پاک چین اقتصادی راہداری آخر ہے کیا؟

پاک چین اقتصادی راہداری آخر ہے کیا؟
پاک چین اقتصادی راہداری آخر ہے کیا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


چین کے صوبے سنکیانگ اور گوادر کے درمیان جو جدید ترین رابطہ سڑک بن رہی ہے اُسے ہم سادہ سے الفاظ میں CPEC کہہ سکتے ہیں، لیکن اس سادہ سی وضاحت کو سمجھنے کے لئے ہمیں پہلے گوادر کے بارے میں جاننا ہوگا ،جو 1992ء تک ایک بے آب و گیاہ پہاڑی ٹیلہ سا تھا جو بحیرہ عرب کے ساتھ ساتھ لگتے ہوئے، مکرانی ساحل پر کراچی سے 550کلو میٹر ، ایران کی بندر گاہ چاہ بہار سے 124 کلو میٹر اور سلطنتِ عمان سے 240 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ امارات کی بندرگاہ جبل علی سے اس کا فاصلہ قریباً 850 کلو میٹرہے۔ اِن فاصلوں کی تفصیل آپ کے لئے جاننا ضروری ہے، کیونکہ اس مضمون میں آگے چل کر یہ فاصلے پاکستان کے دوستوں اور دشمنوں کی پہچان کا باعث بنیں گے۔ گوادر اب تو بلوچستان کا ایک اہم ضلع بن گیا ہے، جس میں پسنی اور جیونی کی اہم تحصیلیں شامل کی گئی ہیں۔ اس جزیرہ نما گوادر پر 1954ء میں پاکستان کے وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی نظر پڑی تھی۔ اُن کو اس بیکار سے ٹیلے کی اہمیت کا احساس ایڈمیرل صدیق چودھری نے دِلایا تھا۔ صدیق چودھری اُس وقت پاکستان نیوی کے کمانڈر اِن چیف تھے اور ڈیفنس منسٹر کا عہدہ بوگرہ صاحب کے ہی پاس تھا۔ گوادر جغرافیائی لحاظ سے بلوچستان کی سمندری حدود کا حصہ تھا، لیکن اس کی ملکیت مسقطی سلطان کے پاس تھی، 250 سال تک مکرانی ساحل اور ریاست قلات کا کافی بڑا حصہ مسقط کے سلطان کے زیر تسلط رہا ہے۔ انگریزوں نے جب ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ جمایا، جس میں بلوچستان بھی شامل تھا، گوادر کو بالکل نظر انداز کر دیا اور یہ بے کار سی سنگلاخ پہاڑیوں کا سلسلہ مسقط کے ہی قبضے میں رہا حتیٰ کہ پاکستان کی نظر اس جزیرہ نما پر پڑی اور 1954 میں اس ٹیلے کو خریدنے کا عندیہ محمد علی بوگرہ نے دیا اور ستمبر 1958ء میں اُس وقت کے وزیراعظم فیروز خان نون نے 30لاکھ ڈالر دے کر گوادر پر پاکستان کی Sovereignty قائم کر دی۔
گوادر کی اہمیت بطور ایک جنگی اہمیت کے حامل ٹیلے کی، سکندرِاعظم کے زمانے سے ہی رہی۔ محمد بن قاسم نے 711 ء میں اس ٹیلے کو اپنے بحری بیٹرے کے عارضی پڑاؤ کے لئے استعمال کیا۔ ایران کے صفوی خاندان کا قبضہ 18ویں عیسوی تک گوادر پر رہا اور پھر جیسے کہ مَیں نے اُوپر بتایا ہے 20ویں صدی کے درمیان تک اس جگہ پر مسقطیوں کا قبضہ رہا۔ خدا کی شان دیکھئے، 1954 میں پاکستان کے سفارتی اور فوجی تعلقات مکمل طور پر امریکہ کے ساتھ تھے۔ چینیوں سے ابھی ہماری دُعا سلام بھی نہیں ہوئی تھی، حالانکہ اُس وقت چیرمین ماؤ اور چواین لائی جو اپنے وقت کے عظیم دُورشناس تھے، اُنہوں نے بھی ابھی پاکستان کی اہمیت کو نہیں جانا تھا۔وزیراعظم بوگرہ کے ہم عصروں میں سعودی عرب کے شاہ فیصل تھے، ہندوستان کے نہرو تھے اور ایران کے رضا شاہ پہلوی تھے۔ اُس وقت امریکہ سمیت ہمارے کسی بھی ہمسایہ ملک کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ ’’بے کار اور بے آب و گیاہ‘‘ دُور اُفتادہ جزیرہ نما دُنیا میں ہلچل مچا دے گا۔ امریکہ اور ہندوستان کی ملی بھگت سے بنی ہوئی چین کے خلاف معاشی صف بندی کے لئے خطرہ بن جائے گا۔ ہمارے پیارے ایران اور دبئی کو اپنی تجارتی بندرگاہوں کا مستقبل اندھیروں میں ڈوبتا نظر آئے گا۔
دراصل پاکستان کی ذہین خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اپنے دورِحکومت میں گوادر کی اہمیت کو محسوس کرنا شروع کر دیا تھا۔ نومبر 1993 میں بے نظیر بھٹو صاحبہ نے گوادر کا دورہ کیا، کیونکہ انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ کراچی اور پورٹ قاسم کی بندرگاہیں بھاری جہازوں کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہیں۔ آپ یوں دیکھ لیں کہ 2012ء کے سروے کے مطابق دُنیا کی 100 اہم اور جدید بندرگاہوں میں کراچی اور پورٹ قاسم کا نام نہیں ہے۔ بے نظیر کی حکومت کو بہرحال یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ 1954ء میں خریدی ہوئی پاکستان کی اس ’’جائیداد‘‘کا کوئی مصرف نظر آیا۔ بے نظیر کی حکومت ختم ہو گئی ، اُس کے بعد جناب نوازشریف حکومت میں آئے، لیکن وہ بھی اُس وقت گوادر کی اہمیت کو نہ سمجھ سکے۔ وہ تو یوں ہوا کہ چین کے صدر Zhu Rongi نے گوادر کا بہ نفسِ نفیس دورہ2001ء میں کیا،جبکہ اُس وقت جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی۔جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے گوادر کو پہلی مرتبہ تجارتی اہمیت سے دیکھا۔ اِس دوران سویا ہوا اور الگ تھلگ رہنے والا چین سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بن چکا تھا۔ اُس کی تجارتی منڈیاں دُنیا کے تمام براعظموں میں بن چکی تھیں۔یہاں تک کہ چین دُنیا کی 45فیصد صنعتکاری کا مالک بن چکا تھا۔ امریکہ اور یورپ کی مینوفیکچرنگ کی صنعتیں تنزل کا شکار ہونے لگیں، امریکہ میں 22فیصد بیکاری نے جگہ بنالی، امریکہ 19کھرب ڈالر کا چین کا مقروض ہو گیا۔ امریکہ کی فکر مندی چھوت کی بیماری کی طرح دوسرے سرمایہ دار ممالک کو بھی لگ گئی۔ جنرل پرویز مشرف کو اِس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اُس نے آنے والے بین الاقوامی ہلچل مچانے والے حالات کو اپنی بصیرت سے سمجھ لیا تھا۔ گوادر کو گہرے پانی کی اعلیٰ ترین بندرگاہ بنانے کے لئے پہلے مرحلے پر 2002ء میں کام شروع کر دیا گیا جو قریباً29 کروڑ ڈالر کی لاگت سے مکمل ہوا۔ گوادر کی بندرگاہ پر پہلا بحری جہاز 2008ء میں 70,000 ٹن گندم کے وزن کے ساتھ لنگرانداز ہوا۔ ’’بے آب و گیاہ‘‘ اور سنگلاخ گوادر عظیم بندگاہوں کی فہرست میں شامل ہونے کے لئے پر تولنے لگا۔
اِدھر امریکہ چین کو سرمایہ دارنہ نظام کی سرداری پر براجمان ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ امریکہ کی تمام مینوفیکچرنگ انڈسٹری چین کے صنعتی شہروں میں اپنے ٹھکانے بنا چکی تھی۔ چین میں ملازمتوں کی فراوانی ہو چکی تھی اور امریکہ میں بے روزگاری پھیل چکی تھی۔چین بھی پچھلے 20-15 سال سے پوری طرح آگاہ ہے کہ اُس کی تجارت کا عظیم پھیلاؤ صرف ایک سمندری راستے پر منحصر ہے۔ اگر امریکہ یا اُس کا کوئی حلیف چینی سمندری جہازوں کی ناکہ بندی کرنے میں کامیاب ہو جائے تو چین کی تجارتی عظمت دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گی۔ افریقہ ،یورپ اور ایشیاء کی منڈیوں تک پہنچے کے لئے چین کے تجارتی جہازوں کو بحرالکاہل (Pacific Ocean) سے گذر کر بحرہند اور بحراوقیانوس(Atlantic Sea) میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ اِسی طرح چین کے لئے تیل کے ٹینکر مشرقِ وسطیٰ کے پانیوں سے ہو کر اور بحر ہند سے گزرتے ہوئے چین تک پہنچتے ہیں۔ تیل کی 15 روز کی عدم دستیابی چین کے لئے موت کی گھنٹی کی طرح ہے۔ چین کے لئے بحری جہازوں کی آمدو رفت ایک تنگ سی آبنائے کے ذریعے ہوتی ہے۔ یہ آبنائے Strait of Malaccaکہلاتی ہے،جو ملائیشیا اور سماٹرا کے درمیان 40 کلو میٹر چوڑی اور قریباً 850 کلو میٹر طویل سمندری پٹی ہے ، کہیں پر یہ سمندری گلی 2.5 کلو میٹر چوڑی ہے۔ امریکہ کا ساتواں بحری بیٹرہ ہر وقت اس سمندری گلی کے اِردگرد لنگر انداز رہتا ہے۔ہندوستان بحرہند کی چوکیداری سنبھالنے کے لئے پَر تول رہا ہے۔ درایں حالات چین کے لئے متبادل اور محفوظ تجارتی راستہ بہت اہم ہے۔ آج سے 9-8 سال پہلے تھائی لینڈ نے اپنے مُلک کے جنوبی حصے میں نہرِسوئز کی طرح 150 فٹ گہرا سمندری راستہ بنانے کی تجویز دی تھی۔یہ مجوزہ نہر چین اور بحر ہند کے درمیان 600 کلو میٹر فاصلہ مزید کم کر سکتی تھی، لیکن پُر اسرار وجوہات کی وجہ سے تھائی لینڈ نے یہ تجویز واپس لے لی۔ اَب چین کے لئے ایک ہی محفوظ راستہ تھا جو قدیم شاہراہِ ریشم کا جدید ماڈل بن سکتا تھا۔
یوں CPEC کے تصور نے باقاعدہ جنم لیا۔ خیال رہے کہ چین کے صدر ژو رونجی2001ء میں جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں اپنی خواہش کا اِظہار گوادر کے دورے پر کر چکے تھے۔ چین کے جہازوں کے لئے آبنائے ملاکا کسی وقت بند ہو سکتی تھی۔ تھائی لینڈ کی تجویز رّد ہو گئی تھی۔ شاہراہِ قراقرم کی Upgrading گوادر کی گہرے پانی کی بندرگاہ کے طور پر اعلیٰ ترقی، رابطہ سڑکوں کا جال ، چین اور گوادر کے درمیان ریل گاڑی چلانے کا منصوبہ اور پاکستان کے تمام اہم اور بڑے شہروں کو گوادر سے ملانے کا منصوبہ ۔ یہ سب کچھ چین کی اشد ضرورت ہے۔ CPECکا منصوبہ 46 ارب ڈالر کے قرضے سے مکمل ہوگا۔ ہمارے لیڈر جو CPEC کے منصوبے پر جشن منارہے ہیں کتنے کو تاہ بین ہیں۔ ارے بھائی کیا آپ چین سے اِتنی بات نہیں کر سکتے تھے کہ اے چینی بھائیو۔ متبادل تجارتی راستہ آپ کی ضرورت ہے۔آپ کی تجارتی سرداری قدیم شاہراہِ ریشم کو جدید بنانے سے ہی قائم رہے گی۔ ہمیں اِتنے بھاری قرض کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اپنے ذرائع سے آہستہ آہستہ گوادر کو ترقی یافتہ بنالیں گے۔ آپ کو CPEC چاہئے تو سرمایہ کاری بھی آپ ہی کریں۔ ہم اِتنے بھاری قرضے کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے۔ لیکن صدافسوس ؛
قومے فروختند، و چہ ارزاں فروختند

ahmad_manzoor@hotmail.com

مزید :

کالم -