیتے ‘گلتے سڑتے اور مرتے رہے۔یہ سب انسان تھے ‘اللہ کریم کے پیداکردہ انسان،لیکن حکومتوں اور حکمرانوں کی ہوس نے انہیں راکھ کا ڈھیر بنادیا ۔ان جنگوں کے بعد ہی دنیا نے اقوام متحدہ بنائی۔ملکوں کے اختلافات کو پرامن ذرائع سے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا پلیٹ فارم۔۔۔‘‘ نوجوان جذبات کو قابو میں نہیں رکھ پا رہا تھا ’’مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کتنی کوشش کی ‘ایک ہزار سال بھی کوشش کرتے رہیں گے تو نتیجہ صفر ہوگا ‘دشمن مکار ہے ‘مذاکرات کی چالوں میں پھنساتا ہے ‘اسے پتہ ہے کہ وہ میدان جنگ میں مقابلہ نہیں کرسکتا ‘وہ میدان میں بہادری دکھانے کی بجائے ٹیبل پرمذاکرات مذاکرات کھیلنا چاہتا ہے۔ اور سر جی !اقوام متحدہ سے کیا امید ہے ؟پانچ بڑی طاقتوں کی ویٹو میں جکڑی ہوئی ‘امریکہ کی باندی اس سے امید ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرے گی ‘ 1948ء میں ہندوؤں کا وزیر اعظم خود اقوام متحدہ گیا‘ پاکستان سے بچانے کی بھیک مانگی ‘اگر ہمارے رہنماہندو کی چال میں نہ آتے تو پورا کشمیر آزاد ہو چکا ہوتا‘68سال سے اقوام متحدہ کی راہ تک رہے ہیں ‘پانچ لاکھ کشمیری شہید ہوچکے ہیں‘بستیاں اجڑ گئی ہیں ‘ساری وادی میں لہو بہہ رہا ہے لیکن اقوام متحدہ خاموش ہے ۔افغانستان اور عراق پرکارروائی کا معاملہ ہو تو قرارداد لاکر فوری میزائلوں کی بارش کردیتے ہیں ۔مسلمانوں کو قتل کرنا ہوتو اقوام متحدہ برق رفتاری سے عمل کرتی ہے لیکن اسے مسلمانوں پر ظلم نظر نہیں آتا ‘ایسے اندھے فورم سے کب تک آس لگائے بیٹھے رہیں‘ سرجی؟
’’نوجوان ! آپ ٹھیک کہتے ہیں،اقوام متحدہ نے اپنا کردار ادا نہیں کیا‘یہ بھی درست ہے کہ وہ بڑی طاقتوں کے اشارۂ ابروپر متحرک ہوتی ہے۔بڑی طاقتیں صرف اپنے مفاد کو دیکھتی ہیں ‘کشمیر سے ان کا کوئی مفاد نہیں لیکن ہمارے لئے یہ بہت اہم ہے ’ہماری شہ رگ ۔پاکستان اور بھارت کے تعلقات معمول پر نہیں آسکتے جب تک کشمیر آزادنہیں ہوتا ‘ اس خطے کا امن بھی اسی سے جڑا ہے ۔اس وقت کشمیریوں کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے‘وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مقبوضہ کشمیرکے مظالم پر دنیا کے ضمیر کوایک بار پھر جھنجوڑا ہے۔اس پر ہندوستان مروڑ میں مرا جارہا ہے ‘اسے عالمی میڈیا میں مزیدایکسپوز کرنا چاہئے۔ دنیا کو بتانا چاہئے کہ بھارتی وزیر اعظم ایک انتہا پسند اور متعصب ہندو ہے جس کے ہاتھ ہزاروں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ 2005ء میں امریکہ نے اس پراپنے ملک میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی تھی ‘برطانیہ نے تو مسلمانوں کے قتل عام کے بعد ہی اس پر پابندی لگا دی تھی۔یہ بھی بتانا چاہئے کہ بھارت کی سات ریاستیں علیحدگی کے لئے تحریکیں چلارہی ہیں ‘سکھ اب بھی خالصتان کے لئے پیچ و تاب کھا رہے ہیں‘ مسلمانوں کے علاوہ نچلی ذات کے ہندو بھی بھیانک مظالم کا شکار ہوتے ہیں‘اس سیکولر ریاست کو مکروہ چہرہ دکھانا چاہئے‘‘۔
’’ تو پھر جنگ کرکے وہاں کے مظلوم لوگوں کو آزادکرالینا چاہئے ‘‘ نوجوان کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔ ’’نہیں!جنگ بھارت کے حق میں جائے گی ‘ وہ دنیا کی توجہ کشمیریوں پر مظالم سے ہٹادے گا‘ ایمرجنسی کی آڑ میں مسلمانوں اور دیگر ریاستوں میں جدوجہد کرنے والوں پر اسلحہ و بارود استعمال کرے گا۔بھارت اس وقت جھنجلایا اور گھبرایا ہوا ہے اور اس ہذیانی کیفیت میں وہ محدود جنگ کرسکتا ہے ۔ ہمیں اس جنگ سے بچ کر کشمیر حاصل کرنا ہے ‘ ہمیں سفارتی محاذ پرفعال ہونے کی سخت ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانے اپنے میزبان ملکوں کی حکومتوں اور مقامی میڈیا کو اس بارے آگاہ کریں‘ بدقسمتی کی بات ہے کہ کئی اہم ملکوں کے پاکستانی سفارت خانوں میں کشمیر سے متعلق لٹریچر ہی موجود نہیں‘‘۔ ’’سر !کیا ہمیں قوم کو جنگ کے لئے تیار نہیں کرنا چاہئے‘ ہمیں 65ء والے جذبے کی ضرورت ہے ‘قوم کا بچہ بچہ وطن پر مرمٹنے کو تیار ہے ‘ بس ایک کال کی دیر ہے ‘ گلی گلی جنگی ترانے بج اٹھیں گے‘لوگ فوج در فوج بارڈر کی طرف چل پڑیں گے‘‘ نوجوان کا جوش پھر بڑھ گیا۔
’’آج کی جنگ صرف ہتھیاروں کی جنگ نہیں ہے ‘ علم اوردانش کی بھی ایک جنگ ہے ‘ معیشت اور ثقافت کی بھی جنگ ہے ۔اب جنگ صرف بارڈر پر نہیں لڑی جاتی بلکہ میڈیا اور انٹرنیٹ پر بھی لڑی جارہی ہے۔ہمیں قوم کو امن کا بیانیہ دینا ہے ‘علم اور ہنر کے ہتھیاروں سے لیس کرنا ہے۔ ہمیں دانش کی نشوونما کرنی ہے ‘علم اور محنت سے معیشت کو مضبوط بناناہے ‘امن ہی ترقی اور خوشحالی کے لئے سازگار ماحول دیتا ہے۔ثقافتی جنگ تو ہمارے ہر گھرمیں لڑی جارہی ہے ‘اس جنگ میں ہم کتنے کامیاب ہیں ‘آپ کو بہتر پتہ ہے۔ پاکستانی ٹی وی چینلز انڈین ڈرامے اور فلمیں چلا رہے اور ہمارے اداکار سرحد پار جاکر انتہاپسند ہندوؤں کی گالیاں اور دھمکیاں سن رہے ہیں‘ہر نوجوان کے ہاتھ میں انڈین گانوں سے لدے موبائل سیٹ ہیں‘ ہم اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لئے اشتہارات میں انڈین ماڈل چلارہے ہیں ‘اسی لئے نا کہ عوام ان کو آئیڈیالزکرتے ہیں۔ ان جنگوں میں ہمارا خون کیوں نہیں کھولتا‘کیاان میں بھی فتح کے پرچم لہرانے کی ضرورت نہیں ۔ دیکھوبیٹے ! ہم گزشتہ پینتیس سال سے جنگی ترانے سن رہے ہیں‘ جنگجوؤں نے پاک سر زمین کو خوف اور دہشت کی سرزمین بناکر رکھ دیاتھا۔دشمن ممالک کے ایجنٹ جنگجوؤں کے روپ میں لشکروں اور تنظیموں میں گھس چکے تھے اور کارروائیاں کررہے تھے۔ ہمارے سیکیورٹی اداروں نے بڑی قربانیاں دے کر اس ناسور کو ختم کیا ہے‘ا س جن کی گردن مروڑی ہے۔دشمن ایجنٹوں کو چن چن کر پکڑا ‘ کلبھوشن یادیو توصرف ایک مثال ہے ۔ایک اور بات بھی‘ بھارت کو بلکہ امریکہ کو بھی سی پیک منصوبے سے بہت تکلیف ہے‘یہ ملک کے لئے گیم چینجر ہوسکتا ہے۔ ملک میں اقتصادی ترقی کے کچھ کچھ نقوش ابھرناشروع ہوگئے ہیں ۔ ہمارے پاس دنیا کی بہترین فوج موجود ہے‘اس کے پاس مہارت بھی ہے ‘ شجاعت اور جذبۂ شہادت بھی۔ہمیں ہر جنگ میں فتح یاب ہونا ہے‘ہر ادارے اور ہر پاکستانی کو اپنے شعبے اور اپنے محاذ پر فوجی جذبے کے ساتھ ملک کو مضبوط بنانا ہے کیونکہ مضبوط ملک کو کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھتا ‘‘۔ نوجوان کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ پھیل گئی۔