بجلی کمپنی سے ’’مفاہمت کار‘‘ کی تلاش!
میں گلی میں داخل ہوا تو یوں محسوس ہوا کہ ڈکیتی کی کوئی واردات ہوگئی ہے۔ عجیب سی خاموشی تھی، ہر گھر کا کوئی مکین دروازے پر پریشان ہاتھوں میں کوئی کاغذ پکڑے کھڑا ہے ۔خیال آیا کہ شاید ادھر بھی کوئی ’’بھتا مافیا‘‘ پیدا ہوگیا ہے جس نے محلہ داروں کو بھتے کی پرچیاں تھما دی ہیں ۔ تھوڑی دیر بعد صورت حال واضح ہوئی کہ ’’بھتا ‘‘ اور ڈکیتی کی ملی جلی واردات ہوگئی ہے اور اس ’’ملٹی واردات‘‘ کا سرغنہ ’’گیپکو‘‘ نامی ادارہ ہے جس نے بجلی کے بل کو اب ’’بھتے‘‘ کی شکل دے دی ہے اورابھی ابھی بل بانٹنے والا محلے میں بل تقسیم کرکے گیا ہے،اب پورا محلہ ہاتھوں میں بجلی کے بل پکڑے اپنی جگہ بت بنا کھڑا ہے ۔ کچھ دیر بعد ان ’’بتوں‘‘ میں حرکت پیدا ہونے لگی ۔اسی سالہ بزرگ ریٹائرڈ ماسٹر کرم الہٰی نے زبان کھولی کہ دیکھو میں تمہارے سامنے گلی میں باہر بیٹھا ہاتھ سے پنکھا جھل رہا ہوتا ہوں کہ بجلی کا پنکھا نہ چلانا پڑے لیکن اتنی مشقت کے باوجود اتنا زیادہ بل کہ دو ماہ کی پنشن اس میں چلی جائے گی ۔ پڑوس میں رہنے والی ستر سالہ بیوہ مائی نذیراں کہنے لگی کہ میرا تو ذریعہ آمدنی صرف اوپر والے پورشن کا کرایہ ہے جس کا میٹر الگ ہے ، میں تو صرف ضرورت کے وقت ہی ’’انرجی سیور‘‘ استعمال کرتی ہوں پھر بھی اتنا بل آیا ہے کہ تین ماہ کا کرایہ اس پر اٹھ جائے گا۔ کہتے ہیں ’’جتنے آدمی ، اتنی ہی کہانیاں‘‘ مگر یہاں تو یہ مقولہ الٹ ہوگیا کہ گلی کے مکین تو بہت لیکن سب کی سنی تو کہانی ایک۔ ہر ایک کا بل اسکی استطاعت سے باہر۔ گھر میں داخل ہوا تو بیگم نے خلاف معمول دوڑ کر استقبال کیا۔ راستے میں ہی کرسی بچھا دی ، دوڑ کرگئی اور ٹھنڈے پانی کا گلاس لے کر آگئی ۔ حیرانی کے عالم میں پانی پیا اور آنکھوں کی زبان سے اس مہربانی کے بارے میں استفسار کیا۔ جواب آنکھوں کی بجائے ہاتھوں نے دیا جنہوں نے بڑے احترام سے اس طرح کوئی چیز ہمیں پکڑائی جیسے کوئی مرید اپنے پیر کو نذرانہ دیتا ہے ۔ دیکھا تو وہ بجلی کا بل تھا۔بجلی کے بل میں سب سے پہلے واجب الادا رقم ہی دیکھی جاتی ہے اس پر نظر پڑی تو بے ہوش ہوتے ہوتے بچا، اب سمجھ آئی کہ بیگم نے کرسی اور ٹھنڈا پانی کیوں پیش کیا۔
اگلے دن اخبار آیا تو پہلی خبر ہی یہی تھی کہ ’’گیپکو‘‘ یعنی بجلی کے ادارے نے اربوں روپے ’’لائن لاسز‘‘ کے نام سے معصوم اوربیوقوف شہریوں پر ڈال دیئے ہیں ۔ جو لٹیرے بجلی چوری کررہے ہیں ، ان کی چوری بھی ہم لوگوں پر ڈال دی گئی ہے، یعنی کرے کوئی بھرے کوئی‘‘جس وقت یہ کالم لکھا جارہا ہے اس وقت خواجہ آصف صاحب کا ایک فرمان ’’پٹی‘‘ کی صورت میں نیوز چینل پر چل رہا ہے کہ صرف ایک ضلع مردان میں دس ہزار کنڈے لگے ہوئے ہیں جن سے بجلی چوری کی جارہی ہے ۔اس بیا ن سے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر صرف ایک ضلع میں ہزاروں افراد بجلی چور ہیں تواس حساب سے پورے ملک میں کروڑوں افراد اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں۔ اس بیان سے ہماری بدقسمتی اور حکمرانوں کی نااہلی بھی واضح ہوتی ہے۔ کس دھڑلے سے ایک وفاقی وزیرشکوہ اور بے بسی کی صورت میں اپنی نالائقی کا اعتراف کررہا ہے ۔بھئی آپ کا کس نے ہاتھ پکڑا ہوا ہے، آپ کے پاس حکومت کی پوری قوت موجود ہے، آپ ان بجلی چوروں کو لگام دیں، ان کو الٹا لٹکائیں اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو گھر جائیں۔ آپ نہ صرف اپنا فرض ادا نہیں کررہے بلکہ ان بجلی چوروں کے گناہ کی سزاعام لوگوں کو دے رہے ہیں۔ایک
اور واردات وقتاًفوقتاًبجلی کا ادارہ عوام سے یہ کرتا ہے کہ مسلسل تین یا چار ماہ تھوڑے سے یونٹ ڈال کر بل بھیج دیا جاتا ہے ۔جہاں اوسط بل دو ہزار آتا ہے وہاں دو سو آنا شروع ہوجاتا ہے، پھر چوتھے یا پانچویں ماہ پچھلے سارے یونٹ اکٹھے کرکے اور مزیداضافی یونٹ ڈال کریک دم بیس ہزاربل بھیج دیا جاتا ہے کیونکہ آخری یونٹ مہنگے ہوتے ہیں۔ لوگوں کو پتہ نہیں چلتا کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے؟بجلی کا بل بھی ایک گورکھ دھندا ہے ، کون کون سے سرچارج کس حساب سے شامل ہیں ، سمجھ نہیں آتی۔ تازہ خبر ہے کہ نیلم جہلم سرچارج کے نام سے تین روپے سے زائد فی یونٹ بجلی مہنگی کردی گئی ہے۔حکومت پہلے سبسٹڈی کے نام پرجو رعایت عوام کو دیتی تھی وہ آئی یم ایف کے کہنے پرایک ایک کرکے واپس لے لی گئی ہیں کیونکہ یہ وقتاً فوقتاً حکومت کو دئیے جانے والی قرضے کی قسط روک لیتا اور مطالبہ کرتا ہے کہ پہلے فلاں رعایت واپس لویاپھر اتنے روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت بڑھاؤتو پھر یہ قسط ملے گی۔ اب بھی اس کے مطالبے جاری ہیں اصل فرض ان قرض دینے والے اداروں کا یہ ہونا چاہئے کہ وہ دیکھیں کہ ان کا دیا ہوا قرض واقعی ضرورت کے مطابق عوام پر ہی خرچ ہورہا ہے لیکن اس معاملے میں یہ ادارے ’’کانے دجال‘‘ کے پیروکار ہیں ۔ وہ یہ تو دیکھتے ہیں کہ حکومت کا فلاں قدم عوام کے مفاد میں اٹھتا دکھائی دے رہا ہے ،وہ اس قدم کو اٹھنے سے پہلے ہی روک دیتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے یا جان بوجھ کر ’’دڑ وٹ‘‘ لیتے ہیں کہ عوام کے لئے دیا گیا روپیہ حکمران کس بے دردری سے لوٹ رہے ہیں ۔ کوئی ماڈل گرل ان کا روپیہ لے کر ایک ماہ میں بیس چکر دوبئی کے لگا رہی ہے ۔
کسی کے گھر سے دبا ہوا اربوں روپیہ کرپشن کا نکل رہا ہے ۔ اربوں ڈالر باہر لے جاتی لانچ پکڑی جاتی ہے ۔ یہ اندھیر نگری ’’آئی ایم ایف‘‘ کو نظر نہیں آتی، نظر بھی کیوں آئے کیونکہ اس کا مفاد اور کاروبار یہی ہے کہ حکمران اس کا دیا ہوا قرض لے کر باہر محلات بناتے رہیں اور اس قرض کا سود در سود پاکستانی عوام اور ان کی نسلیں اتارتے رہیں۔ جب حکمران بے حس بلکہ ڈاکو بن جائیں، بجلی کی تقسیم کے ادارے اوور بلنگ کرکے عوام کو نچوڑیں اور حکمران بجائے انکی جواب دہی کے الٹا ان کو شاباش دیں، بااثر افراد دھڑلے سے بجلی چوری کریں اوراس کا بل عوام پر ڈال دیں تو جائز آمدنی سے زندگی گزارنی مشکل ہوجاتی ہے، سواس ساٹھ سالہ خاکسار، اسی سالہ بزرگ ریٹائرڈ ماسٹر کرم الہٰی اور پڑوس میں رہنے والی ستر سالہ بیوہ مائی نذیراں نے مل کر ایک گروپ تشکیل دیا ہے۔ پہلے تو ہم نے بنک ڈکیتی کا پروگرام بنایا لیکن زمینی حقائق پر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ اب ہماری عمریں اس ’’ایڈونیچر‘‘ کے قابل نہیں، ہم تو پہلی ہی واردات میں پکڑے جائیں گے ۔ ایک ’’سیانے‘‘ نے ہمیں ایک محفوظ اور سیدھا راستہ ’’مفاہمت‘‘ کادکھایا ہے۔ اﷲاس کا بھلا کرے، واقعی’’مفاہمت‘‘ سے بگڑے کام سنور جاتے ہیں۔ سو سو قتل کرنے والے ایک ’’این آر او‘‘ سے چھوٹ جاتے ہیں ۔ اپوزیشن اورحکمران ایک ہوجاتے ہیں۔ اوپر اوپر سے لڑتے ہیں اور اندر اندر سے مل کر کھاتے جاتے ہیں۔ سو ہمیں بھی اﷲکے کسی نیک بندے کی تلاش ہے جو کسی بجلی اہلکار سے ہمارے گروپ کی ’’مفاہمت‘‘ کرادے۔ ہم سے مہینے کا ایک ہزارلے لیا کرے، پانچ سو کا بل ہم ادا کردیا کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ اﷲکا وہ نیک بندہ آپ کی نورانی صورت میں موجود ہو۔ اگر ایسا ہے براہ مہربانی آگے بڑھئے ، ائر کنڈیشز کی ٹھنڈی ہواؤں میں بیٹھ کر بقایا عمر آپ کو دعائیں دیں گے۔