روشنیوں کا راج

روشنیوں کا راج
 روشنیوں کا راج

  

سابقہ حکمرانوں کی نااہلی، ناقص منصوبہ بندی، غلط فیصلوں اور کوتاہیوں سے جہاں مملکت خداداد میں دہشتگردی، امن و امان کی ابتر صورتحال اور اقتصادی بحران جیسے گھمبیر مسائل نے جنم لیا وہاں توانائی کی قلت بھی کسی عذاب سے کم نہیں تھی۔ بدترین لوڈ شیڈنگ سے نظام زندگی مفلوج اور کروڑوں عوام ذہنی مریض بن چکے تھے۔2013ء میں جمہوریت کی پرامن منتقلی کی شہنائیوں میں آنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کودیگر مسائل کی طرح توانائی بحران سے نمٹنے کا بھی چیلنج درپیش تھا۔ میاں محمد نواز شریف نے جب وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تو ملک میں بجلی کایومیہ شارٹ فال 5500 میگا واٹ تھا،شہری علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ12 جبکہ دیہی علاقوں میں 18گھنٹے تھا اور سرکلر ڈیٹ میں ماہانہ 14 سے 15 ارب کے حساب سے اضافہ ہو رہا تھا۔بجلی کی لا متناعی بندش سے ملک بھر کے عوام سراپا احتجاج تھے، جلاؤ گھیراؤ، افراتفری ،ہنگامے اورسرکاری املاک کا توڑ پھوڑ معمول بن چکا تھا۔

اس مخدوش صورتحال میں وزیراعظم نواز شریف قومی جذبے اور نیک نیتی کے ساتھ ملک کو سنبھالتے ہوئے دہشتگردی کے خاتمہ، معیشت کی بحالی اور توانائی کے بحران پر قابو پانے میں لگ گئے۔سرمایہ کار دوست پالیسیوں سے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوئی اور توانائی منصوبوں پر ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کر دیا گیا ،جس کے اثرات آج ہر پاکستانی محسوس کر رہا ہے۔ گذشتہ روزاسلام آباد میں منعقدہ توانائی اجلاس میں سیکرٹری پانی و بجلی یونس ڈھاگہ کی طرف سے وزیراعظم کو بتایا گیا کہ توانائی کے تمام جاری منصوبے مارچ2018ء تک مکمل ہو جائیں گے جس سے قومی گرڈ میں 11 ہزار 131 میگاواٹ بجلی شامل ہو جائے گی۔بھکھی ، حویلی بہادر شاہ اور بلوکی کے تین منصوبے اور چشمہ تھری اور فور کے ایٹمی بجلی گھر مقررہ مدت میں مکمل ہونے سے قومی گریڈ میں 4000میگاواٹ بجلی آ جائے گی۔چشمہ تھری اور فور سے 340 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی جبکہ ساہیوال کے کوئلے سے چلنے والے منصوبے سے 1320 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی ۔گدر اور نندی پور کے بجلی کے منصوبے2018 تک مکمل ہو جائیں گے۔تربیلا 4سے 1410 میگاواٹ جبکہ نیلم جہلم منصوبے سے 969 میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل ہوگی۔اس عرصے کے دوران 1320 میگاواٹ کا پورٹ قاسم بجلی گھر بھی مکمل کرلیا جائے گا۔کے الیکٹرک نے اپنے سسٹم کو بہتر بنانے کیلئے 2 ارب 20 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے۔ سرمایہ کاری کے منصوبوں میں پورٹ قاسم پر کوئلے سے چلنے والے 700 میگاواٹ کے پاور پلانٹ کی تعمیر کے علاوہ گیس اور تیل پر چلنے والے 450 میگاواٹ کے دو بجلی گھر بھی شامل ہیں جو کراچی کے علاقے کورنگی اور بلدیہ ٹاؤن میں تعمیر کئے جائیں گے۔ ملک بھر میں ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے 220 کے وی اور 132 کے وی کے نئے گرڈسٹیشنز کی تعمیر کا عمل بھی شروع کر دیا ہے جن کیلئے اضافی ٹرانسفارمر نصب کرنے کے ساتھ ساتھ نئے فیڈرز بھی قائم کئے جائیں گے۔ گذشتہ تین سال کے دوران بجلی کے واجبات کی وصولی میں بھی نمایاں بہتری آئی ہے اور بجلی چوری کی روک تھام کیلئے سخت اقدامات کئے گئے ہیں جبکہ بجلی کی پیداوار کیلئے ایندھن کے کم سے کم استعمال اور کاربن کے کم سے کم اخراج پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے ۔اس کے علاوہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت سستی بجلی کے 24 منصوبے مکمل کئے جائیں گے جن میں مجموعی طور پر 34 ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری ہو گی اور ان کی پیداواری صلاحیت 17 ہزار میگاواٹ ہو گی۔اس موقع پر وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ بجلی کے جاری منصوبوں پر پیشرفت کی نگرانی خود کروں گا، ان منصوبوں سے ملک میں بجلی کی مانگ پوری ہوگی اور 2018 تک لوڈشیڈنگ قصہ پارینہ بن جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف لوڈشیڈنگ کا خاتمہ نہیں بلکہ مناسب قیمت پر بجلی فراہمی اولین ترجیح ہے۔حکومت کی کفایت شعارپالیسیوں کے باعث بجلی کے منصوبوں سے100 ارب روپے کی بچت بھی کی گئی۔

وزارت پانی و بجلی کے مطابق ماضی میں یہ تصور تھا کہ 15ہزار میگا واٹ سے زیادہ ملک میں بجلی پیدا نہیں کی جا سکتی۔ اس کے برعکس 2015ء میں بجلی کی پیداوار 16866میگا واٹ جبکہ 2016ء میں 17340 میگا واٹ تک پہنچ گئی۔ ملک میں 1994 سے 2013 تک 8756 میگا واٹ بجلی کے پرائیویٹ سیکٹر میں آئی پی پیز لگے جبکہ صرف 2015 میں 12113 میگا واٹ کے پرائیویٹ سیکٹر میں منصوبوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔2014ء میں صنعتوں کو زیرو لوڈ شیڈنگ سمیت سخت مانیٹرنگ سے وصولیوں کو بہتر بنانے کے اقدامات کئے گئے، بہتر کسٹمر سروسز فراہم کی گئیں۔ 2015ء میں بہتر پالیسیوں کی بدولت 93.4 فیصدریکوری کی گئی جس سے 51ارب روپے کا فائدہ ہوا۔لائن لاسز جو ہمیشہ 19فیصد سے زیادہ رہے 2015 میں 18فیصد تک آگئے۔ بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے سرکلر ڈیٹ کو 310ارب تک لایا جائے گا ۔ حکومت ملک کی تعمیر و ترقی کے ایجنڈے پر گامزن ہے ، رواں سال کے آخر میں کشکول توڑ کر آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ دیا جائے گا جس کا اظہار وزیراعظم بھی کر چکے ہیں ۔ آج پاکستان کا شمار صرف ابھرتی ہوئی مارکیٹوں ہی میں نہیں بلکہ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں ہو رہا ہے۔پوری دنیا اس بات کا اعتراف کر رہی ہے کہ پاکستان کی معیشت مضبوط بنیادوں پر آگے بڑھ رہی ہے۔جس کا ثبوت عوام نے گلگت بلتستا ن انتخابات، لوکل باڈیز الیکشن، کنٹونمنٹ بورڈ، آزاد کشمیر کی تاریخی کامیابی اور بورے والا اور جہلم کے حالیہ ضمنی الیکشن میں کامیابی کی صورت میں دیا ۔

دوسری طرف اپوزیشن اور اس کے حلیف حکومت کے خلاف اپنی خواہشات کو پورا کرنے اور ملکی ترقی کی پہیہ جام کرنے کیلئے طبلِ جنگ بجا چکے ہیں، ملک کو غیر مستحکم کرنے اور سستی شہرت کے حصول کیلئے مختلف حربے اور سیاسی ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔اپوزیشن عوام کو سڑکوں پر لاکر اپنا موقف منوانا چاہتی ہے جو کسی صورت میں ملکی مفاد میں نہیں۔ مخالفین کو چاہیے کہ وہ سیاسی مفاد سے بالا ترہوکر عوامی مسائل کا ادراک کریں اور حکومت کا ساتھ دیں تاکہ ملک سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اندھیروں کا خاتمہ کر کے روشنیوں کو عام کیا جا سکے۔ بجلی کا بحران عوامی مسئلہ نہیں، قومی معاملہ بن چکا ہے اس لیے عوام پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بجلی کے استعمال میں کفایت شعاری اور احتیاط سے کام لیں۔ فضول خرچی کرنے والا ویسے ہی شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔ بجلی کے معاملے میں شہ خرچیاں اور اسراف قطعی طور پر زیب نہیں دیتا۔

مزید :

کالم -