قومی اسمبلی میں ’’انرجی آڈٹ ‘‘کے ذریعے پہلی مرتبہ کروڑوں روپے کی بچت کی گئی
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
قومی اسمبلی میں روزمرہ کی تقریریں خبروں کی صورت میں اور نوک جھونک جھلکیوں اور پارلیمانی ڈائریوں کی شکل میں سامنے آتی رہتی ہیں مگر بہت سی مثبت اور انتہائی اہمیت کی حامل خبریں ایسی بھی ہوتی ہیں جن سے پارلیمانی رپورٹر یا کبھی کبھار اسمبلی کی راہداری سے گزرنے والے وزیٹر باخبر ہوں تو ہوں، عام لوگ ان سے بے خبر ہی رہتے ہیں۔ ایک زمانے میں ایسی خبریں آیا کرتی تھیں کہ سپیکر نے اسمبلی کے عملے میں مختلف عہدوں پر اپنے حلقے کے لوگوں کو تعینات کردیا یا پھر اپنے ملنے ملانے والوں کی سفارش پر کسی کو ایسے عہدے پر لگا دیا جو اس کا اہل نہ تھا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جب قومی اسمبلی کے سپیکر تھے تو ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے عہدے کا فائدہ اٹھا کر ایسی بہت سی بھرتیاں کی تھیں جن میں یا تو اختیارات سے تجاوز کیا گیا تھا یا پھر میرٹ کا لحاظ نہیں رکھا گیا تھا، چنانچہ جب وہ عہدے سے الگ ہوئے تو ان کے خلاف ریفرنس بھی اس الزام میں دائر ہوا، جس کا وہ یہ کہہ کر دفاع بھی کیا کرتے تھے کہ ہاں ہم نے نوکریاں دی ہیں اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ تھا کہ جو نوکریاں دی گئی تھیں کیا وہ ریوڑیوں کی طرح بانٹ دی گئیں یا پھر یہ دیکھا گیا کہ جس عہدے پر کسی کا تقرر کیا گیا ہے وہ اس کا اہل بھی ہے یا نہیں، یا پھر یہ کہ جس کام کی تنخواہ وصول کی جا رہی ہے اس کے عوض کچھ خدمات بھی انجام دی جا رہی ہیں یا نہیں کیونکہ خلافِ ضابطہ ملازمتوں پر بھرتی ہونے والوں میں سے بہت سے ایسے تھے جو اپنی ملازمت پر جانے کا تکلف بھی نہیں کرتے تھے۔ ان کا میرٹ صرف یہ تھا کہ وہ یا تو سپیکر سے براہ راست تعلق رکھتے تھے یا پھر ان کے جاننے والوں نے ان کے تقرر کی سفارش کی تھی۔ موجودہ سپیکر نے اسمبلی کے عہدے پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پُر کرنے کا فیصلہ کیا۔
قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق یوں تو ہمیشہ سے عمران خان کی نکتہ چینی کا ہدف بنے رہتے ہیں لیکن جب سے انہوں نے وزیراعظم کے خلاف ریفرنس مسترد کیا ہے اور عمران خان کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا اس وقت سے عمران خان ان پر زیادہ ہی مہربان ہیں یہاں تک کہ انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ وہ اسمبلی میں سپیکر کو ’’مسٹر سپیکر سر‘‘ کہہ کر مخاطب نہیں ہوں گے۔ عمران خان کے اس اقدام پر خود جناب سپیکر سردار ایاز صادق کو زیادہ ملال نہیں ہے جس کا اظہار انہوں نے ہفتے کے روز سی پی این ای کے پروگرام ’’میٹ دی ایڈیٹرز‘‘ میں خطاب کے دوران سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ادارے کو مضبوط بنانے کے حق میں ہیں اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں آئین، قواعد و ضوابط اور سپریم کورٹ کے فیصلوں اور ان سے ملنے والی رہنمائی کی روشنی میں کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سپیکر کو اختیار ہے کہ اسمبلی میں عملے کے ارکان کا خود تقرر کرے اور سابق سپیکر ایسا ہی کرتے رہے ہیں لیکن انہوں نے اسمبلی میں تمام عہدوں پر تقرر پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور پہلی مرتبہ دس ریسرچرز پبلک سروس کمیشن کے ذریعے قومی اسمبلی میں ملازمت حاصل کرکے آئے ہیں جن کا تعلق لاڑکانہ سمیت مختلف شہروں سے ہے۔ انہوں نے اس موقع پر خاص طور پر وضاحت کی کہ ان میں سے ایک بھی ان کے حلقے سے تعلق نہیں رکھتا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے قومی اسمبلی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ’’انرجی آڈٹ‘‘ کرایا۔ اسمبلی میں ایئر کنڈیشنگ سسٹم کیلئے 500 سے 600 ملین روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا، اسی طرح لفٹوں کی تنصیب کا تخمینہ 250 ملین روپے لگایا گیا تھا لیکن انہوں نے یہ کام بالترتیب 78 ملین اور 80 ملین میں کرائے اور قومی اسمبلی کو سولر بجلی پر منتقل کیا۔ ان سے سوال ہوا کہ اپوزیشن کو یہ شکایت ہے کہ وہ اسے زیادہ وقت نہیں دیتے بلکہ ایک رکن اسمبلی تو کہتے ہیں کہ سپیکر ان کامائیک بند کرا دیتے ہیں اس کا انہوں نے بڑے دلچسپ پیرائے میں یہ جواب دیا کہ ان سے سرکاری بنچوں کو یہ شکایت ہے کہ وہ اپوزیشن کو زیادہ وقت دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریکارڈ چیک کیا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن کو تقریروں کیلئے کتنا وقت ملتا ہے۔ البتہ جہاں تک مائیک بند کرنے کی شکایت کا تعلق ہے یہ صاحب (شیخ رشید) چاہتے ہیں کہ اپنی جماعت کے واحد رکن ہونے کے باوجود اپوزیشن کی جانب سے بحث کا آغاز وہ کریں جبکہ اس کا استحقاق اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت اور پھر درجہ بدرجہ ارکان رکھنے والی جماعتوں کو ہوتا ہے۔ ایک رکن کی حیثیت سے ان کا جتنا استحقاق بنتا ہے وہ انہیں دیا جاتا ہے بلکہ اس سے زیادہ دیا جاتا ہے لیکن جب وہ اپنے حصے سے بہت زیادہ طلب کرتے ہیں اور اس پر اصرار کرتے ہیں، تو پھر ان کا مائیک بند کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ سردار ایاز صادق کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے مستعفی ہونے والے ارکان کے بارے میں انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو پیش نظر رکھا اور ان کے استعفے منظور نہیں کئے کیونکہ ان میں سے کسی نے بھی اسمبلی میں آکر یا ان کے چیمبر میں ان سے ملاقات کرکے اپنے استعفوں کی تصدیق نہیں کی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ارکان جس عرصے میں اسمبلی میں نہیں آئے، انہیں اس عرصے کی صرف بنیادی تنخواہ ادا کی گئی، الاؤنسز اور دوسری سہولتیں نہیں دی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم پارلیمانی ڈپلومیسی کو بڑی کامیابی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہم نے خط لکھ کر دنیا کے 198 سپیکروں کو کشمیر کے مسئلے سے آگاہ کیا ہے اور دنیا بھر میں ان کی جن رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں انہیں بھی کشمیر کی صورتحال پر بریفنگ دی ہے۔ سردار ایاز صادق نے کہا کہ اب تک جتنے سپیکر آئے ہیں سب سے زیادہ ریفرنس ان کے پاس آئے ہیں، ورنہ ماضی میں کئی سپیکر ایسے بھی رہے جن کے پاس ایک بھی ریفرنس نہیں آیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ وہ ہر ریفرنس پر ضابطوں کے مطابق کارروائی کرتے ہیں۔