عدم اعتماد میں اگر ووٹ گنا نہ جائے تو وزیراعظم کو ہٹا یا ہی نہیں جا سکتا، اس طرح آرٹیکل 95تو غیر فعال ہو گیا، ووٹ ڈالا ہی اس لئے جاتا ہے گنا جائے: چیف جسٹس
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جب آئین میں لکھ دیا گیا کہ نااہل رکن ڈی سیٹ ہوگا تو ڈی سیٹ ہی ہوگا، ایک طرف رائے دی گئی منحرف رکن ڈی سیٹ ہوگا اور دوسری طرف کہا گیا کہ نااہلی کی مدت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے یہ تو تضاد ہے، لگتا ہے آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ تحریک عدم اعتماد کو غیر موثر بنانے کے لئے تھا۔ وفاق میں اتحادی حکومت اور پاکستان پیپلزپارٹی نے سپریم کور ٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیل کی حمایت کردی، باقی تمام پارٹیوں اور وکلا تنظیموں نے بھی نظرثانی کی حمایت کی، صرف پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے نظرثانی کی مخالفت سامنے آئی، آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت آج (بدھ تک) تک ملتوی کردی گئی۔ منگل کے روز سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے نظر ثانی کیس کی سماعت ہوئی جہاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔ جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال مندوخیل 5 رکنی لارجربینچ میں شامل ہیں، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل بھی بینچ کا حصہ ہیں۔سماعت کے آغاز پر صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت اور پی ٹی آئی وکیل علی ظفر روسٹرم پر آئے جہاں بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے بنچ پر اعتراض اٹھایا لیکن چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر کو بینچ پر اعتراض کرنے سے روک دیا تاہم عمران خان کے وکیل نے بار بار بات کرنے کی اجازت دینے پر اصرار کیا۔اس پر قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کیا آپ کو میری بات سمجھ نہیں آ رہی؟ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں تو آپ بھی خیال رکھیں، یہ طریقہ نہیں کہ آپ کسی اور کی باری میں بولیں، جمہوریت کا کبھی تو خیال کرلیں، آپ کو بعد میں سن لیں گے پہلے شہزاد شوکت کو بولنے دیں یہ آپ کے صدر نہیں ہیں؟ ہم آپ کو بھی سنیں گے جب آپ کی باری آئے گی، ابھی آپ بیٹھ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اب کچھ بھی بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہو رہا، سپریم کورٹ میں اب جو کچھ ہوتا ہے سب کے سامنے ہوتا ہے، جسٹس منیب اختر نے بنچ میں شمولیت سے معذوری ظاہر کی، میں نے جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس منصور علی شاہ کا نام تجویز کیا، آج صبح نو بجے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس بلایا، کمیٹی نے جسٹس منصور علی شاہ کا انتظار کیا۔چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ جسٹس منصور کی عدم شرکت پر ان کے دفتر سے رابطہ کیا تو جسٹس منصور علی شاہ نے بنچ میں شمولیت سے انکار کیا، جسٹس منصور علی شاہ کے انکار کے بعد ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا، میں نہیں چاہتا دوسرے بنچز کو ڈسٹرب کیا جائے اس لیے جسٹس نعیم اختر افغان کو بنچ میں شامل کر لیا گیا، اب بنچ مکمل ہو گیا ہے کارروائی شروع کی جائے۔سپریم کورٹ بار کے وکیل اور صدر شہزاد شوکت نے دلائل شروع کیے اور کہا کہ 18 مارچ کو سپریم کورٹ بار نے درخواست دائر کی، 21 مارچ کو چار سوالات پر مبنی صدارتی ریفرنس بھجوایا گیا۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا ریفرنس اور آپ کی درخواستوں کو ایک ساتھ سنا جا سکتا تھا؟ وکیل شہزاد شوکت نے کہا کہ 27 مارچ کواس وقت کے وزیر اعظم نے ایک ریلی نکالی۔اس پر چیف جسٹس نے انہیں ٹوک دیا کہ سیاسی معاملات پر بات نہ کریں۔صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ 8 مارچ کو عدم اعتماد کی تحریک آئی، 21 مارچ 2022ء کو پی ٹی آئی حکومت میں صدر مملکت نے سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجا، ہماری درخواست آرٹیکل 184 تین کے تحت دائر ہوئی صدر مملکت نے آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس دائر کیا۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ آئینی درخواست کس نے دائر کی تھی؟ اس وقت صدر مملکت کون تھے؟ صدر بار نے کہاکہ پی ٹی آئی نے درخواست دائر کی اور اس وقت عارف علوی صدر مملکت تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک طرف صدر مملکت ریفرنس بھیج رہے ہیں دوسری طرف حکومتی جماعت آرٹیکل 184کے تحت ریفرنس دائر کرتی ہے۔صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ ریفرنس میں یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا منحرف ارکان اسمبلی کا ووٹ شمار ہوگا، سپریم کورٹ نے ریفرنس پر رائے دے کر آئین میں نئے الفاظ شامل کیے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایک طرف رائے دی گئی کہ منحرف رکن ڈی سیٹ ہوگا اور دوسری طرف کہا گیا کہ نااہلی کی مدت کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے یہ تو تضاد ہے، جب آئین میں لکھ دیا گیا کہ نااہل رکن ڈی سیٹ ہوگا تو ڈی سیٹ ہوگا، چیف جسٹس کی رائے میں کہاں کہا گیا کہ ڈی سیٹ ہوگا؟چیف جسٹس نے کہا کہ کیا عدالت کی یہ رائے صدر کے سوال کا جواب تھی؟ صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ یہ رائے صدر کے سوال کا جواب نہیں تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اخلاقیات سے متعلق ریفرنس میں سوال کیا جینوئن تھا؟ اس پر شہزاد شوکت نے کہا کہ عدالت نے قرار دیا تھا منحرف رکن کا ووٹ گنا نہیں جاسکتا، ایک سوال کسی رکن کے ضمیر کی اواز سے متعلق تھا، فیصلے میں آئین پاکستان کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی گئی۔آخری جملے پر چیف جسٹس نے انہیں ٹوکا کہ ابھی آپ ایسے دلائل نہ دیں بنیادی حقائق مکمل کریں، ریفرنس کے سوال میں انحراف کے لیے کینسر کا لفظ لکھا گیا، یہ لفظ نہ ہوتا تو کیا سوال کا اثر کم ہو جاتا؟ آپ بتائیں آپ کو اس فیصلے پر اعتراض کیا ہے؟ آپ کو اعتراض اقلیتی فیصلے پر ہے یا اکثریتی فیصلے پر؟ شہزاد شوکت نے کہا کہ ہم اکثریتی فیصلے پر اعتراض اٹھا رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے فیصلے میں یہ کہاں لکھا ہے کہ ووٹ نہ گنے جانے پر بندہ نااہل ہوگا؟ یہ فیصلہ تو معاملے کو پارٹی سربراہ پر چھوڑ رہا ہے پارٹی سربراہ کی مرضی ہے وہ چاہے تو اسے نااہل کردے، پارٹی سربراہ اگر ڈیکلریشن نااہلی کا بھیجے ہی ناں تو کیا ہوگا؟ اس پر شہزاد شوکت نے کہا کہ پھر یہ معاملہ ختم ہو جائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ووٹ دینے اور کاؤنٹ نہ ہونے پر فوری نااہلی ہوگی؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہیں فیصلے میں ایسا نہیں کہا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدم اعتماد میں اگر ووٹ گنا ہی نہ جائے تو وزیراعظم کو ہٹایا ہی نہیں جاسکتا، اس کا مطلب ہے آرٹیکل 95 تو غیر فعال ہوگیا، شہزاد شوکت نے کہا کہ اگر ووٹ گنا نہ جائے تو پھر بجٹ پارلیمنٹ سے منظور ہونے کی شرط کیوں ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ ووٹنگ کی مشق ہوتی ہی اس لیے ہے کہ اسے گنا بھی جائے۔ ووٹ ڈالا ہی اس لئے جاتا ہے کہ گنا جائیجسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ اقلیتی فیصلے کو بھی چیلنج کرنا چاہیں گے؟ پارلیمانی پارٹی کوئی اور فیصلہ کرے، پارٹی سربراہ کوئی اور فیصلہ کرے تو کیا ہوگا؟جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اس کا ایک حوالہ اقلیتی فیصلے میں موجود ہے، بلوچستان میں ایک مرتبہ اپنے ہی وزیراعلی کے خلاف اس کے اراکین تحریک عدم اعتماد لائے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کے ساتھ دیکھیں کیا ہوا؟ پارٹی کی حکمرانی برقرار رہی لیکن وزیراعظم تبدیل ہوگیا، یہ عدالتی فیصلہ تو لگتا ہے عدم اعتماد کی تحریک کو غیر موثر بنانے کے لیے تھا۔قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی رکن اسمبلی نے ضمیر کی آواز پر ووٹ دیا اس کا فیصلہ کون اور کیسے کرے گا؟ جو لوگ سیاسی جماعتیں تبدیل کرتے رہتے ہیں کیا ان کا یہ اقدام بھی ضمیر کی آواز ہوتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کے ضمیر کا معاملہ طے کرنا مشکل ہے، کیا فیصلہ آرٹیکل 95 اور 163 کو متاثر نہیں کرتا؟ کیا پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلنے جیسا نہیں؟چیف جسٹس نے کہا کہ جو لوگ سیاسی جماعتیں بدلتے رہتے ہیں انہیں ضمیر والا سمجھیں یا نہیں، فیصلے سے اختلاف کرنے والا جج بھی باضمیر ہوگا یا نہیں، ہم کون ہوتے ہیں کہنے والے کہ تم باضمیر نہیں ہو۔، جو اصول دوسروں کیلئے طے کیا گیا اس کا اطلاق ہم پربھی ہوتا ہے، آرٹیکل 62 ون ایف کا ازخود اطلاق نہیں ہوسکتا، 62ون ایف سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ موجود ہے، اس فیصلے میں لکھا گیا صادق یا امین ہونے کا تعین براہ راست نہیں کیا جاسکتا، کسی کے ضمیر کا معاملہ طے کرنا مشکل ہے۔صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا کہ کوئی ایک مثال موجود نہیں جس میں محض ضمیر کی آواز پر انحراف کیا گیا ہو۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سچ میں ایسا لکھا گیا ہے؟اس پر شہزاد شوکت نے متعلقہ پیراگراف پڑھ کر سنادیا اور کہا کہ واقعے کے بعد منحرف اراکین کی تاحیات نااہلی کی درخواست آئی تھی، اس وقت کے وزیراعظم نے احتجاجی ریلی کی کال دے رکھی تھی، اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ رکن کو سیشن میں شرکت سے نہیں روکا جائے گا، شہزاد شوکت کی جانب سے دورانِ سماعت سندھ ہاؤس پر حملے کا بھی تذکرہ کیا گیا۔ شہزاد شوکت نے کہا کہ سندھ ہاؤس پر حملہ کردیا گیا تھا اور تاثر دیا گیا کہ منحرف اراکین سندھ ہاؤس میں موجود ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا سندھ ہاؤس حملے سے متعلق درخواست سپریم کورٹ میں آئی تھی؟چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ لوگ غائب بھی ہوجاتے ہیں، 63 اے میں طے کردہ اصول تو دودھاری تلوار ہیں، پارلیمانی پارٹی ہیڈ کے بغیر ووٹ دینا یا ووٹ دینے کے بجائے خاموش رہنا بھی عدالتی فیصلے کا حصہ ہے، اگر کوئی ناقد ہے تو کیا بوگا؟ میرے خیال میں آپ کہنا چاہتے ہیں ووٹ دیں، اگر خاموش رہیں یا مخالفت کریں گے تو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج کی حزب اختلاف کی جماعتیں عدم اعتماد کی تحریک لاتی ہیں، حکومتی اراکین بھاگ جاتے ہیں تو پھر بھی اسی فیصلے کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ جن سیاست دانوں نے ایک پارٹی چھوڑ کردوسری پارٹی جوائن کی، کیا ان پر بھی تاحیات پابندی عائد کی گئی؟ کیا صدارتی ریفرنس وزیراعظم کی ایڈوائس پر بھیجا گیا تھا یا خود سے صدر نے دائر کیا۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ خود کار اندازمیں منحرف رکن نااہل کیسے ہوسکتا ہے؟صدر سپریم کورٹ بار نے کہا کہ منحرف رکن کی نااہلی کے لیے پارلیمانی پارٹی کے ہیڈ کا ڈیکلریشن کا پورا طریقہ کار ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی فیصلے میں ڈیکلریشن کا ذکر کیا آئین میں صرف ڈی سیٹ کا ذکر ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ منحرف اراکین کے بارے میں برطانیہ اور امریکا کے حوالہ جات دئیے جائیں، حال ہی میں لیبر پارٹی کی ایک رکن نے اپنے وزیراعظم کے خلاف تقریر کی، اس کی حثیت آزاد رکن کے طور پر تبدیل کردی گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت ویسے بھی اس کیس میں کوئی زندہ سوال موجود نہیں ہے، اس وقت نہ عدم اعتماد کی تحریک زیرالتو ہے اور نہ اعتماد کی تحریک، ریفرنس سابق صدرعارف علوی نے دائر کیا عارف علوی اگر وکیل کے ذریعے پیش ہوکر معاونت کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہمارے کچھ اعتراضات ہیں انہیں سنا جائے ہمیں بطور سیاسی جماعت نوٹس جاری کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ویسے بھی پی ٹی آئی کے سینیٹر ہیں آپ خود دلائل دیں یا پی ٹی آئی کی طرف سے دلائل دیں آپ کو اجازت ہے ہم آپ کو آپ کی باری پر سنیں گے۔بعد ازاں عدالت نے منگل کے روز کی سماعت کا حکم نامہ جاری کردیا جس میں کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظر ثانی تین دن تاخیر سے دائر کی گئی، مختصر حکم نامہ 17 کو آیا جبکہ نظرثانی 23 جون کو دائر کی گئی، تفصیلی فیصلہ کب جاری ہوا سپریم کورٹ دفتر جائزہ لے کر بتائے۔عدالت نے پارلیمانی پارٹی سربراہ کی ہدایت سے متعلق برطانیہ، امریکا، آسٹریلیا اور دیگر ممالک کے حوالہ جات طلب کیے۔ عدالت نے قرار دیا کہ صدارتی ریفرنس اور مفاد عامہ کی درخواستوں کو ایک ساتھ کیسے سنا جاسکتا تھا؟ اس لیے عدالت نے معاونت طلب کرلی۔ کیس کی سماعت آج پھر ہو گی۔
چیف جسٹس