مصائب سے نجات کی راہ

’’تم میں سے کون ہے جو خدا کے محبوب پیغمبر ایوب ؑ کی طرح ہے؟ ایوبؑ کو تو دنیا کے سامنے ایک نمونہ بنانا مقصود تھا۔ سو وہ پیکرِ صبر ہر مصیبت پر سرِ تسلیم خم کرتا رہا۔ یہاں تک کہ دنیا نے جان لیا کہ مالک حقیقی کا حق اتنا زیادہ ہے کہ جب جان، مال، آبرو تینوں برباد ہوجائیں تب بھی زبان سے شکر گزاری کے الفاظ ہی نکلنے چاہییں۔ اس لیے کہ سب کچھ اْسی نے دیا ہے اور اگر اس سب کچھ میں سے کچھ اگر اْس نے لے بھی لیا تو شکوہ اور شکایت کیسی، مگر تم میں سے کون ہے جو خدا کے محبوب پیغمبر ایوبؑ کی طرح ہے ؟‘‘
خدا کے اس عارف کی گفتگو سننے والوں کے دلوں میں اتر رہی تھی۔۔۔ معرفت کی بارش غفلت بھرے سنگلاخ سینوں کو نرم کر رہی تھی۔ وہ ایک وقفے کے بعد پھر گویا ہوئے ۔
’’تمھارے ربّ کو معلوم ہے تم ایوب ؑ نہیں ہو۔ اس لیے وہ تم پر مصائب کسی اور وجہ سے بھیجتا ہے۔ کچھ لوگوں کے گناہ ان کی نیکیوں کو کھانے لگتے ہیں۔۔۔ جس طرح آگ لکڑیوں کو کھاتی ہے۔ ان غافلوں کے پاس گناہوں کے گرم پانی کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا۔ سو یہی گرم پانی آگ پر انڈھیل دیا جاتا ہے۔ اس پر وہ آہ و زاری کرتے اور خدا کو پکارتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ اس پکار میں استغفار کو شامل کریں، سچی توبہ کو شامل کریں۔ پھر بخشش کی ٹھنڈی ہوا ہر آگ کو ٹھنڈا کر دے گی۔کچھ مصائب قانونِ قدرت کا حصہ ہوتے ہیں۔ بیماری بہرحال آ جاتی ہے ، حادثہ بہرحال ہوجاتا ہے، ناگہانی ہوکر رہتی ہے۔۔۔ انسان ان سے بچ نہیں سکتا۔ ایسے میں خدا سے اس کی عافیت اور آسانی مانگو۔ اس کے تحفظ کی چھتری میں پناہ چاہو۔ یہ چھتری جسے مل گئی وہ مصائبِ دھوپ سے نہ بھی بچے، ان کی جھلسا دینے والی تپش سے ضرور بچ جاتا ہے۔‘‘
’’کیا انسانی حکمت و تدبیر کا مصائب کے روکنے میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا؟‘‘، ایک سامع نے بیچ میں سوال کیا۔ عارف نے مسکرا کر جواب دیا’’ہوتا ہے ، بالکل ہوتا ہے۔ دیکھو خدا نے تمھیں جانور نہیں بنایا، انسان بنا کر پیدا کیا ہے۔ تمھیں عقل دی ہے ، شعور دیا ہے۔ تم جیسے ہی اسے استعمال کرو گے بہتری تو آئے گی۔ تم اپنی غذا، سوچ اور معمولات کو ٹھیک کر لو۔ اکثر بیماریوں سے بچ جاؤ گے۔ تم منصوبہ بندی اور اعتدال سے کام لو تو افلاس اور محتاجی سے محفوظ رہو گے۔ میں اس کی نفی نہیں کر رہا۔ میں تو یہ بتا رہا ہوں کہ تدبیر کے باوجود جو مشکل آجائے اس سے کیسے نکلا جائے۔
اب آخری بات کو غور سے سنو جو اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ مصیبت تمھیں بہتر بنانے کے لیے آتی ہے۔ تمھاری زندگی، عادات، رویے اور سوچ میں۔۔۔ تمھاری سیرت، اخلاق، کردار اور ایمان میں کوئی کمی، کوئی کجی، کوئی غلطی ہوتی ہے جو تمھاری دنیا یا آخرت کے لیے تباہ کن ہوتی ہے۔ جس کے بعد خدا کوئی بہت بڑی مصیبت بھیجتا ہے۔ یہ مکمل تباہی سے پہلے ایک فیصلہ کن وارننگ ہوتی ہے۔
جیسے ہی تمھیں یہ احساس ہو فوراً اپنے رب کے قدموں میں بچھ جاؤ۔ اْس سے معافی مانگو۔ اْس سے آسانی مانگو۔ اْس سے عافیت مانگو۔ جب کوئی طریقہ مؤثر نہ ہو تو سمجھ لو کہ تمھارا رب تم میں کوئی بہت بڑی کمزوری دیکھ رہا ہے۔ جس کا تمھیں احساس نہیں۔ تمھارا عیب اور تمھاری خرابی ایک اڑدہے کی طرح تمھیں دبوچے ہوئے ہیں، مگر تم غفلت اور فخر کے عالم میں اسے آغوش مادر سمجھے ہوئے ہو۔
اب وقت اعتراف کا ہے۔ اپنی خرابی اور عیب کو تسلیم کر لینے کا ہے۔ یہ سمجھ لینے کا ہے کہ اصل مصیبت خارج میں نہیں تمھارے اندر ہے۔ یہ عزم کرنے کا ہے کہ تم اپنی خرابی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دو گے۔ اس عزم کے بعد زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ ہر مصیبت ٹل جائے گی۔
اور آخری بات یہ کہ تم نے یہ عزم نہیں کیا اور اپنے عیوب اور خامیوں کی تاویلوں میں الجھ گئے تو بس پھر انتظار کرنا۔۔۔ اْس وقت کا جب تمھاری کشتی بھری جائے اور بھر کر ڈبودی جائے۔‘‘
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔