آپ کو کمپیوٹر سکرین پر یہ تصویر تنگ تو کرتی ہوگی لیکن دراصل اس کا مقصد کیا ہے اور اسے پُر کرکے آپ کس اہم ترین کام میں حصہ لے رہے ہیں؟ حقیقت جان کر آپ کی حیرت کی انتہا نہ رہے گی

آپ کو کمپیوٹر سکرین پر یہ تصویر تنگ تو کرتی ہوگی لیکن دراصل اس کا مقصد کیا ہے ...
آپ کو کمپیوٹر سکرین پر یہ تصویر تنگ تو کرتی ہوگی لیکن دراصل اس کا مقصد کیا ہے اور اسے پُر کرکے آپ کس اہم ترین کام میں حصہ لے رہے ہیں؟ حقیقت جان کر آپ کی حیرت کی انتہا نہ رہے گی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نیویارک (نیوز ڈیسک) سوشل میڈیا ویب سائٹوں پر نیا اکاؤنٹ بناتے وقت اکثر آپ کے سامنے ٹیڑھے میڑھے الفاظ یا اعداد دکھائے جاتے ہیں اور انہیں ایک ٹیکسٹ باکس میں لکھنے کو کہا جاتا ہے۔ دکھائے جانے والے الفاظ و اعداد کو CAPTCHA کہا جاتا ہے اور عموماً اس کا مقصد یہ تصدیق کرنا ہوتا ہے کہ کمپیوٹر سے رابطہ کرنے والا انسان ہے، کوئی اور کمپیوٹر یا روبوٹ نہیں۔ اب آپ کو ایک انتہائی دلچسپ بات بتاتے ہیں کہ CAPTCHA ایک اور نہایت اہم اور بڑا کام بھی کررہا ہے جس کے بارے میں اکثر لوگوں کو بالکل خبر نہیں۔
ستمبر 2009ء میں گوگل نے کارینگی میلن یونیورسٹی کے کچھ سائنسدانوں کا تیار کردہ نظام reCAPTCHA خرید ا۔ یہ نظام CAPTCHA کے ذریعے حاصل ہونے والے مواد کو محفوظ کرتا ہے۔ دراصل CAPTCHA میں دکھائی جانے والی تحریریں مختلف کتابوں سے لی جاتی ہیں اور جب انٹرنیٹ صارفین ان تصاویر میں نظر آنے والے حروف اور اعداد کو ٹائپ کرتے ہیں تو دراصل وہ کسی کتاب کے چھوٹے سے حصے کو ڈیجیٹل شکل دے رہے ہوتے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے اب تک لاکھوں کتابوں کو ڈیجیٹل شکل دی جاچکی ہے۔
reCAPTCHA پراجیکٹ کے تحت روزانہ 10 کروڑ سے زائد CAPTCHA تصاویر دنیا بھر کے انٹرنیٹ صارفین کو پیش کی جاتی ہیں اور صارفین سے حاصل ہونے والے جوابات کو اکٹھا کرکے کتابوں کو ڈیجیٹل شکل دی جاتی ہے۔ اس پراجیکٹ کے تحت ’نیویارک ٹائمز‘ کے تمام آرکائیوز کو ڈیجیٹل شکل دی جاچکی ہے، اسی طرح گوگل بکس کی لاکھوں کتابوں کو بھی دیجیٹل شکل میں محفوظ کیا جا چکا ہے، تاکہ ان کتابوں کو انٹرنیٹ پر منتقل کیا جا سکے، پڑھا جاسکے اور ڈاؤن لوڈ کیا جاسکے۔
تو یہCAPTCHA اور reCAPTCHA ہی ہے کہ جس کے زریعے وہ کتابیں جو کبھی صرف کاغذ پر تحریر تھیں آج ڈیجیٹل شکل میں منتقل ہو چکی ہیں اور انٹرنیٹ کے زریعے دنیا بھر میں کروڑوں انسانوں تک پہنچ رہی ہیں۔

مزید :

ڈیلی بائیٹس -