وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر82

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر82
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر82

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زبیر العروف جھارا نجیب الطرفین پہلوان تھا۔ پہلوانی زبان میں اصیل بوٹی تھا۔باپ کی طرف سے سلسلہ امام بخش رستم ہند اور گاماں پہلوان رستم زماں سے ملتا تھا تو ماں کی طرف سے گاماں کلووالا،کلو پہلوان رستم ہند،غلام پہلوان رستم زماں جیسے عظیم فن کار شاہ زوروں کا طرہ امتیاز حاصل تھا۔
زبیر ابھی جھارا نہیں بنا تھا اور اسے ملتان کے ایک بڑے خاندانی پہلوان کے مقابل اتار دیا گیا تھا۔ موہنی روڈ کے اکھاڑے میں بھولو پہلوان کی کڑی نگرانی میں زبیر کو تیار کرایا جارہا تھا۔ اس کی ریاضت میں اس قدر اثر تھا کہ وہ سولہ سترہ برس کی عمر میں مکمل پہلوان نظر آرہا تھا۔لانبا قد، چوڑی فولادی چھاتی اور سڈول رانوں کے ساتھ جب وہ لنگوٹ کس کر اکھاڑے میں آتا توتو بھولو پہلوان اور اچھا پہلوان لمحہ بھر کے لیے آنکھیں بند کرلیتے۔
’’یا مولا ہمارے جھارے کو نظر بد سے بچائے رکھنا۔‘‘ ان کے دلوں سے دعا نکلتی۔ پھر وہ دونوں اپنے ہاتھوں سے زبیر کو جھارے کے سانچے میں ڈھالنے میں مگن ہو جاتے۔ زبیر کے نگہبان تو متعدد تھے مگر بھولو پہلوان کے بعد ارشد بجلی پہلوان جیسے شہرہ آفاق فن کار کو تمام اختیارات حاصل تھے۔زبیر بلاچوں و چراں استاد کا کہا مانتا۔ زبیر طبعاً شرمیلا اور کم گو تھا۔یہ صفت جوش کی صورت میں اس کی رگوں میں چھپی ہوئی تھی۔ وہ زبان کی بجائے اپنے ہاتھوں کی قوت سے مقابل کو مسخر کرنے کی طبیعت پا رہا تھا۔

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر81  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بھولو پہلوان کو زبیر کی کم گوئی پر اعتراض تو نہ تھا مگر ایک خدشہ اسے ہمیشہ پریشان کیے ہوا تھا۔ ایک روز چند اخباری نمائندے موہنی روڈ کے اکھاڑے میں آئے اور زبیر کی تصویریں بنانا چاہیں تو وہ شرم سے چھپ گیا۔ ناصر بھولو کو خبر ہوئی تو اس نے اسے کھینچ کر صحافیوں کے سامنے لانا چاہا۔
’یار لڑکیوں کی طرح منہ چھپاؤ۔اخباری نمائندے کیا کہیں گے۔‘‘ناصر بھولو نے سمجھایا۔
’’میں کیا بات کروں گا۔تم خود جاکر کہہ دو جوبھی پوچھتے ہیں۔‘‘جھارے نے پہلو بچایا۔
’’وہ تمہاری تصویریں بنانا چاہتے ہیں۔‘‘
’’میں نہیں کھنچواؤں گا۔‘‘جھارے نے ضد کی۔
’’ابا جی سے بات کرتا ہوں۔خواہ مخواہ نموشی کرواؤ گے۔وہ خبر چھاپ دیں گے کہ انوکی سے بدلے کا خواب دیکھنے والا اخباری نمائندوں سے چھپ رہا ہے۔‘‘
یہ جھارے کی دکھتی رگ تھی۔’’ان کی ایسی کی تیسی۔خبر چھاپ کر تو دیکھیں۔‘‘ یہ کہہ کر جھارا ناصر بھولو کے ساتھ تصویریں بنوانے لگا۔
اس کے باوجود جھارے میں فطری جھجک تھی۔ بھولو کا خدشہ یہی اس کا شرمیلا پن تھا۔ اسے وہم ہو گیا کہیں جھارا اکھاڑے میں عوام کے سامنے جاتا ہوا شرمانے نہ لگ جائے۔
زوار پہلوان سے کشتی کے دن قریب آئے تو بھولو پہلوان نے جھارے سے کہا۔’’پترا میدان میں شرم اتار کر اترنا۔ ذرا گج وج کے تیرا اتارا ہونا چاہیے۔ دنیا کو پتہ چل جائے شیر میدان میں آگیا ہے۔‘‘
’’تایا جی فکر نہ کریں۔ایسا گج وج کے اتروں گا کہ لوگوں کے پیسے کھرے ہو جائیں گے۔‘‘
بالآخر زبر عرف جھارے کے پہلے دنگل کا دن آگیا۔ایک روز قبل رات کے وقت پہلوانوں کا روائتی جلوس نکالا تو لاہور یے جھارے کی صورت میں فن وطاقت کے کوہ گراں کو دیکھنے کے لیے امڈ آئے۔ جلوس کے سمے بہت سی بدشگونیاں اور بد انتظامی کے مظاہرے اور پہلوانوں کے ’’چھڑیوں‘‘ کے ہنگامے بھی دیکھنے کو ملے۔
تعلّی کا دور شروع ہو چکا تھا۔ مروت اور سادگی کے حسن پر شوبازی اور اوچھے پن کی تہہ چڑھتی جارہی تھی۔ امن و امان اور تفریح ملیامیٹ ہو رہی تھی۔وضع دار لوگ ختم ہو رہے تھے اور بے وضع لوگ عزت کے رتبے پھلانگ کر دستار شہر حاصل کرنے کے لیے مصروف عمل ہو چکے تھے۔ گویا اچھائی کا باب بتدریج اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔ دیسی کشتی کا فن اپنی معراج سے پستیوں میں گرنا شروع ہو گیا تھا۔ مگر پھر بھی ایک آس تھی، ایک حوصلہ تھا کہ بھولو پہلوان کی شکل میں درویش صفت اور وضع دار شاہ زور ابھی حیات تھا۔ جو اپنی نظروں کے سامنے دیسی کشتی کے آفتاب کو غروب ہوتے دیکھ رہا تھا لیکن اس امید پر میدان میں کھڑا تھا کہ وہ اپنی نسل سے دیسی کشتی کے آفتاب کو غروب ہوتے دیکھ رہا تھا لیکن اس امید پر میدان میں کھڑا تھا کہ وہ اپنی نسل سے دیسی کشتی کے عروج کو کبھی زوال نہیں آنے دے گا۔ وہ اپنے بھائیوں کے تعاون سے فی الحال اپنے ارادوں میں کامیاب تھا اور بھولو کے دم سے یہی غنیمت تھا کہ ابھی عہد رفتہ کا ختتام نہیں ہوا۔ ان کے دم سے میدان شاہ زوری میں امیدوں کی بہار قائم ہے۔
بھولو پہلوان کا پہلا خدشہ دم توڑ گیا تھا۔ جھارا پہلوان اتنے زور شور سے اکھاڑے میں اترا کہ حریفوں کے پسینے چھوٹ گئے۔ اس نے ریشمی تہبند لپیٹ رکھا تھا۔ رنگین دستار نے اس کی شان اٹھا رکھی تھی۔ وہ ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے منفرد انداز میں اکھاڑے کو سلامی دینے لگا۔ ڈھولچیوں کا ایک ہجوم اس کی سنگت کر رہا تھا۔ جھارے نے اپنے پہلے اتارے سے ہی دھاک بٹھا دی تھی۔
دنگل کا منصف کالا چناں ہیرو نمبر ون تھا۔ وہ منصف جو کبھی طوفان بن کر بھولو کی طرف بڑھا تھا مگر عین اپنے عروج پر پہنچ کر ساکت ہو گیا تھا اور کشتی سے ہمیشہ کے لیے تائب ہو گیا تھا مگر دیئے سے دیا روشن کرتا رہا تھا، آج ایک بڑے دنگل کی منصفی کے فرائض ادا کررہا تھا۔
جھارا اور زوار منصف کی اجازت سے آمنے سامنے ہوئے تو اکھاڑے میں ایک بھونچال سا نظر آیا۔ جھارے نے جاتے ہی زوار پہلوان کو دو دھولیں ماریں اور کسیں بھر کر نیچے گرا کر صاف چت کر دیا۔ بمشکل ایک منٹ میں ہی جھارے نے میدان مار لیا تھا۔
زبیر عرف جھارے کی پہلی فتح اس کے خاندانی حریف پر بہت بھاری تھی۔ بھولو پہلوان تو فرط مسرت سے جھارے کو چوم چوم کر نہ تھک رہا تھا۔ اسے اپنے خاندان کی لاج قائم رکھنے والا جو مل گیا تھا۔
ملتان کا قلعہ فتح کرنے کے بعد گوجرانوالہ میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ رحیم سلطانی والا رستم ہند کے بیٹے معراج پہلوان نے اپنے پٹھے گوگا پہلوان کو جھارے کے لیے تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔ گوگا پہلوان ایک منجھا ہوا فن کار اور عمر میں جھاڑے سے بڑا تھا۔ وہ صحیح معنوں میں چور بدن کا ایک بے مثال شاہ زور تھا۔ جس طرح مہنی رینی والا کو دیکھ کر عظیم شاہ زور ہونے کا گمان نہ ہوتا تھا ،گوگا بادی النظر میں اتنا بڑا رستم معلوم نہ ہوتا تھا لیکن حقیقت میں وہ پاکستان کا نامور پہلوان تھا۔
محمد افضل عرف گوگا گوجرانوالہ کا پیدائشی شاہ زور تھا۔ اس کے والد اصغر حسین لون پہلوانی سے شغف رکھتے تھے اور ماموں سردار عرف چاندی پہلوان مشہور دنگلئے تھے۔ گوگا کو شرافت اور نیک نامی ورثے میں ملی تھی اور وہ خود بھی اس کی لاج رکھنے والا ثابت ہوا۔ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں نامور پہلوانوں کو پچھاڑ چکا تھا اور رحیم سلطانی والا کے اکھاڑے کا آفتاب تھا۔ گوگا گوجرانوالیہ نے اپنے عہد کے بڑے پہلوانوں راجو راکٹ سیالکوٹی سے چار مقابلے لڑے اور دو جیت کر دو میں شکست کھائی۔ اس نے اکرام پہلوان، پپو پہلوان، عباس پہلوان ملتانیہ ا ور زوار پہلوان ملتانیہ کو بھی شکست دی تھی۔ گوگا کے اکھاڑے میں فتوحات کے متعدد جھنڈے لہراتے نظر آتے تھے۔
گوگا نے جھارے کو دعوت مبارزت دی اور پھر ٹھیکیداروں نے معاملات چلائے تو دو بڑے حریفوں کی نسل ایک بار پھر تاریخی معرکوں کو زندہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ۔اگرچہ گوگا کا رحیم سلطانی والا کے خاندان سے خونی رشتہ نہ تھا مگر شاگرد بھی بیٹے ہوتے ہیں۔یہی درجہ گوگا کو حاصل تھا۔ اس کے اندر رحیم سلطانی والا کی میراث ٹھاٹھیں مار رہی تھی۔ معراج پہلوان نے اسے کندن بنا دیا تھا۔ وہ تجربہ کاری اور داؤ پیج میں مہارت کا جوالا تھا۔ ہر طرف یہی چرچا تھا کہ چور بدن گوگا جھارے کو لے ڈوبے گا لہٰذا بھولو برادران کو چاہیے کہ وہ ابھی جھارے کو گوگے کے سامنے نہ لائیں۔
لیکن یہ ممکن نہ تھا۔27جنوری1978ء میں قذافی اسٹیڈیم لاہور دیسی کشتی کے شائقین سے بھرچکا تھا۔ایسا جنون دکھائی دے رہا تھا جو ورلڈکپ میں بھی نہ ہو۔ جھارا اور گوگا ناپ تول کر ایک دوسرے پر جھپٹے تھے۔جھارا مزاجات جارحانہ انداز میں لڑتا تھا۔ وہ مدافعت اور بچاؤ کی بجائے حریف پر بڑھ چڑھ کر حملے کرتا تھا۔ اس نے جب گوگا کو لگتے ہی دو کسوٹے رکھے تو گوگا نے سنبھل کر اسے نیچے گرا لیا اوراپنی رانوں کے درمیان اس کی گردن جکڑ کر کنڈا ڈال لیا۔ اس کے بعد جھارے کو الٹانے کی دیر تھی اور میدان گوگا کے ہاتھ میں ہوتا لیکن مقابل جھارا تھا۔ بھولو کا بھتیجا اور پٹھا۔۔۔اس نے فصیل جاں کا زور لگایا اور کنڈا توڑ دیا۔ گوگا کا کنڈا مہلک اور پسندیدہ داؤ تھا جو تار عنکبوت کی طرح ٹوٹا تو گوگا ایک بار پھر سنبھل گیا لیکن اس دوران جھارا توڑ کرنے کے ساتھ ہی اس کی گردن پر آگرا اور گوڈا گردن پر رکھ کر ہاتھ جانگئے میں ڈال دیئے اور بازی لگوا دی۔
جھارے نے دوسرا میدان بھی مار لیا تھا۔ شائقین اکھاڑے میں داخل ہوئے اور جھارے کو کندوں پر اٹھا کرلے گئے۔ اس موقع پر گوگا کے حلیفوں نے دھاندلی کا شور مچا دیا اور اس صاف کشتی کو متنازعہ قرار دینے لگا۔ تاہم عینی شاہدوں کے مطابق جھارے نے سترہ منٹ بعد گوگے کو صاف چت کر دیا تھا۔
زبیر جھارا بن گیا تھا۔ اس کی پرواز میں تندہی آگئی تھی۔ انہی دنوں بھولو برادران کا پروموٹر سلیم صادق نمودار ہوگیا۔ اسے معلوم تھا بھولو برادران انوکی پر خار کھائے بیٹھے ہیں لہٰذا اس نے بھولو پہلوان سے ملاقات کی اور انوکی سے جھارے کی ملاقات کا معاملہ اٹھایا۔(جاری ہے )

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر83 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں