کامیابی کے پا نچ اُصول……سورۃالعصر(آخری قسط)
کھجوروں کا ٹوکرا تحفہ میں ایک شخص آپؒ کو دے گیا۔ اُس وقت آپؒ کوئی حدیث تلاش کر رہے تھے۔ حدیث تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ آپؒ کھجوریں بھی کھانے لگے۔ امام مسلم بن حجاجؒ کو دنیا میں کون نہیں جانتا۔وہ اپنے دور میں حدیث کے امام مانے جاتے تھے۔ آپؒ 20 سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں اور علم کے لئے آپؒ نے بہت سے ملکوں کا سفر بھی کیا جن میں عراق، شام، حجاز، یمن، بغداد، بصرہ اور بلخ وغیرہ شامل ہیں۔ آپؒ کو تقریباََ تین لاکھ احادیث زبانی یاد تھیں اور انہی احادیث کے مجموعے میں سے آپؒ نے وہ احادیث اکٹھی کیں جن کی صحت سب سے زیادہ اعلیٰ اور معتبر تھی۔ تین لاکھ احادیث میں سے آپؒ نے تقریباً 12 ہزار احادیث لے کر حدیث نبویﷺ کی کتاب ”صحیح مسلم“ کو ترتیب دیا،جو قرآن کے بعد آج سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ جب آپؒ حدیث تلاش کرتے کرتے کھجوریں کھا رہے تھے تو آپؒ نے اتنی زیادہ کھجوریں کھا لیں کہ آپؒ بیمار پڑ گئے اور اسی وجہ سے 55سال کی عمر میں وفات ہو گئی۔
آپؒ کی شخصیت عمل اور یقین کے لئے دنیا بھر کے لئے بہت بڑی مثال ہے۔ کسی بھی چیز میں یقین کر لینے کے بعد اگر انسان عمل نہیں کرتا تو وہ کبھی بھی اپنے خدا تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ شوِ کھڑا نے اپنی کتاب ”تم جیت سکتے ہو“ میں بڑی خوبصورت بات کہی کہ ”عمل کی مثال انسان کی زندگی کے لئے ایسے ہی ہے جیسے کمہار کے ہاتھ مٹی کا آجانا، کمہار اپنی مرضی سے اُس مٹی کو جس طرح کی مرضی شکل دے دیتا ہے، جو اُس سے بڑے بڑے خوبصورت، عمدہ اور مہنگے برتن بناتا ہے“۔ اللہ پاک نے قرآن کریم میں فرمایا کہ وہ لوگ خسارے میں نہیں،جو ایمان لائے اور نیک یعنی اچھے اعمال کرتے رہے۔ نفسیات والے بتاتے ہیں کہ جب انسان نیک عمل کرتا ہے تو اُسے خوشی ہوتی ہے اور اُس خوشی کی وجہ سے اُس کا دماغ ایک کیمیکل Chemicalجس کو ڈوپاماینDopamine کہتے ہیں، وہ خارج کرتا ہے۔ یہ کیمیکل اُس وقت خودبخود خارج ہوتا ہے جب انسان اپنے عمل کو پورا کرتا ہے۔ اس کوPleasure Neurotramsmitter بھی کہا جاتا ہے۔ انسان کے دماغ میں 100 Billion کے قریب نیورون ہیں اور یہ Dopamineکو خارج کرتے ہیں، جس سے انسان زیادہMotivate رہتا ہے۔ Dopamine کے بارے پوری دُنیا میں اب تک 110,000 ریسرچ پیپر لکھے جاچکے ہیں۔ عمل کے لئے دو چیزوں کا بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے،پہلی چیز Direction یا Correct Knowledge جس کا ہونا بہت ضروری ہے۔ دوسری چیز Understanding of Situationکا بالکل واضح طور پر علم ہو کہ جو عمل ہم کرنے جا رہے ہیں وہ ”کیوں“ اور ”کس وجہ سے“ کرنے جا رہے ہیں۔ کوئی بھی عمل ہمارا illusion Based نہ ہو بالکل اُس عمل میں کلیئر ویژن Clear Vision اور خیال Thought موجود ہو۔ عمل کے لئے انسان کا نظم وضبط Discipline میں رہنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے، یہ نظم و ضبط انسان کی خود پر محبت بھری سختی کا نام ہے۔ بے شمار مثالیں آپ کو تاریخ میں ملیں گی، جیسے عالمی سطح پر مستند ترین انگریزی ویبسڑز ڈکشنری Webster's Dictionaryکا مؤلف 36 سال تک اس کتاب پر محنت کرتا رہا تو یہ نایاب اور خوبصورت کتاب تخلیق ہو پائی۔
اسی طرح آپ ملٹن کو دیکھ لیں کہ وہ اپنی شہرہ آفاق نظم ”جنت گم گشتہ“ Paradise Lostلکھنے کے لئے روزانہ صبح چار بجے جاگ اُٹھتا تھا۔ بے شمار کامیاب لوگ آپ کو اپنے اِردگرد ہی نظر آئیں گے،جو نظم و ضبط Discipline کی وجہ سے اس وقت آسمان پر چمکتے ستارے معلوم ہوتے ہیں۔ سورۃ العصر کے مطابق پہلی تین خوبیاں وقت، یقین اور عمل کے بعد کامیابی کے لئے جو بہت ہی ضروری چیزیں ہیں، اُن میں ”سچ کی نصیحت“ اور ”صبر کی نصیحت“ کرنا ہے۔ سچ و صبر کا تعلق صرف انسان کے اپنے ساتھ ہی نہیں،بلکہ وہ جس معاشرے یا گروپ کا حصّہ ہے،اس کے لئے بھی بہت اہم اور ضروری ہوتا ہے۔ سچائی کے لئے دو چیزیں ضرور ہونی چاہئیں،جس میں پہلی چیز اخلاص Sincerity اور دوسری چیز سوچوں کا واضح Clarity of Thoughts شامل ہے۔ آپ کا سچ بولنا فتنہ و فساد پھیلانے کے لئے نہ ہو، بلکہ ایک مضبوط Team Building کے لئے ہونا چاہئے۔ مؤطا امام مالکؒ میں صفوان بن سلیم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں! ہو سکتا ہے، پھر پوچھا گیا کہ کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے؟ فرمایا کہ ہاں! ہوسکتا ہے۔
پھر پوچھا گیا کہ کیا مومن کذاب یعنی جھوٹا ہو سکتا ہے؟آپﷺ نے فرمایا: نہیں! مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ایک اور حدیث میں عبداللہؓ بن جراد آپ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! کیا مومن زنا کر سکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا، ہاں! ہو سکتا ہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا مومن چوری کرسکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! کر سکتا ہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ کیا مومن جھوٹ بول سکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں! مومن جھوٹ نہیں بول سکتا! سچائی کے ساتھ انسان کو صبر Tolerance کا بھی حکم دیا گیا ہے، صبر کی حالت میں انسان اُسی وقت پہنچتا ہے جب اُس کی خواہش اور موجودہ صورتِ حال میں فرق ہوتا ہے۔ واصف علی واصفؒ نے بڑی خوبصورت بات کہی کہ ’تکلیف ہمارے اعمال سے آئے یا اس کے حکم سے، مقام ِصبر ہے۔ خوشی میں غم کا دخل، صحت میں بیماری کا آجانا، بنے ہوئے پروگرام کا معطل ہونا، کسی اور انسان کے کسی عمل سے ہماری پُرسکون زندگی میں پریشانی کا امکان پیدا ہونا، سب صبر کے مقامات ہیں“۔
صبر انسان کی Inner Developmentکرتا ہے۔ اس کے لئے دو چیزیں بہت ہی اہم ہیں،پہلی رواداری یا برداشت Tolerance اور دوسری چیز استقامت Persistance ہے۔ صبر انسان کا مقام اللہ پاک کی بارگاہ میں بلند کرتا ہے اور قرآن پاک میں بھی صبر کے ساتھ مدد لینے کا حکم فرمایا گیا ہے۔ جان ایف کینیڈی کا قول ہے کہ ”انسان کے کردار کا پتا اُس وقت چلتا ہے جب حالات اچھے نہ ہوں“۔ صبر صرف تکالیف پر ہی نہیں کرنا پڑتا بلکہ نیکی کے کاموں یا اپنے گولز کو حاصل کرنے کے لئے بھی صبر کرنا پڑتا ہے۔ جدید تحقیق یہ بتاتی ہے کہ آپ کا گول چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، اُس کے لئے بارہ سے پندرہ سال کا عرصہ صبر سے محنت کے ساتھ گزارنا ہوتا ہے۔ صبر ہی ایسی خوبی ہے، جس کی وجہ سے انسان کو ہمیشہ بڑا عہدہ اور درجہ ملتا ہے، جیسے بہت سال حضرت یوسف ؑ قید خانے میں رہنے کے بعدبادشاہ بنا دیے گئے۔ صبر جب کسی اچھے مقصد کے لئے کیا جائے تو اس سے انسان بڑی سے بڑی منزل کو بھی حاصل کر لیتا ہے۔ سورۃ العصر انسان کو کامیابی کے لئے پانچ منازل وقت، یقین، عمل، سچائی اور صبر کا اُصول بتاتی ہے، تاکہ کوئی بھی انسان ان پر عمل کر کے کامیابی کی بلندی کو چُھو سکے۔