اعلی ملازمتیں: منفرد ادارہ
سی ایس ایس کرنا ہر پاکستانی طالب علم کا خواب ہوتا ہے لیکن اس خواب کو حقیقت چند ہی بنا پاتے ہیں۔ سی ایس ایس کو پاکستان کا سب سے سخت امتحان بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں سیٹیں چند سو ہوتی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں امیدوار اس مقابلے میں حصہ لیتے ہیں۔ اگر آپ 2020 کے رزلٹ دیکھ لیں تو 18،553 امیدواروں میں سے تین سو چھیاسٹھ امیدواروں نے تحریری امتحان پاس کیا، یعنی صرف 1.96 فیصد امیدوار پاس ہوئے۔اس امتحان میں کسی قسم کی سفارش بھی نہیں چلتی، جو امیدوار دن دوگنی رات چوگنی محنت کرے گا وہی پاس ہوگا۔ سی ایس ایس کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد طالب علمموں کے پاس 12 گروپ موجود ہوتے ہیں جن میں پاکستان کی فارن سروس،پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس، پولیس سروس آف پاکستان، ان لینڈ ریونیو سروس آف پاکستان، پاکستان کسٹم سروسز، کامرس اینڈ ٹریڈ گروپ، پاکستان کی انفارمیشن سروسز، ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹ گروپ، آفس مینجمنٹ اور سیکریٹریٹ گروپ، پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس، پوسٹل گروپ، ریلوے(کمرشل اینڈ ٹرانسپورٹ) گروپ شامل ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد آپ کی زندگی بدل جاتی ہے۔
کیونکہ یہ ایک سخت امتحان ہے تو آپ کو اس کی تیاری کرنے کے لیے کسی ٹیوشن یا اکیڈمی میں داخلہ لینا پڑتا ہے اور جب تک آپ پاس نہیں ہو جاتے آپ کو ان کا سہارا لیتے رہنا ہوگا۔پاکستان میں مہنگائی کا گراف تیزی سے اوپر جا رہا ہے اور غریب انسان کا گزارا بہت مشکل سے ہو گیا ہے۔ فی کس آمدنی میں کمی آرہی ہے۔ ایسے دور میں سی ایس ایس کی تیاری اور اکیڈمیوں کی فیسیں بھرنا اور زیادہ مشکل ہے۔یوں تو ہمارے معاشرے میں کئی شخصیات اور تنظیمیں فلاحی کام کر رہی ہیں، مگر مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس حوالے سے بھی بے وسیلہ طالب علموں میں آگے بڑھنے کا حوصلہ پیداکرنے اور عملی تعاون فراہم کرنے کے لیے کام ہورہاہے۔ مجھے الامین اکیڈمی کے بارے میں بتایاگیا تو خود وہاں جا کر جائزہ لینے کا پروگرام بنایا۔
الامین اکیڈمی ایک ایسی درس گاہ ہے جہاں اچھے نمبر لینے والے طلباء کو سی ایس ایس اور پی ایم ایس مقابلے کے امتحانوں کی تیاری کرائی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق آگے بڑھنے سے رہ نہ جائیں۔ اکیڈمی کا کام ان کو یہ بتانا ہے کہ آگے کیسے بڑھا جا سکتا ہے۔ اس اکیڈمی کا نظریہ یہ ہے کہ جب تک عام گھرانوں کے بچے سول سروسز اور بیوروکریسی میں شامل نہیں ہوں گے تب تک نہ ملک ترقی کر سکتا ہے، نہ ہی کوئی حقیقی تبدیلی آسکتی ہے اور نہ ہی عام آدمی کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں بہت سے فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں لیکن اتفاق سے کوئی ادارہ مستحق بچوں اور بچیوں کو سی ایس ایس اور پی ایم ایس پیپرز اور انٹرویو کی تیاری نہیں کروا رہا۔ یہ پاکستان کا پہلا اور منفرد منصوبہ ہے جس میں ضرورت مند طالب علموں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے اور اگر فیس لی جائے تو برائے نام لی جاتی ہے۔ ان کی علاوہ اور ادارے بھی ہیں جو سی ایس ایس اور پی ایم ایس کی تیاری کراتے ہیں لیکن ان کی فیس اتنی زیادہ ہے کہ متوسط یا غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے کسی طالب علم کے لئے وہ ادا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ اکیڈمی ایک طرح سے ٹیلنٹ ہنٹ کا کام بھی کرتی ہے کہ جو قابل طالب علم ہیں انہیں آگے لایا جائے، ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور آگے بڑھنے میں ان کی مدد کی جائے۔ ایک اور بڑی خوب چیز یہ دیکھنے کو ملی کہ یہاں طالب علموں کی عزتِ نفس کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت احتیاط سے کام لیا جاتا ہے، مفت پڑھنے کو سکالرشپ کا نام دیا گیا ہے۔ ان کا مقصد غریب عوام کو ان کا حق دلانا ہے۔ طالب علموں کو تیاری کرانے کے لئے ان لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جو پہلے سے بیوروکریسی میں ہوں یا وہ اپنے اپنے شعبے میں مہارت رکھتے ہوں۔ الامین اکیڈمی میں پڑھانے والے اساتذہ آن ڈیوٹی افسر‘ ریٹائرڈ افسر اور پاکستان کے بڑے تجزیہ نگار جرنلسٹ اور انٹرنیشنل میڈیا میں لکھنے والے افراد ہیں۔ الامین اکیڈمی سے پڑھ کر کئی بچے اسسٹنٹ کمشنر اور دوسرے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو کر ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔
وہیں میری ملاقات اس اکیڈمی کے بانی پیر ضیاالحق نقش بندی سے ہوئی۔ انہوں نے مجھے ساری تفصیلات بتائیں کہ کیسے ان کو یہ خیال آیا کہ ایک ایسی اکیڈمی بنائیں جو مستحق طلبہ و طالبات کے لیے ہو لیکن سہولیات وہی ہوں جو اعلی تعلیمی اداروں میں ہوتی ہیں۔ ان سے گفتگو کر کے معلوم ہوا کہ وہ اپنے اس نیکی کے کام کو پورے پاکستان میں پھیلانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں ہر کسی کو اعلی ملازمتوں کے لیے مساوی مواقع ملیں۔ یقینا بہت جلد وہ اس خواب کی تعبیر بھی پا لیں گے۔