نوادرات اور تاریخی کتبے چیخ چیخ کر گواہی دے رہے تھے کہ وہ اپنے وقت کا عظیم الشان بادشاہ تھالیکن مجھے ”عظیم فرعون“ سے زیادہ امرود بیچنے والا بابا ہی لگا 

Oct 02, 2024 | 09:51 PM

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:18
 یہاں بھی اسے چین میسر نہ ہوا اور اس کے حنوط شدہ جسم کو اس کے اصلی تابوت سے نکال کر نمائش، تحقیق اور دیمک وغیرہ کے علاج کے نام پر ملکوں ملکوں گھمایا گیا۔ ہرچند کہ وہ ایک لاش ہی تھی لیکن دنیا کی نظر میں بہر حال وہ اپنے وقت کا عظیم شہنشاہ تھا لہٰذا اُسے جہاں کہیں بھی لے جایا جاتا اس کے ساتھ بادشاہوں والا سلوک ہی ہوتا تھا اور اس کے تابوت کو میزبان ملک نہ صرف سرکاری پروٹوکول دیتا بلکہ اسے شاہی سلامی بھی پیش کی جاتی اور مناسب عزت اور احترام بھی دیا جاتا تھا۔وہ سات مہینے تک فرانس کی ایک لیبارٹری میں زیر تفتیش اور زیر علاج رہا، جہاں اس کی موت کی وجوہات جاننے کے لئے ڈاکٹروں نے کئی تجربات کئے اور وقت کے ہاتھوں اس کے مسلسل تباہ ہوتے ہوئے جسم کو بچانے کی کوششیں کی گئیں۔
یہی فرعون، جس نے کسی دور میں اپنے خدا ہونے کا دعویٰ کیا تھا، اس وقت بے بسی کی تصویر بنا کاندھوں تک مٹیالی سی پٹیوں میں لپٹا ہوا ایک چبوترے پر پڑا تھا۔ ایک ملگجی سی چادر اوڑھے وہ اپنے مردہ وجود کے ساتھ دونوں ہاتھ ایک خاص شہنشاہی اندازمیں سینے پر باندھے چپ چاپ اپنی اَدھ کھلی آنکھوں سے خلاؤں میں بیتے دنوں کی عظیم یادوں کو تلاش کر رہا تھا۔ اس کی لمبی سی گردن بہت واضح تھی اور کسی سوکھی ہوئی لکڑی کی مانند اکڑی ہوئی تھی۔ طوطے کی طرح خم کھایا ہوا بڑا سا ناک اس کے لمبوترے چہرے پر ذرا بھی نہیں سج رہا تھا۔ وقت کی دھول میں اَٹا ہوا اس کا کٹا پھٹا جسم تانبے کی سی رنگت اختیار کر گیا تھا۔
 وہ عام سے قد کاٹھ کا ایک معمولی سا انسان تھا۔ پہلی نظر میں وہ ایک عام سا گنجا بابا ہی لگتا تھا۔ اس کے دانت کچھ کچھ باہر نکلے ہوئے تھے اور کنپٹیوں اور سر کے پچھلے حصے پر چند سرخ اور سنہری بال ابھی تک موجود تھے۔ مجھے تو وہ ”عظیم فرعون“ سے زیادہ اپنے محلے میں کھٹ مٹھے امرود بیچنے والا بابا عنائیتا ہی لگا تھا۔ تاہم چاروں طرف پڑے ہوئے رنگ برنگے نوادرات اور تاریخی کتبے چیخ چیخ کر اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ وہ واقعی اپنے وقت کا کوئی عظیم الشان بادشاہ ہی تھا۔ اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی پڑا۔میں اس وقت تک وہاں کھڑا رہا جب تک کہ ایک دربان مجھے وہاں سے گھسیٹتا ہوا باہر نہ لے آیا۔
کوئی چار گھنٹے تک مسلسل اس فرعونی ماحول میں پھرنے کے بعد میں اپنے آپ کو بھی اس دور کا ہی کوئی باشندہ سمجھنے لگ گیا تھا۔میں وہاں سے باہر نکلا تو دوپہر ڈھل رہی تھی ایک دم بھوک چمکی تو میں ایک قریبی ریستوران میں جا بیٹھا۔ وہاں ایک بار پھر پھیکے کباب اور موٹے سفید چاول کھائے اور بعد ازاں بے تحاشہ میٹھا قہوہ پی کر کچھ تھکاوٹ دور کی اور وہاں سے اٹھ آیا۔
(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزیدخبریں