حال کراچی ایکسپریس کا، خواجہ متوجہ ہوں!
ارادے باندھتا ہوں، توڑ دیتا ہوں، کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ کئی روز ہو گئے، کراچی کا سفر کئے۔ راستے میں جو کچھ پیش آیا اور ریل کے سفر نے جو دکھایا وہ لکھنے کو دِل چاہتا رہا، لیکن ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی دوسرا مسئلہ سامنے آ جاتا اور اسے ملتوی کرنا پڑتا۔یوں بھی خواجہ سعد رفیق کی محنت کو دیکھتے ہوئے یہی خیال ہوتا ہے کبھی ملاقات ہوئی تو براہِ راست بات کر لیں گے، لیکن ایسا اتفاق نہیں ہو پا رہا اور معاملہ عوامی نوعیت کا ہے، جسے زیادہ دیر تک ٹالنا بھی مناسب نہیں۔ ویسے بھی یوں خواجہ سعد کی توجہ بٹ سی گئی ہے ورنہ وہ تو ریلوے کی بہتری اور بہبود کے لئے خاصے سرگرم تھے، اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ’’سٹیٹس کو‘‘ کی مخالفت کرتے کرتے وہ خود اس پر یقین لے آئے ہیں اور جہاں تک ہمت کر کے محکمہ کو پہنچا چکے، وہاں پر ہی اکتفا کرنے لگے ہیں۔
سفر کئے کئی روز ہو گئے، لیکن جس بات نے توجہ مبذول کرائی وہ جوں کی توں ہے۔ اس سلسلے میں اس مسافر گاڑی ہی کا ذکر کرنا ہو گا، جس سے سفر کیا ورنہ تو جو شکایت سامنے آئی وہ سب میں موجود ہے۔ یہ سفر ہم نے بچوں کے ساتھ یکطرفہ کیا کہ ایک طرف سے پی آئی اے کا مزہ بھی لیا اور جہاز نے لاہور کے قریب ائر پاکٹ کے جو جھٹکے دیئے ان کا ذکر ہو چکا۔یوں بھی ہمیں ہماری صاحبزادیوں اور نواسیوں نے مزے لے لے کر تکلیف کا اظہار کیا اور روائدادِ غم سنائی تھی۔
کراچی ایک تقریب منگنی میں شرکت کے لئے پورے گھرانے نے جانا تھا، ہمیں چونکہ پاکستان ریلوے کرائے میں رعایت دیتی ہے، اِس لئے ہم نے محترم اعجاز شاہ (پبلک ریلیشنز آفیسر) کی خدمات حاصل کیں اور ہنگامی طور پر ریلوے(رعایتی) کارڈ بھی بنوا لیا، کوشش کی کہ تیز گام میں جگہ مل جائے۔ معلوم ہوا کہ اس گاڑی کے ائر کنڈیشنڈ سلیپر میں گنجائش نہیں کہ کئی روز پہلے بکنگ ہو جاتی ہے۔ تجویز کیا گیا کہ کراچی ایکسپریس کی بزنس کلاس میں سفر کر لیں جو اوقات کار کے مطابق اچھا سفر مہیا کرتی ہے۔ سہ پہر پانچ بجے لاہور سے روانگی اور اگلے روز صبح کراچی پہنچتی ہے، چنانچہ اِسی گاڑی سے جانے کا فیصلہ ہوا اور ٹکٹیں لے کر بکنگ کروا لی گئی۔ وقت پر ریلوے سٹیشن پہنچے تو معلوم ہوا کہ ٹرین کراچی سے ڈھائی گھنٹے کی تاخیر سے آئی اور واشنگ لائن میں صفائی کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ دیر سے آنے والی تاخیر ہی سے روانہ ہوئی، معمول کی ہڑبونگ کے بعد بوگی ملی اور کمپارٹمنٹ میں جگہ مل گئی کہ چار فل اور ایک آدھی ٹکٹ کے حوالے سے چھ والے کمپارٹمنٹ میں پانچ نشستیں اپنی تھیں، سامان رکھا، بچے خوش کہ ایک گھر سا بن گیا، لیکن پہلے ہی مرحلے پر نشستیں اپنے کپڑے سے صاف کرنا پڑیں کہ واشنگ لائن والوں نے دھلائی کے بعد خشک نہیں کی تھیں، اس کے بعد سفر شروع ہوا تو نیا مسئلہ پیدا ہوا، اچانک کاکروچ نظر آئے اور پھر ایک کے بعد دوسرا سامنے آنے لگا، بچوں کو نیا شغل مل گیا اور وہ کاکروچ مارنے لگے۔ ریلوے کے متعلقہ عملے سے رجوع کیا گیا اور ان سے سپرے کی درخواست کی گئی۔ یہ فرمائش پوری کی گئی، لیکن نہ معلوم کیا وجہ تھی کہ سپرے کے باوجود نہ تو کاکروچ ختم ہوئے اور نہ ہی لال بیگ، وقفے وقفے سے نظر آ جاتے اور پھر جوتا بازی ہوتی۔ یہ شغل پورے راستے جاری رہا اور بچوں کو سلاتے ہوئے بھی خبردار ہی رہنا پڑا۔ یہ تو شکر کہ گاڑی میں ائرکنڈیشنگ بہتر تھی اور بچوں نے خود کو چادروں میں لپیٹ کر محفوظ رہنے کی ضرورت محسوس کی اور یوں بچ بچا کر کراچی پہنچ ہی گئے۔
راستے بھر جو دوسری پریشانی تھی وہ یہ کہ کسی نہ کسی سٹیشن پر گاڑی ٹھہر کر آگے روانہ ہوتی تو اچانک کمپارٹمنٹ کا دروازہ کھولا یا کھولنے کی کوشش کی جاتی کہ پوری ریزرویشن والی بوگی میں بھی لوگ نشست تلاش کرتے تھے، اس کے علاوہ چپس، بسکٹ اور اخبارات و رسالے بیچنے والوں کی آمدرفت بھی لگی رہی جبکہ ’’چاء پی لو‘‘ جیسی آوازیں بھی ساتھ ساتھ چلیں، جہاں تک گاڑی کے کھانے کا تعلق ہے تو ایک وقت کا آرڈر دیا گیا، روسٹ مرغ پیس اور سالن کے نام پر جو آیا وہ ماضی سے تو قدرے بہتر تھا، لیکن اسے معیاری پھر بھی نہیں کہا جا سکتا، اسے بہتر کرنے کی گنجائش بہت ہے۔ یہ بزنس کلاس کی بوگی تھی، اس میں واش روم کی سہولت بوگی کے ایک کنارے پر ہے، گاڑی کے ساتھ سویپر ہونے کے باوجود صفائی کی حالت بہتر نہیں ہوئی،جبکہ چھت بھی ٹپکتی ہے۔ یوں بھی بچوں اور خواتین کو آمدورفت میں دِقت ہوتی کہ راستے میں مسافر نشستوں پر بیٹھے پائے جاتے ہیں، جو کھڑکی کے ساتھ سنگل نشستوں پر تو ہوتے ہی ہیں، بعض فاضل لوگ راستے میں بھی بیٹھے پائے جاتے ہیں۔ بعض علاقوں میں یہ لوگ ریلوے ملازمین کے منع کرنے پر بھی نہیں ہٹتے۔ ان کے لئے کسی پولیس والے کی ڈیوٹی ضروری ہے۔ حیدر آباد تک واش روم کا پانی ختم ہو چکا تھا، جو نہیں لیا گیا اور کراچی تک محرومی رہی، شاید حیدر آباد جنکشن پانی سے محروم تھا کہ نہیں بھرا گیا۔ لاہور سے کراچی بھی یہ کراچی ایکسپریس ساڑھے تین گھنٹے کی تاخیر ہی سے پہنچی۔
بچوں سے معلوم ہوا کہ واپسی میں بھی یہی دشواریاں پیش آئیں، کاکروچ موجود رہے، سپرے کا بھی فائدہ نہ ہوا اور ٹرین پھر چار گھنٹے کی تاخیر سے لاہور آئی تھی۔ یہ احوال واقعی ہی ہے اور انتظامی امور سے متعلق ہے، خواجہ محترم کو پھر سے دلچسپی بڑھانا ہو گی۔