پٹرولیم نرخوں میں معمولی کمی اور گیس کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ

پٹرولیم نرخوں میں معمولی کمی اور گیس کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وفاقی وزارت خزانہ نے پٹرولیم مصنوعات کو اپنے محصولات کی کمی پورا کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے، اور اس بار تو اس وزارت نے وزارتِ پٹرولیم اور قدرتی وسائل سے مل کر پٹرولیم سے خزانہ بھرنے کی کوشش کی ہے۔ حکومت نے نہ صرف یہ کہ پٹرولیم کے نرخوں میں کمی نہیں کی اور اونٹ کے مُنہ میں زیرہ کے برابر ریلیف دے کر گیس کے نرخوں میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا ہے، اور یہ اضافہ13سے63فیصد تک ہے جو گھریلو صارفین سے صنعت اور توانائی کے علاوہ کھاد کے شعبے تک پھیلا ہوا ہے۔ گھریلو صارفین کو13فیصد کے حساب سے زیر بار کیا گیا ہے۔ یوں صنعت، توانائی اور کھاد کے کارخانوں کو مہیا کی جانے والی گیس کے نرخ63فیصد تک بڑھیں گے۔ یہ اضافہ سرمایہ دار اپنی جیب سے نہیں دیں گے، اس سے مصنوعات مہنگی ہوں گی، کھاد کی قیمت میں اضافہ ہو گا اور یہ سارا بوجھ عوام پر منتقل ہو جائے گا اور نقصان میں عوام ہی رہیں گے۔یہ تو گیس کی صورت حال ہے اب پٹرولیم مصنوعات کے ساتھ جو ہاتھ کیا گیا وہ سابقہ نرخوں سے بھی زیادہ ہے پچھلی بار کمی صرف ایک روپیہ لیٹر کی گئی اور اس مرتبہ پٹرول کے نرخ3روپے3پیسے اور ڈیزل کے3روپے لیٹر کم کئے ہیں، جبکہ سمری 6روپے 35پیسے فی لیٹر کمی کی گئی تھی۔
عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم کے نرخ مسلسل گرتے گرتے38ڈالر فی بیرل تک پہنچ چکے ہیں اور اس حساب سے نرخوں میں کم از کم کمی12 سے15روپے فی لیٹر کمی ہونا تھی تاہم حکومتی رویے کی روشنی میں یہ سفارش 6روپے فی لیٹر تک کی گئی جو منظور نہیں ہوئی اور تجویزکردہ ریلیف سے آدھی ریلیف دی گئی ہے۔تحقیق کرنے والوں نے بتایا تھا کہ گزشتہ سے پیوستہ مہینوں میں کمی نہ کر کے اور پھر صرف ایک روپے فی لیٹر کی رعایت دے کر وزارتِ پٹرولیم اور خزانہ نے21ارب روپے ماہانہ کے حساب سے حکومتی خزانے میں رقم جمع کی اور فائدہ اٹھایا، اب جو کنجوسی کی گئی ہے اس کی بنا پر یہ اندازہ لگایا گیا کہ صرف ستمبر کے مہینے والے بل سے حکومت کو60ارب روپے سے زیادہ کی بچت ہو گی اور یہ صریحاً عوامی جیبوں پر ڈاکہ ہے۔ماہرین معاشیات اور اقتصادیات کا کہنا ہے کہ حکومت ڈھیٹ ہو گئی، گیس کے نرخ آئی ایم ایف کے کہنے پر بڑھائے اور اتنے زیادہ بڑھائے کہ گیس کمپنیوں کے مطالبے سے بھی زیادہ ہیں۔ یہ صورت حال عوام میں بے چینی کا سبب ہے اور اس عمل سے حکومت کو عوامی حمایت کی سطح پر بہت نقصان ہو گا، اس سے پہلے حکومت تاجروں کے مطالبے کو رد کر چکی اور ٹرانزیکشن ٹیکس واپس لینے سے انکار کر کے اب پھر اسے 0.6فیصد کرنے کا اعلان کر دیا ہے، وزیراعظم کو خود نوٹس لینا ہو گا، اس عمل کے اثرات ضمنی انتخابات پر بھی ہوں گے۔

مزید :

اداریہ -