مقبوضہ کشمیر:بھارت ہوش کے ناخن لے
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ تین مہینوں سے جاری بے چینی اور احتجاج میں عید کے بعد سے نمایاں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ جون میں شروع ہونے والے ان مظاہروں میں اب تک 95 افراد شہید ہوچکے ہیں۔ مظاہرے روکنے کے لیے علاقے میں بھاری تعداد میں فوج اور پولیس کمانڈوز تعینات کیے گئے ہیں۔ کشمیر یوں کی اکثریت آزادی چاہتی ہے۔ کشمیر کی صورت حال کے پیش نظر بھارت کو یقین ہے کہ وہ زیادہ دیر تک وہاں اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اس کی بنیادی وجہ کشمیریوں کا جذبہ ہے۔ ان کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ وہ بھارتی فوج کی بندوق کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آپ ایسی قوم کوشکست نہیں دے سکتے۔ واشنگٹن میں موجود مبصرین کا کہناہے کہ اس مرتبہ یہ تحریک پہلے کے مقابلے میں مختلف ہے کیونکہ مظاہرین نے بھارتی سیکیورٹی فورسز پر مسلح حملے نہیں کیے۔ والٹر انڈرسن کا تعلق واشنگٹن کی جان ہاپکنز یونیورسٹی سے ہے۔ وہ کہتے ہیں اس مرتبہ ہمسایہ ملک پاکستان کو ان مظاہروں کے لیے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ نوجوان وہ ہیں جو یہیں پیدا ہوئے ہیں۔ حریت کی لیڈر شپ نے بھارتی حکومت کے سامنے اپنا یہ مطالبہ دہرایا ہے کہ علاقے میں امن کے قیام کے لیے جموں اور کشمیر سے فوج کو نکال دیا جائے۔ خصوصی اختیارات کے متنازعہ قانون آرمڈ فورسز سپیشل ایکٹ کو ختم کیا جائے یا اس میں ترامیم کی جائیں۔
کشمیری نوجوان نسل کے رہنما برہان وانی وادی میں بھارتی اقتدار کے خلاف لڑنے والے مقامی باغی جنگجو ہی تو تھے اور کشمیر میں آج کل اس طرح کے 100 کے قریب مقامی جنگجو موجود ہیں، جو اب 2011 کی نسبت چار گنا زیادہ ہیں۔برہان وانی کی شہادت کے بعد سے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں کم سے کم 95 افراد شہید ہو چکے ہیں اور 1500 سے زائد زخمی ہیں جن میں سے درجنوں کی آنکھوں میں چھرّے لگنے کی وجہ ان کی بینائی جانے کا بھی خدشہ ہے۔ زخمی ہونے والوں میں زیادہ تعداد 16 سے 26 سال کے نوجوانوں کی ہے۔
مشہور صحافی اخبار رائزنگ کشمیر کے ایڈیٹر شجاعت بخاری کہتے ہیں کہ ’حقیقت یہ ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے غیر متناسب طاقت استعمال کی تھی، جب زیادہ تر شہادتیں ہوئیں۔سکیورٹی فورسز کی طرف سے چھروں کے استعمال کی وجہ سے خدشہ ہے کئی نوجوان بینائی سے محروم ہو سکتے ہیں کشمیر میں، جہاں سکیورٹی قائم رکھنے کے لیے فوج کا عمل دخل دنیا میں سب سے زیادہ ہے، اپنے ہی لوگوں کو مارنے سے وہ قابض فوج کی طرح نظر آتے ہیں۔پولیس نہ کشمیر اور نہ ہی انڈیا میں کوئی بہت ہی اچھی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ اسے 155 سالہ نو آبادیاتی قانون کے تحت چلایا جاتا ہے اور اس میں کبھی اصلاحات نہیں کی گئیں۔ علاقے میں شورش شروع ہونے کی دو دہائیوں بعد بھی سکیورٹی فورسز ہجوم کو کنٹرول کرنے کے جدید طریقوں سے نا آشنا نظر آتی ہیں۔ پانی کی توپوں، ’سکنک‘ سپرے اور آواز پیدا کرنے والی مشین کو استعمال کرنے کی باتیں ہوتی رہی ہیں لیکن سکیورٹی فورسز نے ان کی جگہ چھرے والی بندوقیں استعمال کی ہیں جن کی وجہ سے کئی افراد کی آنکھوں پر کافی زخم آئے ہیں۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہنگاموں میں 100 سے زیادہ افراد کو آنکھوں میں چھرے لگے اور خدشہ ہے کہ ان میں سے اکثر اپنی بینائی کھو سکتے ہیں۔
کشمیری1947 سے بھارتی غاصبانہ قبضے سے جان چھڑانے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ بھارت اپنے اسلام دشمن رویے، کشمیریوں کے خلاف پائے جانے والے تعصب اور ظلم و جبر پر مبنی اپنی پالیسی کے سبب کشمیریوں کے دل جیت ہی نہیں سکا۔ اس نے قتل و غارت گری اور انتقامی کارروائیوں کے ذریعے کشمیریوں کو دبا کر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ انہیں غلام بنا کر رکھا ہے صرف کشمیر ہی کیوں بھارت کے اندر اقلیتوں‘ نچلی ذات کے ہندوؤں اور خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ بھارتی حکومت و اداروں کا جو رویہ ہے اسے دیکھتے ہوئے کشمیریوں کی نئی نسل بھارت کے ساتھ رہنے کا تصور ہی نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان کشمیریوں نے پاکستان کے پرچم کو وہاں قابض بھارتی فوج و سیکورٹی کے دیگر اداروں کے لئے چھیڑ بنادیا ہے‘ بالکل ان شرارتی بچوں کی طرح جو کسی مخبوط الحواس یا پاگل شخص کو ایسے لقب سے پکارتے ہیں جس سے وہ چڑتا ہواپتھر اٹھا کر انہیں مارنے کیلئے لپکتا ہے۔
کشمیری نوجوان جہاں کہیں بھارتی فوجیوں یا ریاستی پولیس کودیکھتے ہیں ’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کشمیر بنے گا پاکستان‘ تیری آن میری جان پاکستان پاکستان‘‘ کے نعرے لگانا شروع کردیتے ہیں جس سے مشتعل ہو کر بھارتی فورس پاگلوں کی طرح ان کے پیچھے دوڑتی ہے وہ منتشر ہوتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد پاکستان کے جھنڈے لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ بھارتیوں کو چڑانا کشمیریوں کے لئے شغل بن چکا ہے اب تو اس شغل میں مقبوضہ کشمیر میں آباد سکھ بھی ان کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں وہ بھی پاکستان کا پرچم لہرانے لگے ہیں تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ بھارت پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع کر دے۔
21 سالہ نوجوان برہان وانی نے اپنا قیمتی لہو دے کر تحریک آزادی کشمیر کو نیا جوش و ولولہ بخشا۔اس احتجاج نے بھارتی ایوان حکومت میں زلزلہ سا پیدا کر دیا اور غاصب حکمرانوں کا یہ نعرہ کھوکھلا معلوم ہونے لگا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔