کیا تحریک انصاف جنوبی پنجاب کو بھول گئی؟
جنوبی پنجاب کے دوستوں کو تو یہ دلاسے دے کر تھک گیا ہوں کہ جب انہیں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ دے دی گئی ہے تو باقی سب وعدے بھی پورے کئے جائیں گے، مگر وہ ہیں کہ مایوسی کا شکار ہوئے چلے جارہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار جب سے لاہور کو پیارے ہوئے ہیں، انہوں نے ایک دن کے لئے بھی اپنے وسیب کو مڑ کر نہیں دیکھا۔ اُن کی ناک کے نیچے جو فیصلے ہو رہے ہیں، اُن میں بھی جنوبی پنجاب کو بری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ابھی حال ہی میں وزارت اطلاعات پنجاب نے ثقافتی اداروں اور صوبے میں تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں کو بہتر بنانے کے لئے ایک بڑی کمیٹی قائم کی ہے۔ حیرت ہے کہ اس میں جنوبی پنجاب سے کسی فنکار، کسی شاعر، کسی دانشور یا ثقافتی شعبے سے وابستہ شخصیت کو شامل نہیں کیا گیا۔ یہاں کے دانشوروں اور فنکاروں کی رائے یہ ہے کہ اس کمیٹی کے لئے نام پلاک کی عرصے سے چلی آنے والی ڈائریکٹر ڈاکٹر صغریٰ صدف نے دیئے ہیں۔ وہ صرف پنجاب میں پنجابی ثقافت کو مانتی ہیں، حالانکہ پنجاب میں سرائیکی، پوٹھوہاری، ہریانوی سمیت دیگر مختلف تہذیبی و ثقافتی لوگ موجود ہیں۔
ملتان کے فنکاروں اور قوم پرست تنظیموں کے رہنماؤں نے اس پر احتجاج بھی کیا ہے، یہ تک کہا جارہا ہے کہ سرائیکی خطے سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ کے دور میں بھی اگر صوبے کی ثقافتی پالیسی بناتے ہوئے جنوبی پنجاب کے لوگوں کو نمائندگی نہیں دی جاتی تو پھر کب دی جائے گی؟ حیرت ہے کہ صوبائی وزیر اطلاعات ضیاالحسن چوہان نے اس نوٹیفکیشن پر دستخط کیسے کر دیئے۔ میرے ڈاکٹر صغریٰ صدف کے بارے میں وہ خیالات نہیں، جو یہاں کے ثقافتی و ادبی لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں وہ اپنے تئیں پنجاب میں ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے اچھا کام کررہی ہیں، تاہم اس ثقافتی کمیٹی کے حوالے سے میرے بھی تحفظات ہیں۔ اس کا دائرہ پورے صوبے تک بڑھایا جانا چاہئے تھا اور اس میں ہر خطے کے نمائندہ افراد کو شامل کرکے صوبے کی ایک ہمہ گیر ثقافتی پالیسی وضع کی جانی چاہئے۔
خیر یہ تو ایک پہلو ہے، لیکن جن باتوں کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ صرف جنوبی پنجاب کو وزارتِ اعلیٰ کا لولی پاپ دے کر بہلایا گیا ہے، اُن کا تعلق اور بہت سے پہلوؤں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہاں جو سب سے بڑا احساسِ محرومی پایا جاتا ہے، وہ پنجاب کے معاملات میں عدم شرکت کا احساس ہے۔ تختِ لہور کے حادی ہونے کا تاثر کل بھی موجود تھا اور آج بھی موجود ہے۔ رفتہ رفتہ یہ ثابت ہو رہا ہے کہ تختِ لاہور پر حکمرانی کوئی وزیر اعلیٰ نہیں کرتا، بلکہ بیوروکریسی کرتی ہے، وہ کسی صورت نہیں چاہتی کہ پنجاب کی طاقت تقسیم ہو، اس نے شہبازشریف کے دور میں بھی اس کوشش کو ناکام بنایا اور اب بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ شہباز شریف کے دور میں سابق گورنر ملک رفیق رجوانہ یہ غلطی کر بیٹھے تھے کہ ملتان میں جنوبی پنجاب کے لئے الگ انتظامی سیکرٹریٹ بنا دیا جائے، انہوں نے گورنری کے زعم میں سیکرٹریٹ قائم کرنے کی تاریخ بھی دے دی تھی،
مگر بیوروکریسی نے شہباز شریف کے ہاتھوں اُن کی وہ گت بنائی کہ باقی سارا عرصہ انہوں نے اس کا نام نہیں لیا اور اخبار نویس ملتان آمد پر جب بھی اُن سے اس بارے میں سوال کرتے تھے تو کھسیانی ہنسی ہنس کے جان چھڑا لیتے تھے۔ ابھی چند روز پہلے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزراء نے وزیر اعلیٰ سے شکایت کی کہ سیکرٹری ان کی بات ہی نہیں سنتے، جو کہا جائے اس کے برعکس فیصلے کرتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی طبیعت اب ایسی تو ہے نہیں کہ وہ اس بات پر غصے میں آگ بگولا ہو جاتے، انہوں نے ملتجیانہ انداز سے سیکرٹری صاحبان کو کہا کہ وہ وزراء کے ساتھ تعاون کریں، تاکہ حکومت کے سو دن والے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اب جہاں یہ صورت حال ہو وہاں یہ کون دعویٰ کرسکتا ہے کہ جنوبی پنجاب کے حقوق کو لاہور سے چھن کر ملتان اور جنوبی پنجاب لایا جائے گا۔
اب وزیر اعلیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایک ایک دن ہر ڈویژنل صدر مقام پر گزاریں گے۔ اب انہیں کون سمجھائے حضور اس قسم کے اقدامات سے بیوروکریسی قابو میں آنے والی نہیں۔ وہ ایک دن ڈویژنل سطح پر گزار آئیں گے تو وہاں کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی، جو بیوروکریسی لاہور میں بیٹھ کر اُن کی نہیں سنتی وہ ملتان یا بہاولپور میں کیسے سنے گی؟ یہی بیوروکریسی شہبازشریف کو بھی اپنی ڈھب پر چلاتی رہی ہے، حالانکہ وہ ہر اختیار اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے، انہوں نے اپنے اردگرد چہیتے بیوروکریٹس کی فوج اس لئے اکٹھی کررکھی تھی کہ ان گھوڑوں پر اگر پیارسے کاٹھی نہ ڈالی جائے تو بدک بھی جاتے ہیں اور ان کا بدکنا بہت نقصان دہ ہوتا ہے، کیونکہ اصل حکومت تو یہ ہوتے ہیں۔ اب تو جنوبی پنجاب میں الگ صوبے کے حوالے سے اُمید بھی تشویش میں ڈھلتی جارہی ہے۔
حکومت کے آغاز میں اس حوالے سے بڑا شور شرابہ ہوا تھا، ایسے ہٹو بچو کی کیفت پیدا کی گئی تھی، جیسے بس آج یاکل میں نیا صوبہ بن رہا ہو، مگر اب جیسے سب کچھ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ہو۔ کوئی ہلچل ہے اور نہ کوئی حکومتی عہدیدار بات کررہا ہے، جو دورکنی ٹاسک فورس شاہ محمود قریشی اور خسرو بختیار کی قیادت میں بنائی گئی تھی، اسے آج تک کسی سے ملنا ہی نصیب نہیں ہوا۔ دونوں ایسے رکن لئے گئے، جن میں ایک ملک سے باہر رہے گا اور دوسرا اسلام آباد میں بیٹھ کر اپنی وزارت کے امور نمٹائے گا۔ رہی جنوبی پنجاب صوبے کی بات تو ’’رات گئی بات گئی‘‘ والی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔
اصولاً تو اس کمیٹی میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو شامل کیا جانا چاہئے تھا، کیونکہ اُن کی موجودگی میں الگ صوبے کے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مفید بات چیت ہوسکتی تھی، مگر انہیں باہر رکھ کر دو وفاقی وزراء کو اس کا ٹاسک سونپا گیا، جن کی ترجیح میں غالباً اب یہ ایشو رہا ہی نہیں۔ چلیں جی مان لیتے ہیں کہ صوبہ بنانا بہت مشکل کام ہے، اس میں آئینی رکاوٹیں بھی ہیں اوراُلجھاوے بھی، مگر سوال یہ ہے کہ کیا جنوبی پنجاب سے وزیر اعلیٰ بننے والے عثمان بزدار نے جنوبی پنجاب کے لئے کوئی ایسی ٹاسک فورس بنائی ہے، جو اس علاقے کے مسائل کی نشاندہی کرکے اُن کا فوری حل بھی تجویز کرے۔
کیا صحت و پانی کے مسائل حل کرنے کی نسبت کوئی پیش رفت ہوئی ہے، کابینہ کی ساری وزارتیں پنجاب کو دے کر چند لولی لنگڑی وزارتیں جنوبی پنجاب کے نام کرکے کیا یہ سمجھ لیاگیا ہے کہ پانچ کروڑ آبادی کے اس خطے کا احساسِ محرومی دور کردیا گیا ہے۔ اس علاقے میں تو نہ پولیس کی اصلاح ہوئی ہے اور نہ ہی انتظامیہ نے اپنا قبلہ درست کیا ہے۔ ڈیرہ غازی خان ڈویژن جووزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا اپنا آبائی ڈویژن ہے، آج بھی پولیس اور سرداروں کے گٹھ جوڑ کی بدترین مثال ہے، جہاں غریبوں پر مظالم ہوتے ہیں، اُن کی زمینوں پر قبضے کئے جاتے ہیں، کوئی بولے تو اس کی عزتوں کو پامال کیا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ گڈ گورننس کے اثرات لاہور سے نیچے آتے آتے مزید کتنی صدیاں لیں گے؟ یہاں جنوبی پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے حق میں ایک تحریک موجود ہے۔ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ پہلی بار ایک عام سرائیکی شخص وزیر اعلیٰ پنجاب بنا ہے تو پنجابی بیوروکریسی اُس کی مخالفت کر رہی ہے۔ اُسے کام نہیں کرنے دے رہی اور اُس کی نرمی کا ناجائز فائدہ اُٹھا رہی ہے، اپنی اتنی اہم سپورٹ کو وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں، انہیں تو پنجاب کے لئے عمومی اور جنوبی پنجاب کے لئے سودن کا خصوصی پروگرام بنانا چاہئے تھا، مگرآج چالیس دن ہونے کوآئے ہیں، انہوں نے اس خطے کو پلان تو کیا دینا تھا، وہ ایک دن کا وقت بھی نہیں دے سکے۔ وہ اپنے ایک عزیز کی وفات پر تعزیت کے لئے میاں چنوں آکر چلے گئے،مگر ملتان نہیں آئے۔اب یہ ہے وہ صورت حال جس میں جنوبی پنجاب کے اندر تحریک انصاف کی کارکردگی کے حوالے سے منفی تاثر پھیل رہا ہے۔
شاہ محمود قریشی بھی جب ایک دو بار ملتان آئے ہیں تو انہوں نے معمول کی سرگرمیوں میں حصہ لیا ہے، کوئی ایسی پیش رفت نہیں کی، جس سے لگے کہ وہ بطور ٹیم لیڈر اس علاقے کے لئے بڑا منصوبہ لئے ہوئے ہیں، جہانگیر ترین ویسے ہی نااہل ہونے کے بعد پس منظر میں چلے گئے ہیں، سو اب ایسا کون ہے، جوانتخابی مہم کی طرح جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا تذکرہ کرے اور یہ اُمید بھی دلائے کہ تحریک انصاف اِن محرومیوں کے خاتمے میں پوری طرح دلچسپی لے رہی ہے اور جلد ہی تبدیلی نظر آنے لگے گی۔