عمران خان، آپ کا شکریہ!
لاہور کے شہریوں کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا شُکر گزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے سرکاری اداروں پر مجموعی اور انفرادی تنقید کرتے ہوئے بھی لاہور کی ضلعی انتظامیہ سے بڑی حد تک تعاون کیا اور شہریوں کو کوفت سے بچا کر خود اپنا جلسہ بھی کر لیا، جس کے ساتھ ہی وہ خدشہ بھی ٹل گیا جو ہم جیسے حضرات کے دماغوں میں پل رہا تھا کہ ایک نیا دھرنا شروع ہونے جا رہا ہے،لیکن ایسا نہیں ہوا، انہوں نے سرحدوں پر کشیدہ حالات کا ذکر کر کے بتا دیا کہ ایسا نہیں ہو گا، وہ کہتے ہیں ’’ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مَیں آپ(شرکاء) کو کہتا کہ جلسے کے بعدیہیں بیٹھ جائیں اور اُس وقت تک نہ اُٹھیں جب تک وزیراعظم خود کو احتساب کے لئے پیش نہ کر دیں، لیکن سرحدوں پر غیر معمولی حالات کی وجہ سے ہم ایسا نہیں کر رہے‘‘۔ پھر انہوں نے یہ اعلان کر کے بات ختم کی کہ محرم کے بعد اسلام آباد کا رُخ کریں گے، تیاری کر لو(شرکاء) کہ اسلام آباد کو بند کر دیں گے۔عمران کا شُکر گزار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کے روز لاہور میں اڈہ پلاٹ کے سوا کسی اور جگہ کچھ نہیں ہوا، بلکہ ٹریفک بھی معمول کے مطابق چلتی رہی،حالانکہ عمران نے بذات خود دو روز تک لاہور کے مختلف علاقوں کا دورہ کر کے عوام کو رائیونڈ چلنے کی ترغیب دی اور اسے رائیونڈ مارچ کا نام دیا تھا، لیکن مارچ تو نہ ہو سکا البتہ ایک معقول اور اچھا جلسہ ضرور ہو گیا، جس نے کچھ عزت رکھ لی۔
ہم صبح گھر سے دفتر کے لئے روانہ ہونے لگے تو صاحبزادہ عاصم نے کہا کہ گاڑی لے چلتے ہیں ۔وہ ہمیں دفتر پہنچا کر اپنے دفتر چلا جائے گا اور واپسی پر ہمیں دفتر ہی سے لے لے گا، ہم نے اُس سے اتفاق نہ کیا کہ اپنے صحافتی تجربے اور ماضی کے سیاسی مارچ کی کوریج یاد کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ وہ موٹر سائیکل پر لے چلے، تاکہ تحریک انصاف کے رائیونڈ مارچ کی وجہ سے ٹریفک میں پھنسنے سے بچا رہے۔ وہ مان گیا اور ہم اطمینان سے دفتر پہنچ کر کام میں مصروف گئے۔ خیال تھا کہ واپسی پر ساڑھے چار بجے کے بعد کینال بنک روڈ پر ٹریفک کا مسئلہ ہو گا تو شاید مال روڈ اور کسی اور جگہ سے بھی پریشانی ہو، کیونکہ عمران خان نے لوگوں سے کہا تھا کہ وہ گلی گلی، محلے ، محلے سے جلوسوں کی شکل میں نکلیں، خود انہوں نے اعلان کیا تھا وہ زمان پارک سے نکلیں گے، یوں یہ طے تھا کہ وہ کینال بنک روڈ سے ہوتے ہوئے جوہر ٹاؤن کے اندر سے رائیونڈ روڈ اور وہاں سے اڈہ پلاٹ کی جلسہ گاہ پہنچ جائیں گے، لیکن ایسا نہ ہوا،بلکہ انہوں نے ضلعی انتظامیہ کی تجویز مان لی کہ دہشت گردی کا خدشہ ہے اور ہائی الرٹ بھی ہے، اِس لئے وہ مہربانی فرمائیں اور ہیلی کاپٹر استعمال کر لیں۔ چنانچہ وہ زمان پارک سے ہیلی کاپٹر پر اڈہ پلاٹ کے قریب بنائے گئے ہیلی پیڈ تک پہنچے اور جلسہ گاہ میں جا کر پُرجوش نعروں کا جواب دیا۔ انتظامیہ نے سیکیورٹی اور ٹریفک کے سخت انتظامات کئے تھے، اس کے باوجود علاقے کے لوگوں کو تو پریشانی ہوئی۔
ہم نے ذکر کیا تھا کہ صاحبزادے نے ہمیں موٹر سائیکل پر دفتر پہنچایا تھا اور وہ لینے کے لئے بھی موٹر سائیکل پر ہی آیا اس سے پہلے ہمارے دفتر کے ایک ساتھی جو صحافی کالونی ہربنس پورہ سے اپنی گاڑی پر آتے ہیں، دفتر میں مل گئے۔ ہم نے ان کو خوش آمدید کہا اور ٹریفک کا حال پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ کوئی مسئلہ نہیں۔ کینال بینک روڈز پر معمول کے مطابق ٹریفک جاری ہے اور مال روڈ کی طرف بھی کوئی پریشانی نہیں، بلکہ خود عمران خان کی رہائش زمان پارک پر بھی کوئی زیادہ رونق نہیں۔ ہم نے خیال کیا ابھی ساڑھے چار اور پانچ بجے کا وقت ہوا ہے شاید کچھ دیر بعد صورتِ حال مختلف ہو۔ ایک دوست سے ملنے کے لئے رک گئے اور ان کے ساتھ ملاقات اور بات چیت کے بعد واپس گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ ہم کینال بنک روڈ سے جناح ہسپتال والے موڑ تک جایا کرتے ہیں اور پھر کریم بلاک، جناح ہسپتال لنک روڈ سے ہوتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں۔ کینال روڈ پر مڑے تو اس وقت ایک ویگن نظر آئی، غور کیا تو نوجوان لڑکے تحریک انصاف کے جھنڈے پکڑے بیٹھے تھے، ویگن آدھی خالی تھی، اِسی طرح جناح ہسپتال والے انڈر پاس اور موڑ تک آتے ہوئے قریباً سات ویگنوں سے واسطہ پڑا اور ان کا حال بھی پہلے والی ویگن جیساتھا کہ آدھی خالی تھیں۔ پھر کوئی جلوس یا گاڑیوں کا قافلہ نظر نہیں آیا،اللہ کا شکر ادا کیا کہ شہری مشکل سے بچے ہوئے ہیں۔ گھر پہنچ کر کھانا کھایا تو عاصم چودھری گراسری کے لئے تیار ہو گئے، جو وہ ہائیپر سٹار سے لاتے ہیں اور جب سے جوہر ٹاؤن میں ہائیپر سٹار کی برانچ شروع ہوئی تب سے ادھر ہی جاتے ہیں۔ ہم نے اعتراض کیا کہ جلسے کی وجہ سے ٹریفک کا مسئلہ ہو گا کہ یہی راستہ جلسہ گاہ کا بھی ہے، وہ کہنے لگے ابھی تو جلسہ جاری ہے، ہم جلد واپس آ جائیں گے۔ بہرحال تجویز مان لی گئی اور گھر سے روانہ ہوئے۔ کینال بنک سے ایکسپو سنٹر والی سڑک کی طرف مڑے تو سڑک خالی خالی نظر آئی، مارکیٹوں کی مرکزی دکانیں بند ملیں اور ٹریفک بھی تھوڑی تھی۔ گراسری کے بعد گھر واپسی کے لئے بھی کوئی مشکل پیش نہ آئی اور اطمینان سے گھر پہنچ گئے، ٹیلی ویژن آن کیا تو جلسہ جاری تھا اور عمران خان تقریر کر رہے تھے۔ ٹی وی کیمرے زوم کر کے مجمع دکھاتے تو یوں احساس ہوتا تھا کہ بہت دور تک انسان ہی انسان ہیں اور جلسہ بہت ہی بڑا ہے کہ سٹیج کے سامنے ایک کلو میٹر تک لائٹیں لگی ہوئی تھیں اور اس سڑک پر20ہزار کرسیوں کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا۔
اس سلسلے میں جلسے کی حاضری کے دعوؤں کا جائزہ لینے سے پہلے یہ عرض کر دیں کہ ہم نے1963ء میں جرنلزم میں قدم رکھا، تب سے اب تک اس سے منسلک ہیں اور عمر کا بہترین حصہ رپورٹنگ میں گزارا، سرکاری جلسے جلوسوں کے علاوہ اپوزیشن کے جلسے جلوسوں کی کوریج بھی کی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی کے طوفانی دوروں اور جلسوں کی کوریج کی تو جمہوری مجلس عمل اور پاکستان قومی اتحاد کی تحاریک کی رپورٹنگ بھی تسلسل سے کی۔ ہمیں یاد ہے کہ ان ادوار میں جب جلسے اور مظاہرے کا اعلان ہوتا تو گھر گھر سے جلوس نکلتے تھے، محلے محلے سے ٹولیاں نکل کر جلسہ گاہ کا رُخ کرتی تھیں اور سارے شہر میں بھونچال کی سی کیفیت بن جاتی تھی۔ ہم نے ایک دو نہیں ایسے بیسیوں مظاہروں اور جلسوں کی کوریج کی ہوئی ہے اور ہر مرتبہ ایسی ہی کیفیت ہوتی تھی،اِسی تجربے کی بنا پر ہمارا خیال تھا کہ عمران خان کے چیتے بھی نکلیں گے اور مظاہرین کی ذہنی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ ٹریفک کا مسئلہ ضرور پیدا کیا جاتا ہے،لیکن ایسا بالکل نہیں تھا، شہر پُرسکون تھا۔
اب رہ گئی بات کہ جلسہ گاہ میں کتنے لوگ تھے، تو تحریک انصاف کا دعویٰ سُن کر ہنسی آ گئی، سٹیج سے کہا گیا نو لاکھ چالیس ہزار لوگ جلسہ گاہ میں آ چکے اور ابھی پچاس فیصد راستے میں ہیں،پھر وہیں سے آواز آئی نہیں چالیس فیصد، یہ بھی ان کی کسر نفسی تھی کہ اتنا بتایا ورنہ وہ پندرہ سے بیس لاکھ بھی کہہ سکتے تھے کہ عمران خان نے پورے پاکستان کو مدعو کیا تھا، دوسری طرف رانا ثناء اللہ کا دعویٰ کہ پندرہ بیس ہزار تھے، دونوں کو نہ مانیں تو خود تجزیہ کر لیں، بلکہ اڈہ پلاٹ کی جگہ اور ایک کلو میٹر سڑک ناپ کر اس کے فٹ بنا لیں اور ہر ایک مربع فٹ کے لئے ایک فرد تصور کر کے حساب لگا لیں تو غلط فہمی دور ہو جائے گی۔ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ جلسہ اچھا تھا کامیاب تھا بڑا تھا۔ بہرحال معتبر ذرائع نے تعداد30سے35ہزار بتائی ہے۔ دروغ برگردن راوی جو جس نے کہا ہم نے تحریر کر دیا تجویز بھی دے دی ، قارئین! خود اندازہ لگا لیں۔ہمیں تو ابھی تک خان صاحب کے منصوبے کی سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اب انہوں نے کہا ہے کہ محرم کے بعد حکومت نہیں کرنے دیں گے۔وزیراعظم اپنے موقف پر ہیں کہ وہ اکثریت کے حامل برسر اقتدار ہیں، پھر ایجی ٹیشن اور اسلام آباد بند کر دینے سے کیا ہو گا، کیا عمران خان انتظامیہ کو کارروائی پر مجبور کر کے کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ یہ تو اب وقت ہی بتائے گا،جو زبان استعمال کی گئی اس کا ذکرپھر سہی!