جنگ کے بارے میں شہزادہ محمد کے تازہ خیالات
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی ایران سے جنگ عالمی معیشت تباہ کر دے گی،علاقائی حریف سے کشیدگی کے خاتمے کے لئے غیر فوجی اور سیاسی حل پہلی ترجیح ہے،اگر دُنیا نے ایران کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات نہ کئے تو آنے والے وقت میں ہم مزید کشیدگیاں دیکھیں گے،جس سے عالمی مفادات کو شدید نقصان پہنچے گا،جنگ سے تیل کی رسد متاثر ہو گی اور تیل کی قیمتیں ناقابل ِ تصور حد تک بڑھ جائیں گی جو کسی نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہ دیکھی ہوں گی۔اُن کا کہنا تھا کہ14ستمبرکو سعودی آئل فیلڈ پر حملہ بے وقوفانہ تھا اس حملے سے پانچ فیصد آئل سپلائی متاثر ہوئی،جس کے اثرات پوری دُنیا میں دیکھے گئے، خلیجی ممالک(سعودی عرب سمیت) دُنیا کو توانائی کی فراہمی کے30 فیصد حصے دار ہیں، جبکہ خطہ20فیصد عالمی تجارتی گزر گاہوں اور 4فیصد مجموعی پیداوار(جی ڈی پی) کی نمائندگی کرتا ہے،تصور کریں یہ تینوں چیزیں رُک جائیں گی تو کیا ہوگا،اِس کا مطلب ہے کہ اس جنگ سے نہ صرف سعودی عرب یا مشرقِ وسطیٰ کے ممالک متاثر ہوں گے،بلکہ عالمی معیشت تباہ ہو جائے گی۔انہوں نے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا فوری امکان مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی اور پُرامن حل جنگ سے کئی گنا بہتر ہے،ولی عہد نے اِن خیالات کا اظہار امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا سعودی حکمران اور شہزادہ محمد بن سلمان ایران کے خلاف شعلہ بار زبان استعمال کر رہے تھے اور اُسے خلیج کی ساری کشیدگیوں کا ذمہ دار بھی گردان رہے تھے،امریکہ بھی ایران کے خلاف نہ صرف سخت زبان استعمال کر رہا تھا،بلکہ صدر ٹرمپ کی تقریروں میں ایسے الفاظ استعمال ہو رہے تھے کہ وہ کھڑے کھڑے احکامات دیں گے،جن کا نتیجہ ایران کی تباہی کی صورت میں نکلے گا، اپنے ان دونوں حریفوں کے جواب میں ایران بھی سخت زبان استعمال کر رہا تھا، اور یہ انتباہ بھی کر رہا تھا کہ ایران پر حملہ کرنے کی سوچ رکھنے والے جنگ کے عواقب و نتائج سے بے خبر ہیں اور ایران کو حملہ آوروں کا قبرستان بنا دیا جائے گا،ایسے ہی ماحول میں سعودی آئل تنصیبات پر حملہ ہوا،جس سے5 فیصد سپلائی ضرور متاثرہوئی تاہم پاکستان کے بعض جلد باز قسم کے لوگوں کی پیش گوئیوں کے برعکس قیمت100ڈالر فی بیرل تک نہ پہنچی اور سعودی قیادت نے دانشمندانہ اقدامات کے ذریعے تیل کی سپلائی متاثر نہ ہونے دی اور نہ ہی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا،اگرچہ ایران نے سعودی تیل کی تنصیبات پر کسی قسم کے حملے کی تردید کی تاہم امریکہ اور اسرائیل سمیت بعض مغربی ممالک نے حملے کا الزام ایران پر ہی لگایا،اس بحث سے قطع نظر کہ حملہ آور کون تھے، بظاہر جو میزائل حملے میں استعمال ہوا اس کے ٹکڑوں سے یہی شواہد ملے کہ یہ ایرانی اسلحہ خانہ سے نکلا ہے۔
پندرہ دن پہلے ایران اور سعودی رہنماؤں کی سوچ کچھ اور تھی اور اب سعودی ولی عہد کا تازہ انٹرویو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے جنگ کی تباہ کاریوں کا درست ادراک کر لیا ہے اور نہ صرف خود انہیں یہ انشراحِ صدر ہو گیا ہے کہ جنگ تباہی و بربادی کا کھیل ہے،بلکہ یہ مشرقِ وسطیٰ اور دُنیا بھر کی اقتصادی تباہی کا ہتھیار بھی ہے، شہزادہ محمد نے بالکل درست کہا کہ جنگ کی صورت میں تیل کی قیمتیں ناقابل ِ تصور حد تک بڑھ جائیں گی اگر وہ اس مثبت پہلو کو لے کر آگے بڑھیں اور عالمی اقتصادیات پر جنگ کے منفی اثرات کو پیش ِ نظر رکھیں تو پھر جنگ کا آپشن کسی صورت استعمال ہونے کی نوبت نہیں آئے گی، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہزادہ محمد نے جنگ کی تباہ کاریوں کے پیش ِ نظر پندرہ دن کے اندر اندر ہی نہ صرف اپنے خیالات میں تبدیلی کی ہے، بلکہ اب وہ جنگ مخالف تصورات کی تبلیغ کرنے والے مدبر کے طور پر سامنے آئے ہیں تو یہ صحیح معنوں میں اُن کی ماہیت ِ قلب ہے اور توقع کرنی چاہئے کہ وہ اپنی اس سوچ کو آگے بڑھائیں گے اور ایران کے ساتھ اپنے تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کر لیں گے۔
ایران کی قیادت کے متعلق اُن کے مخالف رہنما جو کچھ بھی کہیں امر واقعہ یہ ہے کہ ایرانی رہنما حال ہی میں یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ پورا مشرقِ وسطیٰ اُن کا دوست ہے اور وہ اس خطے کو جنگ کے شعلوں کی نذر کرنا نہیں چاہتے ہیں،جس ملک کے ساتھ بھی اُن کے تنازعات ہیں وہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ایرانی رہنما اگر اپنے ان خیالات کو عمل کے قالب میں ڈھالتے ہیں تو پھر مشرقِ وسطیٰ میں امن و خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے، اس وقت یہ خطہ ایران اور سعودی عرب کے حامیوں میں تقسیم ہے۔اگر دونوں بڑے ملک اپنے تنازعات مل بیٹھ کر طے کر لیتے ہیں اور دونوں کے تعلقات نارمل سطح پر آ جاتے ہیں تو ظاہر ہے دونوں کے ”کیمپ“ بھی ختم ہو جائیں گے، نہ کوئی ایران کا حامی رہے گا اور نہ ہی سعودی عرب کے دوستوں کا گروپ باقی رہے گا،خطے کے تمام عرب اور غیر عرب ممالک اگر باہمی طور پر خوشگوار تعلقات قائم کر لیں گے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان جدید اسلحے کے سوداگروں کو ہو گا، جو اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کر رہے ہیں اور ایک یا دوسرے ملک کی سالمیت کے تحفظ کے نام پر اُن کے وسائل کا بیشتر حصہ اسلحے کی قیمت کی شکل میں وصول کر لیتے ہیں،جب متحارب فریق اور اُن کے حامی ممالک اپنے اختلافات رفع کر لیں گے تو پھر اسلحے کی وہ ضرورت باقی نہیں رہے گی،جو میزائلوں اور میزائل شکن نظاموں پر خرچ ہو رہی ہے، ایسا بہت سا اسلحہ بے کار محض ہو جائے گا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے وزیراعظم عمران خان کو ایران کے ساتھ مصالحت یا ثالثی کا جو مشن سونپا ہے اگر وزیراعظم عمران خان اس راستے پر آگے بڑھ کر ایران اور امریکہ،ایران اور سعودی عرب کے تعلقات معمول پر لے آنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔ اسلامی دُنیا کے دو بڑے ملک قریب تر آ جائیں گے جن کے درمیان بدقسمتی سے اِس وقت سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں اور اُن کے درمیان تنازعات ختم ہو جائیں گے تو اسلحہ پر خرچ ہونے والے اربوں ڈالر انسانی فلاح پر خرچ ہوں گے اور خوشحالی کا ایک ایسا دور شروع ہوگا، جس سے خطہ اب تک ناآشنا ہے،شہزادہ محمد بن سلمان کے تازہ خیالات اس سلسلے کی پہلی کڑی ثابت ہو سکتے ہیں۔