گٹھ جوڑ ختم ؟

گٹھ جوڑ ختم ؟
گٹھ جوڑ ختم ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایم کیو ایم کے بعد پیپلزپارٹی بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے ناراض ہوگئی ہے، ایم کیوایم کا تو کبھی اپوزیشن میں رہنے کو دل ہی نہیں چاہا اور پیپلزپارٹی پر فرینڈلی اپوزیشن ہونے کا الزام لگتا رہا ہے، قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف سید خورشید شاہ بعض اوقات حکومت کی حمایت میں جس طرح بیانات دیتے رہے اس سے وہ اپوزیشن لیڈر کی بجائے وفاقی وزیر معلوم ہوتے تھے اب پیپلزپارٹی نے پالیسی بدل کر اصل اپوزیشن بننے کا فیصلہ کیا ہے تو سید خورشید شاہ کے بیانات میں بھی جان پڑنے لگی ہے اگرچہ وہ پورے ملک کے نمائندے ہونے کے باوجود خود کو سندھ تک محدود رکھتے نظر آرہے ہیں جو ان کے شایان شان نہیں۔


اصل اپوزیشن پچھلے دوسال بھی تحریک انصاف ہی معلوم ہوتی تھی، لوگ تبدیلی کے لئے اسی کی طرف دیکھتے رہے، پیپلزپارٹی کی طرف نہیں۔ پیپلزپارٹی بھی 2013ء کے عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتی رہی مگر عوام اس موضوع پر دھیان تحریک انصاف کی آواز پر دیتے رہے ہیں، الیکشن کمیشن کے ارکان کو مستعفی ہونے کے لئے پیپلزپارٹی بھی کہتی رہی مگر اس حوالے سے زور دار آواز تحریک انصاف ہی کی رہی۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) بینظر بھٹو اور نواز شریف کے ابتدائی دور حکومت میں ایک دوسرے کی اپوزیشن کا کردار اداکرتی رہیں اور ان کے درمیان مفاہمت کی پالیسی سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی مخالفت کی بنیاد پر تشکیل پائی تھی۔ بظاہر یہ سیاسی مفاہمت تھی آگے چل کر یہ باہمی مفادات پر مبنی گٹھ جوڑ بن گئی، اسے مخالفین نے ’’مک مکا‘‘ بھی قرار دیا۔ حکومتیں تو اپنا کردار ادا کرتی رہیں مگر اپوزیشن کا کوئی کردار نظر نہ آیا۔ اسی وجہ سے اپوزیشن کی جگہ خالی نظرآنے لگی جو تحریک انصاف نے پرکی، اس پر جہاں مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کو پریشانی ہوئی وہاں پیپلزپارٹی کہیں کی نہ رہی، حکومت میں نہ اپوزیشن میں۔


پیپلزپارٹی کے کارکن نظریاتی کارکن ہیں، پیپلزپارٹی کو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ گٹھ جوڑ کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہوا کہ اس کے کارکن غیرفعال ہوگئے، پیپلزپارٹی 2013ء کے عام انتخابات میں دوسرے نمبر پر رہ کر اپوزیشن کی ذمہ داریوں پر اکتفا کرنے پر مجبور ہوگئی اور پیپلزپارٹی کا کارکن حکومت کا رہانہ اپوزیشن کا، حکومت مسلم لیگ (ن) لے گئی اور اپوزیشن تحریک انصاف کو سمجھا جانے لگا۔ پیپلزپارٹی کا کارکن اپنی قیادت سے احتجاج کرتا رہا مگر اس کی کسی نے نہ سنی۔ تاثر یہ رہا کہ پارٹی قیادت نواز حکومت کے ساتھ تعاون سے بوجوہ دستبردار نہیں ہونا چاہتی، اس تاثر کو آصف علی زرداری کے ان بیانات سے تقویت ملی کہ نواز حکومت کو گرنے نہیں دیا جائے گا۔ یہ شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ اپوزیشن پارٹی کی قیادت حکومت کو بچانے میں لگی رہی، اس سے پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ملکی سیاست میں ان کا کردار کیا ہے لہٰذا وہ اس حدتک مایوس ہوگئے کہ ان میں سے کئی تحریک انصاف میں چلے گئے، کچھ مسلم لیگ (ن) میں اور باقی غیرفعال ہوکر گوشۂ نشین ہوگئے۔ اب پیپلزپارٹی اپنے کارکنوں کو ڈھونڈ رہی ہے اور وہ مل نہیں رہے۔ بعدازخرابی بسیار پیپلزپارٹی حکومتی جماعت کے خلاف میدان میں اترنے پر آمادہ ہوئی ہے تو اسے اپنی راہ میں بہت ساری مشکلات نظر آرہی ہیں۔


پنجاب کی عملی سیاست پر نظر ڈالیں تو صرف مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ہی میدان میں نظر آتی ہیں، پیپلزپارٹی اپنا ووٹر کھوچکی ہے اسی لئے گزشتہ انتخابات میں اسے پنجاب سے خاطر خواہ نشستیں نہیں ملیں۔ انتخابی مہم میں بھی پیپلزپارٹی کی قیادت نے میدان مسلم لیگ (ن) کے سپرد کئے رکھا اور خود کوئی بڑا جلسہ نہیں کیا، اس کے باعث پیپلزپارٹی کے امیدوار سیاسی یتیم نظر آتے رہے اور بظاہر اب ان میں سکت نہیں ہے کہ دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کا مقابلہ کرسکیں۔ پیپلزپارٹی، پنجاب کی سب سے بڑی جماعت رہی ہے مگر اب پہلے، دوسرے نہیں بلکہ تیسرے نمبر کی جماعت بن کر رہ گئی ہے بلدیاتی انتخابات میں دوسری جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی باتیں ہونے لگی ہیں۔



مسلم لیگ (ن) کے ساتھ پیپلزپارٹی کی ان بن سندھ اور پنجاب میں اس کے رہنماؤں کے خلاف کرپشن کے الزامات میں عدالتی اور انتقامی کارروائی کئے جانے کے بعد ہوئی۔ پارٹی اسے اپنے رہنماؤں کے خلاف انتقامی کارروائیاں قرار دے رہی ہے اور محسوس کررہی ہے کہ اس حوالے سے ہاتھ آصف علی زرداری تک بھی پہنچ سکتا ہے، پارٹی نے اس ضمن میں انتباہ بھی جاری کیا ہے اور’’جنگ‘‘ کی دھمکی بھی دی ہے۔ ابھی تک تو یہی تاثر ہے کہ کرپشن کے حوالے سے کارروائی کے سلسلے میں مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والی سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کی باری بھی آنے والی ہے۔ سابق رکن قومی اسمبلی نبیل گبول کے بیان نے اس تاثر کو آگے بڑھایا ہے۔ یہ تاثر اس لئے بھی درست محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومتیں خود کو ہرطرح کی کرپشن سے پاک ظاہر کرتی ہیں اور دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ کسی کی بھی اور کہیں بھی کرپشن برداشت نہیں کریں گی۔ اگرچہ بعض وفاقی اور صوبائی وزراء کی ڈیوٹی مخالفوں کی الزام تراشی کا جواب دینا اور جوابی الزامات پر لگی ہوئی ہے لیکن جب کرپشن کے خلاف کام کرنے والے سرکاری اداروں کا ہاتھ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والوں تک پہنچے گا تو اس کے خلاف بیان بازی کسی کام نہیں آئے گی۔ پاکستان میں کرپشن کے الزام میں بھی حکومتیں توڑی جاتی رہی ہیں مگر قوم کوکوئی فائدہ نہیں پہنچا اور کرپشن دن بدن بڑھتی ہی چلی گئی۔ اس سلسلے میں بعض سابق صدور اور وزراء اعظم بھی الزامات کی زد میں آتے رہے ہیں، یوسف رضا گیلانی کے خلاف کرپشن کے کئی کیسز ہیں ، ڈاکٹر عاصم حسین نے کرپشن کرنے والوں کی ایک فہرست تحقیقاتی حکام کے حوالے کی ہے۔


بات پتا نہیں کہاں تک پہنچے تاہم سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے خلاف کرپشن کے مقدمات کو حکومت کی انتقامی کارروائیاں قرار دیاہے، اس سلسلے میں انہوں نے قاسم ضیاء ، ڈاکٹرعاصم حسین اور سابق سینیٹر بنگش کی گرفتاریوں کا خاص طورپر ذکر کیا ہے۔ ان کا یہ کہنا بہت معنی خیز ہے کہ نواز شریف 1990ء کی انتقامی سیاست کی طرف واپس چلے گئے ہیں۔ اس مقصد کے لئے آصف علی زرداری نے لندن سے ایک بیان جاری کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اپنے ساتھیوں کے خلاف کارروائیوں سے بہت پریشانی ہوئی ہے۔ ایسے لگتا ہے وہ اپنے اس موقف سے دستبردار ہوجائیں گے کہ نواز حکومت کو گرنے نہیں دیا جائے گا ۔ اگر اپوزیشن کہے کہ وہ ہرحالت میں حکومت کے ساتھ ہے تو وہ اپوزیشن نہیں کہلاسکتی،اسے سیاسی مفاہمت بھی نہیں کہاجا سکتا، گٹھ جوڑ کہا جاسکتاہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا یہ گٹھ جوڑ باضابطہ طورپر ختم ہوگیا ہے۔

مزید :

کالم -