سیرت رسول اللہ ﷺکا پیغام، وزیر اعظم پاکستان کے نام
تحریر:ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمان
جناب وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان
السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ گزشتہ روز مجھے اسلام آباد کی مارگلہ روڈ سےسر شام گزرنے کا اتفاق ہوا تو سڑک کے بیچوں بیچ برقی لایئٹنگ اور قمقموں کی ایک طویل لائن نظر آئی۔ معلوم ہوا کہ ربیع الاول کے مہینے کے آغاز ہی سے نبی آخرالزماں حضرت محمد رسول اللہﷺکی ذات گرامی قدر کے ساتھ محبت و تعلق کے اظہار کے لئے عوامی سطح پر جو اہتمام کیا جاتا ہے یہ چراغاں اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ آپﷺ کے ساتھ کسی بھی مسلمان کے والہانہ تعلق اور محبت بھرے جذبات کا ہونا ایمان کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک اہم ترین تقاضا ہے۔ اس طرح کا چراغاں 12 ربیع الاول کو سرکاری سطح پر ملک بھر کی اہم سرکاری عمارتوں پر بھی نظر آئے گا۔
وزیر اعظم صاحب! مجھے اس اہتمام کو دیکھ کر "ریچول ازم" کی تھیوری یاد آگئی جس کے مطابق کسی بھی بہت اہم اور سنجیدہ نوعیت کے کام کو اکثر اوقات کچھ عرصہ گزارنے کے بعد محض ایک روایت اور رسم کے طور نبھایا جاتا ہے اور اس کے اصل معانی و مفہوم کو رفتہ رفتہ بھلا کر فراموش کر دیا جاتا ہے۔ کیا نبی مکرم ﷺ کی میلاد کے نام پر ہم سرکاری سطح پر منعقد کی جانے والی تقاریب میں اسی نوعیت کی رسمی کارروائی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے میں آج آپ سے مخاطب ہوں۔ مجھے پاکستان کے شہری ہونے کے ناطے اپنی کم مائیگی کا پورا احساس ہے کہ غالب امکان یہی ہے کہ میں اس خط کے مندرجات کو آپ تک پہنچا بھی نہیں سکوں گا۔ مگر اس کے باوجود میں یہ چند معروضات آپ کی خدمت میں ربیع الاول کے اس مہینے میں سیرت رسول کریم ﷺ کے ان تقاضوں کے بارے میں پیش کرنا چاہتا ہوں جو میری دانست میں براہ راست بربنائے منصب آپ کی توجہ کے مستحق ہیں۔
جناب والا! آپ جس ملک کے وزیراعظم ہیں اس کے آئین کی رو سے ملک کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ آپ اس منصب پر ایک طویل جدوجہد اور مشکل حالات کا سامنا کرنے کے بعد براجمان ہوئے ہیں۔ آپ کی ذات اور خاندان کے لئے ان حالات کا سامنا کرنا آسان نہیں تھا مگر اللہ نے آپ کو عزت بخشی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظم بنایا۔ اس سے قبل آپ کو ایک سے زائد بار ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلٰی کے طور پر بھی کام کرنے کا موقع مل چکا ہے۔ جہاں یہ اللہ کی طرف سے آپ پر ایک انعام ہے وہاں اتمام حجت بھی ہے کہ اتنا طویل عرصہ حکمرانی کا موقع ملنے پر آپ اس ملک کو سیرت رسول اللہﷺکے تقاضوں کے مطابق چلا سکے یا نہیں؟ آپ جب سے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں ہم نے آپ سے جمہوریت، آئین،حکومتی نظم و نسق، اچھی حکمرانی، معیشت کی بحالی،اداروں کی مضبوطی کے بارے میں بارہا بیانات سنے ہیں مگر ملک کے اسلامی تشخص اور نظریاتی جہت کے بارے میں کماحقہ آپ کے خیالات و اقدامات سننے اور دیکھنے میں نہیں آئے۔ میں قطعی طور پر یہ نہیں فرض کر رہا کہ آپ بحیثیت وزیراعظم پاکستان کے اسلامی تشخص سے غافل ہیں۔ آپ یقیناً اس بارے میں سوچتے ہوں گے کیونکہ آپ کا تعلق جس خاندان سے ہے وہ مشرقی روایات کا امین ہونے کیساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کے ساتھ مضبوطی سے جڑا رہا ہے۔
جناب وزیراعظم ! آپ کی موجودہ ٹیم کے حوالے سے بعض خدشات وقتاً فوقتاً سامنے آتے ہیں، اس کا نتیجہ کبھی پنجاب میں متنازعہ ویمن پروٹیکشن ایکٹ کی صورت میں نکلتا ہے اور کبھی مرکز میں متنازعہ پالیسی و قانون سازی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ خواتین اور معاشرے کے پسے طبقات کے جائز حقوق کے تحفظ کے لئے قانون سازی اور پالیسی سازی کے رہنما اصول آپ کو سیرت رسول اللہﷺ سے اخذکرنے چاہئیں۔ یہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم کے شایان شان ہے۔ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی ٹیم کے بعض ارکان اس بارے میں پالیسی و قانون سازی کے رہنما اصول متنازعہ بین الاقوامی معاہدوں اور این جی اوز کے ایجنڈے سے اخذ کر رہے ہیں۔
آپ جس ملک کے وزیراعظم ہیں اس کے آئین کی رو سے اس ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ آئین متعدد اسلامی دفعات کا حامل ہے جن میں رسول اللہﷺکی ختم نبوت کی حفاظت سمیت ملک کے اسلامی تشخص کی ترویج کے لئے ہمہ گیر ادارہ جاتی نظم بھی اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ کی صورت میں فراہم کیا گیا ہے۔ مسلمانان پاکستان کو اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے قالب میں ڈھالنے کے لئے ریاستی ذمہ داری کا تعین بھی آئین میں کیا گیا۔ جناب شہباز شریف بحیثیت وزیر اعظم پاکستان اور حلف کی رو سے آپ ان تمام آئینی شقوں پر عملدرآمد کے امین ہیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ چند برسوں کے دوران ملکی سیاست اور پالیسی سازی کے ڈسکورس سے اسلامی تعلیمات کو بالکل غیر محسوس طریقے سے نکال دیا گیا ہے۔ اللہ نے جنہیں آپ کی طرح صاحب اقتدار بنایا ہو ان کے لئے قرآن مجید نے جو پالیسی گائیڈ لائن مقرر کی ہے وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ سورة الحج کی آیت نمبر 41 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”یعنی وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰة دیں گے اور اچھے کام کا حکم دیں گے اور برے کام سے روکیں گے اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضہ میں ہے“۔
جناب وزیراعظم! آپ کے لئے سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے پہلا اور نمایاں پیغام یہی ہے کہ اس آیت مبارکہ کی روشنی میں اپنا احتساب کر لیجیے کہ بار بار اقتدار عطا ہونے کے باوجود اس آیت مبارکہ میں بیان کردہ رہنما اصولوں پر کتنا عمل کیا گیا ہے؟ رسول اکرم ﷺے جو نظام قائم کیا تھا اس میں نماز کے قیام کو مرکزی اہمیت حاصل تھی، آج حکومتی ذمہ دار اپنی ذاتی حیثیتوں میں تو نمازیں ادا کرتے ہیں مگر نماز قائم کرنے کی ذمہ داری سے بالعموم غافل ہیں۔ یہ احساس جڑ پکڑ چکا ہے کہ حکومت و ریاست کو ان شخصی عبادتوں میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیئے۔ دراصل یہی فکر خرابی کی وجہ ہے۔ سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس تقاضے کی طرف توجہ کیجئے۔
اسی طرح ملک میں اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کی تشکیل عرصہ دراز سے ادھوری و نامکمل ہے۔ یہ نہ صرف ان آئینی اداروں کی بے توقیری ہے بلکہ اس سے یہ پیغام جاتا ہے کہ ریاست و حکومت آئین کی اسلامی شقوں اور اداروں کو محض رسمی کارروائی کے طور پر برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جناب وزیراعظم آپ اس بارے میں فوری نوعیت کے فیصلے کر کے یہ پیغام دے سکتے ہیں آپ کے لئے ملک کی نظریاتی اساس سب اولین اہمیت کی حامل ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین کے طور پر سنجیدہ، علمی اور باوقار افراد کا انتخاب کر کے اس ادارے کوممبرشپ کی بندربانٹ کی روایت سے نکال لیجیے۔ یہ ادارہ اس بات کا مستحق ہے کہ ریاست کلی طور پر اسے مضبوط بنائے تاکہ ملک کو درپیش نظریاتی چیلنجز سے نپٹا جا سکے مگر یہ صرف اسی صورت میں ممکن جب ادارے کی تشکیل میرٹ پر کی جائے گی۔ اسی طرح وفاقی شرعی عدالت میں جج صاحبان کی بروقت تقرری کے عمل کو عدلیہ کے ساتھ مشاورت سے مکمل کیا جائے۔ اس ادارے کو کئی برسوں سے عضو معطل بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ جناب وزیراعظم آپ کے لئے سیرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی پیغام ہے کہ ملک میں شریعت کے تقاضوں کے مطابق قوانین کی تشکیل کو یقینی بنانے کے لئے ان اداروں پر توجہ فرمائیں۔
ملک میں غربت و افلاس کا دور دورہ ہے اور عوام کو اس مشکل سے نکالنے کے لئے ہم بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے مختلف قسم کے غربت مکاؤ پروگرام چلاتے رہے ہیں۔ آپ کی حکومت کی معاشی پالیسی اور معاشی ٹیم کی ہمیشہ تعریف کی جاتی ہے۔ اسلامی ریاست کو رسول اللہ ﷺ نے زکوٰة کے ہمہ گیر نظام کے ساتھ منسلک کیا تھا۔ ہمارے ہاں زکوٰة اور بیت المال کے ادارے جس انتظامی ابتری کی کیفیت کا شکار ہیں وہ آپ سے اوجھل نہیں ۔ عوامی اعتماد کی بحالی کے لئے ان اداروں کی تعمیر نو کی ضرورت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ کی معاشی پالیسیوں اور غربت کے خاتمے کی سٹریٹجی میں زکوٰة اور بیت المال کو مرکزی مقام حاصل ہو گا۔ ملک کے حکمران کے لئے سیرت رسول اللہ ﷺکا یہ پہلو بہت نمایاں اور قابل عمل ہے۔
جناب وزیراعظم آپ کی حکومت نے سابقہ حکومت کی قائم کردہ رحمة للعالمینؐ اتھارٹی کے قانون کو بعض ترامیم کے ساتھ منظور کر کے اس اتھارٹی کو قائم رکھا ہے جو ایک مثبت و خوش آئند بات ہے۔ ربیع الاول کے مہینے میں رسمی محافل سے ہٹ کر اس اتھارٹی کو فعال بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم کام یہ ہے کہ اس اتھارٹی کے ممبران و سٹاف کے تعین میں بھی سیاسی بنیادوں پر حلیف جماعتوں کو نوازنے کے عمل کو روک کر خالصتاً میرٹ پر تقرریاں کی جائیں۔ اس اتھارٹی کو اگر صحیح معنوں میں فعال کر دیا جاتا ہے تو اس سے تعلیمی اداروں اور نوجوانوں میں سیرت رسول اللہﷺکے روشن اور درخشندہ پہلوؤں کو اجاگر کرنے کا سلسلہ ممکن ہو سکے گا۔ یہ اتھارٹی سیرت رسولﷺ کی بنیاد پر معاشرتی ہم آہنگی، امن و سلامتی،پائیدار ترقی، صحت و صفائی،شہری ذمہ داری، ریاستی وفاداری وغیرہ کے بارے میں نوجوان نسل کی تربیت کا کٹھن کام کر سکتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو تقسیم اور فکری کنفیوژن کی کیفیت خوفناک حد تک سرایت کر چکی ہے اس کا تریاق سیرت رسول اللہ ﷺکی تعلیم و تعلم میں ہے اور یہ کام اس اتھارٹی کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔
جناب والا! ملک سے بے حیائی اور منکرات کے خاتمے کے لئے بھی سیرت رسول اللہ ﷺ سے بہت کچھ سیکھ کر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔