بیٹے کی پیدائش کے خواہشمند پاکستانی جوڑوں کی جانب سے آزمائے جانے والے ٹوٹکے

بیٹے کی پیدائش کے خواہشمند پاکستانی جوڑوں کی جانب سے آزمائے جانے والے ٹوٹکے
بیٹے کی پیدائش کے خواہشمند پاکستانی جوڑوں کی جانب سے آزمائے جانے والے ٹوٹکے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک)ہمارے معاشرے میں بیٹی کے مقابلے میں بیٹے کی تمنا غیر معمولی حد تک زیادہ پائی جاتی ہے، باوجود اس کے کہ مسلمان ہونے کے ناطے ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ بیٹا خدا کی نعمت ہے تو بیٹی اُس کی رحمت ہے۔ اور تمنا رکھنا تو ایک بات ہے مگر اس تمنا کو حیقت کا روپ دینے کے لئے روایتی طور پر کیسے کیسے ٹوٹکے کئے جاتے ہیں، یہ بات بھی جاننے سے تعلق رکھتی ہے۔
ویب سائٹ پڑھ لو کی ایک رپور ٹ میں کچھ ایسے ٹوٹکوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ کچھ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر آپ کے ہاں بیٹی ہو اور اس کا نام بشریٰ رکھ دیا جائے تو اگلی بار بیٹا پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ اب اس نام کا تعلق اگلی بار بیٹا ہونے سے کس طرح بنتا ہے یہ تو ایسا ٹوٹکہ ایجاد کرنے والے دانا لوگ ہی بتا سکتے ہیں۔
ایک اور مشہور مشورہ یہ ہے کہ حاملہ خاتون دوران حمل ناریل کا پانی پیتی رہے تو بیٹے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس ٹوٹکے کے کارگر ہونے کا تو علم نہیں البتہ عقلمندی کا یہ تقاضہ ضرور ہے کہ حمل کی حالت میں کسی بھی غذا کا، خصوصاً جو ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ نہیں ہوتی، زیادہ استعمال شروع کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے رائے ضرور لینی چاہیئے۔
اور بڑی بوڑھیاں یہ مشور بھی دیتی ہیں کہ حمل کے ابتدائی دنوں میں ہی لڑکے کے کپڑے سلوا کر رکھ لیے جائیں تو اس بات کا امکان بڑھ جاتاہے کہ لڑکا ہی پیدا ہو گا۔ ویسے اگر یہ ممکن ہو تو اس سے آسان ٹوٹکہ کیا ہو سکتا ہے، ایک بار چند کپڑے ہی تو سلوانے ہیں۔
ایک دلچسپ و عجیب ٹوٹکہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ خاتون ازدواجی فرائض کی ادائیگی سے پہلے خوب بناﺅ سنگھار کرے، اچھا سا لباس پہنے اور حتٰی کہ سونے کے زیورات بھی پہنے۔ گویا پوری دلہن بن کر ازدواجی فرائض کی ادائیگی کرے۔ ویسے یہ خاصا مضحکہ خیز ٹوٹکہ ہے۔
اور ایک مشورہ خاوند کے لئے بھی دیا جاتا ہے کہ وہ ازدواجی فرائض کی ادائیگی سے قبل کافی پی لے تو بہت اچھا ہے، اور میاں بیوی دونوں کے لئے مشورہ ہے کہ خوب کھائیں پئیں اور نیم گرم پانی سے نہایا کریں۔ اور ہاں، اگر کسی کے ہاں ان ٹوٹکوں کے باوجود بیٹا پیدا نہ ہو تو پھر اُسے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ قدرت کے کاموں میں ٹوٹکوں کا کیا کام!