لاپتہ افراد کے لواحقین: درد کے دن اور درد کی راتیں

لاپتہ افراد کے لواحقین: درد کے دن اور درد کی راتیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ڈیفنس آف ہیومن رائٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہمارے پاس اس وقت 756 لاپتہ افراد کے کیس موجود ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کی روشنی میں 39 لاپتہ افراد کا سراغ لگا کر انہیں ان کے پیاروں کے پاس پہنچایا جا چکا ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے انتہائی متحرک ہیں۔ پچھلے دنوں چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری نے ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ : ”لوگوں کو اٹھانے کے ثبوت موجود ہیں، ہمیں بندے چاہئیں، اس سے کچھ کم نہیں“۔ اسی طرح پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس دوست محمد نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے باور کرایا کہ: ”ہمیں سول، ملٹری ایکٹ کے تحت کارروائی پر مجبور نہ کیا جائے“۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کے دو ٹوک موقف کے بعد قومی سلامتی کمیشن نے لاپتہ افراد کے بارے میں نئی قانون سازی، ایجنسیوں کے کردار اور قانون شہادت میں سقم دور کرنے کے لئے نئی سفارشات مرتب کی ہیں۔
دوسری طرف گزشتہ دنوں کمیشن برائے لاپتہ افراد کا 4 روزہ اجلاس لاہور میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں پنجاب کے 134 لاپتہ افراد کی فہرست پیش کی گئی۔ اجلاس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی نے تین افراد قاری حفیظ الرحمن، رضوان علی اور وقاص کو اپنی تحویل میں لینے کا اعتراف کیا۔ اجلاس کے پہلے، دوسرے اور تیسرے روز کے سیشن میں یہ افسوسناک صورت حال دیکھنے میں آئی کہ تینوں اجلاسوں میں پنجاب کے سیکرٹری داخلہ نے آنے کی زحمت تک نہ کی، جس پر کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔کمیشن برائے لاپتہ افراد میں پنجاب کے جن 134 لاپتہ افراد کی فہرست پیش کی گئی ہے، ان میں 19 افراد کا تعلق لاہور سے ہے، ان میں سے ایک نوجوان حبیب الرحمن کو ایجنسیوں نے سیالکوٹ سے گرفتار کیا تھا، جب وہ اپنی اہلیہ کے علاج معالجے کے لئے سی ایم ایچ سیالکوٹ موجود تھا۔ یہ وہی نوجوان ہے، جس کی بوڑھی والدہ گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ کے باہر آمنہ مسعود جنجوعہ کی قیادت میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں شدت غم سے بے ہوش ہوگئی تھی۔ حبیب الرحمن کون ہے؟.... اور اسے نجانے کس جرم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا ہے؟
29 سالہ حبیب الرحمن آریہ نگر اسلامیہ پارک، سمن آباد لاہور کا رہائشی ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صوم و صلوٰة کا پابند ہے۔ وہ اپنے تین بھائیوں سعد الرحمن، مسلم الرحمن اور عبدالرحمن کے ہمراہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور میں شوز میٹریل کا کاروبار کرتا تھا۔ اس کے والد محترم خلیل الرحمن سہگل کا شمار شہر کی ممتاز مخیر شخصیات میں ہوتا تھا۔ اڑھائی برس قبل ان کا انتقال ہوا۔ خلیل سہگل (مرحوم) نے اپنی آمدن کا ایک بڑا حصہ دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ وہ روز مرہ غریبوں کی مدد کرنے کے علاوہ عید، بکرا عید اوردوسرے سلامی تہواروں پر یتیموں، بیواو¿ں اور مساکین میں آٹا، چینی، گھی، چاول اور دالوں سمیت کھانے کی دیگر اشیاءکے ہزاروں بڑے پیکٹ بنا کر تقسیم کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی اولاد کو وصیت کی تھی کہ میرے مرنے کے بعد دکھیوں کی مدد کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ خلیل سہگل (مرحوم) میجر رشید وڑائچ کی ”مسجد مرکز تحریک“ سے انتہائی متاثر تھے۔ وہ آخر دم تک اس تحریک کی کامیابی کے لئے میجر صاحب کے شانہ بشانہ جدوجہد کرتے رہے۔ اڑھائی برس قبل جب میجر رشید وڑائچ کا انتقال ہوا، تو وہ بھی اس کے ایک آدھ ماہ بعد اللہ کو پیارے ہوگئے۔
خلیل سہگل (مرحوم) کے بڑے صاحبزادے سعد الرحمن نے اپنے والد کی وفات کے بعد غریبوں کی چارہ جوئی کا سلسلہ جاری رکھنے کے ساتھ اس میں توسیع بھی کر دی۔ چاروں بھائیوں نے صلاح مشورے کے بعد ہر روز 150 سے زائد غریبوں کے لئے صبح کے کھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس ضمن میں سعد الرحمن، مسلم الرحمن اور عبدالرحمن نے اپنے بھائی حبیب الرحمن کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ رات بھر غریبوں کے لئے صبح کا کھانا تیار کرائے اور پھر یہ کھانا انہیں کھلانے کے لئے لے جائے۔ غریبوں کو کھانا کھلانے کے لئے انہوں نے سمن آباد دوسرے گول چکر نیا مزنگ کا پوائنٹ منتخب کیا۔ جہاں دوسرے شہروں سے آئے ہوئے، سائبان سے محروم سینکڑوں مزدور گول چکر کے پارک اور دکانوں کے تھڑوں پر گرمی سردی سے بے نیاز اپنی راتیں گزارتے ہیں۔

حبیب الرحمن کا معمول تھا کہ وہ صبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد اپنے دو ملازمین کے ہمراہ سمن آباد کے دوسرے گول چکر پر پہنچ جاتا، جہاں بے بس اور ناتواں غریب، محنت کش اپنی پیٹ پوجا کے لئے صبح سویرے ان کے منتظر ہوتے ہیں.... حبیب الرحمن اور اس کے ساتھی اپنے ہاتھوں سے انہیں نان، حلوہ، حلیم اور چائے پلاتے۔ حبیب الرحمن دکھی دلوں کا مداوہ کرنے کے بعد انہیں صوم و صلوٰة پر کاربند رہنے اور اسلام کی اعلیٰ و ارفع روایات پر عمل کرنے کا درس دیتے، اسلام سے محبت اور نبی آخر الزماں حضرت محمد سے عقیدت حبیب الرحمن کا جرم بن گئی۔ حبیب الرحمن 13 مارچ 2011ءکو اپنی اہلیہ کے علاج معالجے کے لئے سی ایم ایچ سیالکوٹ میں موجود تھا کہ وہاں سے خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے اسے اٹھا لیا۔ جس وقت حبیب الرحمن کو گرفتار کیا گیا، عین اسی وقت ہسپتال میں داخل اس کی اہلیہ نے تیسری بیٹی کو جنم دیا۔ حبیب الرحمن کی دوسری دو بیٹیوں کی عمریں 4 سال اور 3 سال ہےں۔ بڑی بیٹی کا نام نائمہ اور دوسری کا نام یسریٰ ہے ،جبکہ باپ کی گرفتاری کے وقت جنم لینے والی تیسری بیٹی خنسہ اس وقت سوا سال کی ہے۔
حبیب الرحمن اور اس کے تینوں بھائیوں نے اپنے والد خلیل سہگل (مرحوم) کی نصیحت اور وصیت کے مطابق دکھی انسانیت کی خدمت کو شعار بنایا تھا، جبکہ ان کے دادا عبدالرحمن سہگل (مرحوم) بھی ایک دردِ دل رکھنے والی شخصیت تھے۔ انہوں نے تحریک پاکستان میں عملی حصہ لیا۔ ان کا ناتہ علامہ عنایت المشرقی کی خاکسار تحریک سے تھا۔ انہوں نے بانیءپاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے کئی جلسوں میں شرکت کی۔ قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری کے لئے دن رات کام کیا۔ دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ عبدالرحمن سہگل سے ان کے بیٹے خلیل سہگل میں منتقل ہوا اور پھر ان سے ہوتا ہوا خلیل سہگل کے بیٹوں سعد الرحمن، مسلم الرحمن، عبدالرحمن اور حبیب الرحمن تک آپہنچا۔
یہ خاندان اپنی آمدن میں سے لاکھوں روپے کا ٹیکس ادا کرنے کے ساتھ باقی ماندہ آمدن میں سے لاکھوں روپے غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کر رہا تھا اور اب بھی کر رہا ہے۔ غریبوں کے دکھوں کا مداوہ کرنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، مگر حبیب الرحمن کے لاپتہ ہونے کے بعد غریب مزدوروں کو صبح کا کھانا کھلانے کا سلسلہ بند ہو چکا ہے۔ سیالکوٹ کے ملٹری ہسپتال (CMH) سے دن دیہاڑے حبیب الرحمن کا اٹھایا جانا حساس اداروں کے لئے بھی سوالیہ نشان ہے۔ عبدالرحمن کی بوڑھی والدہ اپنے جگر گوشے کے لئے، اس کی جوان اہلیہ اپنے شوہر کے لئے اور تینوں بھائی اپنے ماں جائے کے لئے ہر وقت سسکتے، بلکتے اور تڑپتے ہیں کہ نجانے ان کا پیارا کس حال میں ہے۔صبح ہوتی ہے تو حی الفلاح کی صدا کے ساتھ ہی یہ سب آنکھوں میں آس اور امید کے خواب سجائے بیدار ہوتے ہیں کہ شاید آج ان کا پیارا بھائی حبیب الرحمن ان سے آملے، مگر جوں جوں رات کی پرچھائیاں بڑھتی ہیں، ان کے اندیشے اور وسوسے جاگ اٹھتے ہیں اور پھر درد کی رات کٹنے لگتی ہے۔     ٭

مزید :

کالم -