پاک بھارت کشیدگی کی نئی لہر
پاک بھارت تعلقات ان دنوں ایک بار پھراتنے کشیدہ ہیں کہ جنگ کا خطرہ تک ظاہر کیا جارہا ہے، حالانکہ پاکستان کی جانب سے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا جس کی بنا پر بھارت یہ کہہ سکے کہ اس کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جولائی میں آزادی پسند رہنما برہان وانی کو شہید کر کے بھارتی سیکیورٹی فورسز نے ایک ایسا پینڈورا باکس کھول دیا تھا، جس کو بند کرنا اب بھارتی حکومت کے بس میں نہیں رہا۔ بھارتی سیکیورٹی فورسز نے تو برہان وانی کو اس لئے شہید کیاتھا کہ اس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں عرصے سے چل رہی آزادی کی تحریک دب جائے گی اور ان کی واہ واہ ہو جائے گی، لیکن ان کا اقدام اب ایسا کمبل بن چکا ہے، جس سے بھارتی سیکیورٹی فورسز اور حکومت تو جان چھڑانا چاہتی ہیں، لیکن کمبل انہیں چھوڑنے کو تیار نہیں۔ اس دوران مقبوضہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے نزدیک اڑی سیکٹر میں دہشت گردی کا ایک واقعہ رونما ہوا، جس میں بھارت کے کچھ فوجی جہنم واصل ہوئے۔ یہ دراصل مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی فورسز کے ظلم و استبداد کا رد عمل تھا، لیکن بھارتی حکومت نے اس کا رخ پاکستان کی طرف موڑنے کی کوشش کی، جس میں وہ ناکام رہا، کیونکہ اس کے پاس اس واقعہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ سننے میں یہ آرہا ہے کہ یہ ڈرامہ بھارتی حکومت یا سیکیورٹی فورسز کے کرتا دھرتاؤں نے خود رچایاتھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں تیزی سے پھیلتی اور شدت اختیار کرتی ہوئی تحریک آزادی سے عالمی برادری کی توجہ ہٹائی جاسکے۔
اس حوالے سے پاکستان کا موقف یہ ہے کہ جب بھارت نے لائن آف کنٹرول پر باڑ لگا رکھی ہے اور اس کی سات لاکھ سے زیادہ فورسز مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں موجود ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آزاد کشمیر کے راستے کوئی پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو، پھر وہاں ایک حساس علاقے میں داخل ہوکر یہ واردات بھی کردے۔ ایسا کسی طور ممکن نہیں، لیکن بالفرض ایسا ہوا ہے تو بھارتی سیکیورٹی فورسز کو ڈوب مرنا چاہیے اور حکمرانوں کو بھی۔۔۔اس سارے ڈرامے میں ناکام ہونے کے بعد اب بھارت نے کنٹرول لائن پر فائرنگ کی ہے اور اسے سرجیکل سٹرائیک کا نام دیا ہے۔ مقصد وہی ہے، یعنی مقبوضہ کشمیر سے تو جہ ہٹانا۔ بعید نہیں کہ وہ اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لئے لائن آف کنٹرول پر کوئی محاذ گرم کرنے کی کوشش کرے، اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان بھارت کی کسی بھی چال کو ناکام بنانے کے لئے ہر طرح سے تیار رہے۔ ماضی میں جب بھی لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے بلا شتعال فائرنگ اور گولہ باری کی گئی اور پاکستان کی جانب سے اس کا اسی شکل میں جواب دیا گیا تو ہمیشہ یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا کہ دونوں فورسز کے مابین کوئی غلط فہمی ایک بڑی اور بھرپور جنگ کا باعث بن سکتی ہے،نیز یہ کہ اگر روایتی جنگ کا آغاز ہوگیا تو یہ روایتی جنگ تک محدود نہیں رہے گی، بلکہ اس کے غیر روایتی رخ اختیار کر جانے کا اندیشہ ہر دم موجود رہے گا، یعنی عام اسلحہ و بارود سے لڑی جانے والی جنگ ایٹمی جنگ میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے، کیونکہ دونوں ملکوں کے پاس ایٹمی اسلحہ موجود ہے۔
اب چونکہ پاکستان کے پاس بھارت کے مقابلے میں فوج اور وسائل کم ہیں، اس لئے اس نے اعلان کر رکھا ہے کہ بھارت کی جانب سے روایتی حملوں کا جواب غیر روایتی انداز میں دیا جائے گا، چنانچہ مودی لائن آف کنٹرول پر جو کچھ کر رہے ہیں، انہوں نے اس سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو معاملات ایسی صورت اختیار کر سکتے ہیں، جن سے واپسی ممکن نہیں رہے گی۔کسی بھی جنگ میں ایٹمی اسلحے کا استعمال آسان نہیں۔ اس سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلتی ہے اور اثرات کئی دہائیوں تک برقرار رہتے ہیں۔ تجربات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اگر جوہری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ اس کے نتیجے میں وہ سماجی اور مادی نیٹ ورکس بھی ختم ہو جائیں گے جو روزمرہ زندگی کو ممکن بناتے ہیں۔ خاندان اور پڑوسی سب برباد ہو جائیں گے، فیکٹریاں، دکانیں، بجلی اور پانی کے نظام تباہ ہو جائیں گے، ہسپتال،سکول اور دیگر سرکاری دفاتر نابود ہو جائیں گے، پناہ گزینوں کا سیلاب جسمانی یا مادی اثرات کو شہروں کی حدود سے کافی آگے لے جائے گا۔ یہ لوگ بیمار ہوں گے۔ تابکاری سے متاثر ہوں گے زخمی ہوں گے اور ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
دونوں ملکوں کے بچ جانے والے شہریوں کے علاوہ پوری دنیا سے جوہری حملوں کے خلاف شدید رد عمل سامنے آئے گا۔ کوئی بھی چیز پھر کبھی پہلے جیسی نہیں ہو سکے گی۔ان سارے مسائل کا حل مذاکرات کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا، لیکن بات چیت کی طرف آنے کی بجائے بھارت پر جنگی جنون سوار ہے، جواگر جلد نہ اترا تو تباہی کی طرف لے جائے گا۔ یہ صورت حال ایک بار پھر اس اہم معاملے کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے سلسلے میں عالمی برادری کو اپنے حصے کی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔ اس مسئلے کے حل تک جنوبی ایشیا میں روایتی یا غیر روایتی جنگ کا خطرہ اسی طرح برقرار رہے گا۔ اس وقت کا سوال یہ ہے کہ آیا عالمی برادری لائن آف کنٹرول پر یہ جنگ ہونے دے گی، جس سے اٹھنے والی ایک چنگاری ایٹمی جنگ کے شعلے بھٹرکا سکتی ہے؟