پاکستان2018ء توقعات نتائج؟

2018
پاکستان میں انتخابات کا سال تھا، آغاز سے ہی اپوزیشن نے اپنے تحفظات کا اظہار کردیا تھا کہ تحریک انصاف کواقتدار میں لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ اگر انتخابات FREE FAIR ہوئے تو مسلم لیگ (ن) ہی اقتدار میں آئے گی اور میاں نواز شریف کے نااہل ہو جانے کی وجہ سے ان کے بھائی اور پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف وزیر اعظم ہو سکتے ہیں، لیکن ایسا نہ ہوا یا نہ ہونے دیا گیا تو عمران خان وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ اپوزیشن نے اشاروں میں الزام عائد کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے لوگوں کو مجبور کیا جارہا ہے،وہ عمران خان کے ساتھ مل جائیں، کیونکہ وہ عمران خان کو اقتدارمیں لانا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں ہر انتخابات میں یہ الزام لگتا رہا ہے کہ فوج نواز شریف کواقتدار میں لانا چاہتی ہے، فوج آصف علی زرداری کواقتدار میں لانا چاہتی ہے۔
فوج ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار میں لائی تھی، فوج نے Aکواقتدار سے نکالا، فوج نےBکواقتدار سے نکالا، فوج نے Cکواقتدار سے نکالا۔عمران خان وزیر اعظم بن گئے ہیں، انہیں Elected وزیر اعظم ہی کہا گیا اور Selected وزیر اعظم بھی کہا جاتا ہے۔ وہ اپنی ’’اعلیٰ کارکردگی‘‘ کی بنیاد پر مسترد کئے جاتے ہیں یا وہ بھی یہ پوچھتے دیکھے جائیں گے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘؟ وقت بتلائے گا، لیکن علاقائی سیاست کے پس منظر میں افغانستان بھی پاکستان کی داخلی سیاست میں ایک اہم کردار رہا ہے۔ بھارت اور امریکہ جہاں اپنی مرضی کی حکومت کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں اور ان کے خیال میں طالبان، خصوصاً حقانی گروپ ایک مضبوط رکاوٹ ہے، جنہیں مبینہ طور پر پاکستانی فوج کی حمایت حاصل ہے اور ہر پاکستانی حکومت پر امریکہ کی طرف سے یہ دباؤ رہا ہے کہ ایک خاص مکتب فکر کے حامل فرقے کے خلاف بھرپور کارروائیاں کی جائیں، لیکن پاکستان میں عام طور پر پائے جانے والے بھارت مخالف اور امریکہ مخالف جذبات کسی بھی حکومت کو ایسا نہیں کرنے دیتے اور نہ کرنے دیں گے۔
دوسری طرف بھارت میں انتخابات نزدیک ہیں، وہ بھی نہیں چاہیں گے کہ حکومت پاکستان کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے کا الزام برداشت کرے اور ایسا ہی ہوا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کو مذاکرات کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کی اور طے بھی پاگیا کہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر سائیڈ لائن پر شاہ محمود قریشی اور سشما سوراج (پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ) ملاقات کریں گے۔ بھارت میں اس کے خلاف ردِ عمل آیا، عوام کی طرف سے بھی اور فوج کی طرف سے بھی، چنانچہ یہ مجوزہ ملاقات منسوخ کردی گئی، لیکن سب سے زیادہ دباؤ فرانس سے رافیل جیٹ جہازوں کی خبر میں رشوت کا الزام ہے۔
اب پاکستان میں سوال اٹھ رہا ہے کہ قوم کو اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر بھارت کو یہ دعوت کیوں دی گئی؟ چونکہ اس دعوت کو عوامی اعتماد حاصل نہیں تھا، اس لئے پاکستان کی حیثیت کمزور رہی۔ اس ضمن میں مثال دی جاتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ معاہدے کے لئے جانے سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں سے مشورہ کیا تھا اور بھرپور اعتماد اور عوامی حمایت کی وجہ سے وہ یہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔فوج کے قید افسران اور جوان واپس آئے اور مقبوضہ علاقہ بھی واپس لیا گیا اب ذرا پھر پاکستان کے اندرونی مسائل کی طرف دیکھتے ہیں۔قیام پاکستان کے 71سال بعد ہم ایک نئے پاکستان کی تلاش، نیا پاکستان بنانے کا عزم، نیا پاکستان بنانے کی تحریک شروع کررہے ہیں۔ آج ہمیں اپنی تاریخ کے مشکل ترین معاشی کرائسس کے ساتھ دہشت گردی کا سامنا ہے، اگرچہ پاکستان کے اداروں اور عوام کی بے پناہ قربانیوں کے نتیجے میں دہشت گردی پر کسی حد تک قابو پالیا گیا ہے، لیکن آئے دن بلوچستان اور فاٹا میں یہ واقعات ایک تواتر کے ساتھ ہورہے ہیں، کیا عمران خان کی قیادت میں نئی حکومت ان مسائل پر قابو پالے گی کیسے؟ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات بھی ہیں، پارلیمانی کمیٹی بھی بن گئی ہے۔ اس کے اختیارات کیا ہوں گے؟ اس کا سربراہ کون ہوگا؟ احتساب کا عمل بھی چل رہا ہے، اپوزیشن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اسے انتقام کا نام دے رہی ہیں۔ کبھی عدلیہ کے فیصلوں پر مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں، کبھی کہا جاتا ہے کہ فیصلہ کہیں اور لکھا گیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کو اس کے علاوہ ان تمام مسائل کا سامنا کرنا ہوگا، جو ان سے پہلی حکومتوں کو درپیش تھے۔ معیشت بیروانی قرضے کا بوجھ، ہمسایوں کے ساتھ اگر ناخوشگوار تعلقات نہ بھی کہا جائے، لیکن خوشگوار بھی نہیں ہیں۔ بیروزگاری، امن و امان، گورننس، بنیادی ضروریات کی فراہمی، لیکن دو مسئلے فوری طور پر سامنے آئیں گے، معیشت کی بحالی اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا۔ پاکستان کو اس وقت قرضے اور سود کی مدمیں 12ارب ڈالرز ادا کرنے ہیں۔ کیا پاکستان آئی ایم ایف کے پاس OUT PACKAGE BAILکے لئے جائے گا؟ اگر ایسا ہوا تو یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا PACKAGE ہوگا، لیکن اس وقت عالمی سیاست شاید ہمارے حق میں نہیں۔ سی پیک منصوبے پر چین کی 62 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی شرائط نامعلوم ہیں، اسے ذہن میں رکھتے ہوئے امریکہ کے وزیرخارجہ مائیک یومپیو نے واضح طور پر کہا کہ آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضے سے (اگرملا تو) چین کے قرضے اور سود کی مد میں ادائیگی نہیں ہوگی۔
اسی طرح دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اوباما انتظامیہ کے آخری دنوں میں ہی کشیدہ ہونا شروع ہوگئے تھے، اس وقت کے وزیر خارجہ ASHTON CARTER نے 2016ء میں کہا تھا کہ پاکستانی حکام نے حقانی گروپ کے خلاف کارروائی نہیں کی اور اس ضمن میں پاکستان کو دی جانے والی وہ رقم روک لی گئی جو پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف خرچ کی تھی اور امریکہ یہ دینے والی امدادی رقم کی ادائیگی کا پابند تھا،جبکہ MORE OVER کے طور پر وزیر دفاع نے 2017ء میں یہی الزام دہرایا تھا۔ صدر ٹرمپ نے بھی یہ امداد معطل کردی اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے اس بنیاد پر کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات نہیں کرسکا، پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا۔ امریکہ نے وہ پروگرام ختم کردیا، جس کے تحت پاکستان کے فوجی افسر اعلیٰ تربیت کے لئے امریکہ جاتے تھے۔ انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈٹریننگ پروگرام اس پس منظر میں یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کشیدگی مستقبل قریب میں ختم ہوگی؟
پاکستان پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ شخص جسے اقوام متحدہ اور امریکہ نے دہشت گردی میں ملوث قرار دیا، جسے 2008ء میں ممبئی حملہ کا مرکزی کردار قرار دیا گیا ہے، اسے عام انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کی اجازت دی گئی۔ان سب عوامل و مسائل کی موجودگی میں کیا ’’نیا پاکستان‘‘ بن جائے گا؟ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ان حالات میں، جبکہ عراق اور شام میں شکست کے بعد ISIS افغانستان میں قدم جما رہی ہے اور افغانستان میں ایک تہائی سے زائد حصہ طالبان کے قبضہ میں ہے اور کابل حکومت کی رٹ روز بروز سکڑتی جارہی ہے۔ یہ فیصلہ بھی کرسکتی ہے کہ پاکستان میں مبینہ محفوظ ٹھکانوں پر ڈرون اور سپیشل فورسز کے حملے بھی کئے جاسکتے ہیں، عمومی حالات میں یہ ایک ایسا خطرناک اور احمقانہ فیصلہ ہے، جس کی توقع نہیں کی جاسکتی، لیکن صدر ٹرمپ سے کسی بھی ایسے فیصلے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ایک سال پیشتر صدر ٹرمپ نے جنوبی ایشیا کے بارے میں نئی پالیسی کے خدوخال کا اعلان کیا تھا، لیکن جن بنیادوں پر یہ پالیسی بنائی گئی تھی، وہ مضبوط ثابت نہیں ہوئیں ، کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کا خیال تھا کہ پاکستان دباؤ برداشت نہیں کر پائے گا اور وہ اپنی شرائط پر فیصلے مسلط کرسکیں گے۔ صدر ٹرمپ نے فورٹ مائر میں ایک تقریر کے دوران اس پالیسی کے خدوخال بھی بتائے تھے۔
اول: افغانستان سے فوج کی واپسی ٹائم ٹیبل کے مطابق نہیں ہوگی، بلکہ زمینی حقائق اور ضرورت کے مطابق ہوگی۔ دوم: پاکستان کو مجبور کر دیا جائے گا کہ وہ طالبان کی حمایت چھوڑ کر انہیں مذاکرات کی میز پر لائے۔ سوئم: بھارت کوکہا جائے گا کہ وہ افغانتان میں تعمیر و ترقی میں اپنا کردار مزید بڑھائے اور معیشت کی مضبوط کے لئے مدد بھی دے۔ صدر ٹرمپ کی اس ’’نئی پالیسی‘‘ میں نیا کچھ نہیں تھا۔ ایک چیز نئی تھی اور وہ تھا ’’اندازِ بیان‘‘ کہ اب ہم خاموش نہیں رہیں گے اور مزید احمقانہ وہ ٹویٹ تھی جو نئے سال کے آغاز پر پاکستان کے بارے میں کی گئی، جس میں پاکستان کو ’’جھوٹا اور دھوکے باز‘‘ قرار دیا، جس سے ماحول اور کشیدہ ہوگیا۔ کیا اس احمقانہ اور سفارتی آداب کے خلاف انداز اور الفاظ سے کچھ تبدیل ہوا، ایک ہی جواب ہے ’’بالکل نہیں‘‘۔
یہ تھا دوسری بنیاد کا نتیجہ کہ پاکستان نے دباۂ کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا اور اس کا اظہار بھی کیا جب وزیر خارجہ کے استقبال میں قدرے سرد مہری کا اظہار بھی کیا گیا۔ وزیر خارجہ کی آمد سے پہلے امریکہ کی طرف سے دی جانے والی امداد (جواصل میں ہمارے اخراجات کی مد میں واجب الادا ہے) کی معطلی کا اعلان کیا گیا، افغانستان میں بھی طالبان نے ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘کی پالیسی اپنائی، جس کا مقصد مذاکرات اپنی شرائط پر کرنے کی حکمت عملی ہے۔ یہ بھی ٹرمپ انتظامیہ کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔ تیسری بنیاد کہ بھارت کو افغانستان کی تعمیر و ترقی اور معاشی استحکام کے لئے اپنا کردار بڑھانے کا کہا جائے گا۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے ہیں، تاکہ چین کے گرد حصار قائم کیا جائے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ پاکستان سے دہلی گئے۔ وزیردفاع بھی وہاں تھے، وہاں چھ ستمبر کو 2+2 ملاقات ہوئی، بھارت کی طرف سے سشما سوراج اور نرملا ستھیا رامن نے مذاکرات میں حصہ لیا۔
بہت بڑے بڑے معاہدے کئے گئے، ان کا ذکر بھی تفصیل سے کسی مضمون میں ہوگا۔ جدید ترین اسلحہ دینے کے معاہدے بھی ہوئے، تجارتی حجم بڑھانے کے معاہدے بھی ہوئے، لیکن بھارت کے گلے کی ہڈی ایران کی بندرگاہ چاہ بہار ہے، جو بھارت کے لئے افغانستان میں آمدورفت کا واحد سستا اور اہم راستہ بن سکتا ہے، بھارت نے وہاں بھاری سرمایہ کاری بھی کی ہے اور کر رہا ہے۔ امریکہ کی طرف سے ایران پر اور ایران کے ساتھ تعاون کرنے والے ممالک پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ بھارت کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔ یہ سب عوامل کسی بڑی تبدیلی کے راستے میں رکاوٹ ہیں اور کسی بھی سوال کا واضح جواب نہیں ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لئے مزید فیصلے متوقع ہیں۔
ایف اے ٹی اے کی طرف سے گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں ڈالنا نان نیٹواتحادی کی حیثیت ختم کرنا پاکستان سے امریکہ میں آمدورفت کو محدود کرنا اور یہ سب اقدام HUDSON INSTITUTE کی 2017ء کی رپورٹ میں ہیں، لیکن امریکہ میں اور خاص طور پر صدر ٹرمپ کی اپنی جماعت میں یہ سوال اٹھنا شروع ہوگیا ہے کہ امریکہ کب تک غیر واضح مقاصد کے ساتھ اپنی فوج افغانستان میں رکھے گا؟امریکہ کو جتنی جلدی اس معیشت کا احساس ہو جائے کہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا، اور دباؤ کی پالیسی کامیاب نہیں ہوگی، اتنا ہی امریکہ کے لئے بہتر ہے۔ بصورت دیگر ویت نام کی طرح افغانستان سے ’’باعزت‘‘ واپسی امریکہ کا مقدر ہے۔