امریکی صدارتی انتخابات:الزامات در الزامات
امریکی سیاست کے بارے میں ہمارے ہاں اکثر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ وہاں بہت صاف ستھری سیاست ہوتی ہے۔ صدارت کے لئے بس دو ہی پارٹیاں آمنے سامنے ہوتی ہیں، دونوں طرف کے امیدواو پرائمریز کے ذریعے عوامی حمایت سے امیدوار بنتے ہیں۔ ووٹ ڈالے جاتے ہیں اورجس کے ووٹ زیادہ ہوتے ہیں، وہ صدرمنتخب ہو جاتا ہے۔۔۔ ایسا نہیں ہے۔ نہ تو صرف دو پارٹیاں میدان میں ہوتی ہیں، نہ پرائمریز کے ذریعے عوامی مقبولیت کے بل بوتے پر امیدوار نامزد ہوتے ہیں۔ نامزدگی جماعتی اسٹیبلشمنٹ کی صوابدید پر ہوتی ہے اوربعض اوقات قومی کنونشن میں عوامی مقبولیت والے امیدوار کو نامزد نہیں کیا جاتا۔ ڈونالڈٹرمپ کے ساتھ ری پبلیکن کے قومی کنونشن تک یہ خطرہ موجود تھا۔ کوئی بھی صدر عوامی ووٹوں کی اکثریت سے منتخب نہیں ہوتا۔ الیکٹرز کے ووٹ فیصلہ کن ہوتے ہیں، جس امیدوار کو 270 یا زائد الیکٹرز کے ووٹ مل جائیں، خواہ عوامی ووٹ کم ہی کیوں نہ ہوں، وہ صدر منتخب ہو جاتا ہے۔۔۔الیکٹرز کیسے چنے جاتے ہیں؟۔۔۔یہ ہر ریاست میں مختلف انداز سے چنے جاتے ہیں اور ان کے چنے جانے کا کوئی مخصوص طریقہ نہیں ہے۔ہمارے ہاں شاید یہ بھی باور کیا جاتا ہے کہ امریکہ میں صدارتی امیدوار یا دوسرے سیاسی نمائندے ایک دوسرے پر جھوٹے الزامات نہیں لگاتے ہوں گے،کیچڑ نہیں اُچھالتے ہوں گے۔ ایسا بھی بالکل نہیں ہے۔ری پبلیکن پارٹی کا ایک بڑا حصہ آج بھی صدر باراک اوباما کو امریکی شہری تسلیم نہیں کرتا۔ انہوں نے صدر سے اپنا پیدائش کا سرٹیفکیٹ پیش کرنے کو کہا۔ جب وہ پیش کر دیا گیا تو کہا گیا یہ جعلی ہے ،کسی نے کہا کہ بعض جگہ حروف مٹا کر کچھ اور لکھ دیا گیا ہے۔ایک ریڈیوشو والوں کا دعویٰ ہے کہ وہ کینیا میں پیدا ہوئے اور خفیہ طور پر مسلمان ہیں۔ اس شو کے پیش کار کو اب ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کا انچارج بنا دیا ہے۔
ہیلری کلنٹن جب خاتون اول تھیں، تب سے عہدۂ صدارت پر ان کی نظر تھی۔ مخالفین بھی یہ جانتے تھے، اس لئے بل کلنٹن کے جنسی سکینڈل کو ان کی نااہلیت قرار دیا جاتا رہا، پھر ان مخالفین کو ایک اور موقع مل گیا۔ ہیلری کلنٹن کے دور میں لیبیا میں امریکی سفارت خانے پر حملہ ہو گیا ،جس میں ایک سفارت کار مارا گیا۔ ری پبلیکن نے اس کی ذمہ داری ہیلری کلنٹن پر ڈالنے کی پوری پوری کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سفارت خانے نے وزارتِ خارجہ سے سیکیورٹی فراہم کرنے کی درخواست کی تھی، لیکن ہیلری کلنٹن نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی۔ اس پر طرح طرح سے حاشیہ آرائی کی گئی، کبھی تفتیش کا مطالبہ کیا گیا، کبھی خبریں پھیلائی گئیں کہ ان الزامات کی وجہ سے آئی ایس آئی اور ایف بی آئی ہیلری کلنٹن کو کلیئر نہیں کرنے والے۔ وکی لیکس نے انکشاف کیا کہ ہیلری کلنٹن نے اپنے دور وزارت خارجہ میں بعض سرکاری ای میل اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے بھیجی تھیں۔ اس معاملے کو بھی بہت طول دیا گیا، اس پر باقاعدہ انکوائری ہوئی اور کانگریس نے اس کی سماعت کی۔ ہیلری کلنٹن نے وہاں وضاحت پیش کی اور معاملہ ختم ہو گیا، لیکن حریف اس معاملے کو بار بار اٹھانے کی کوشش کرتے رہے، حتیٰ کہ ایک بار تو پاکستانی اخبارات میں یہ بھی چھپ گیا کہ شاید ایف بی آئی ہیلری کلنٹن کو اس معاملے پر گرفتار کرلے گی۔ کبھی خبر اُڑائی گئی کہ کانگریس مطمئن نہیں ہوئی۔ ہیلری کو سوال جواب کے لئے دوبارہ بلایا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ہیلری کا صدارت کا خواب چکنا چور ہو گیا ہے۔ کبھی خبر اُڑائی گئی کہ کوئی وڈیو منظر عام پر آ گئی ہے ،جس کے بعد ہیلری کے لئے منہ چھپانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ آئی ایس آئی ایس کی تشکیل کا ’’سہرا‘‘ بارک اوباما کے ساتھ ساتھ ہیلری کلنٹن کے سرباندھنے کی کوشش کی گئی۔
ہیلری کی انتخابی مہم کی انچارج ہما زین العابدین کے بارے میں افواہیں اُڑائی گئیں، اس کی فلسطینی ’’دہشت گردوں‘‘ اور داعش سے رشتہ داریاں نکالی گئیں، حالانکہ ہما زین العابدین کے مسلم نامسلم ہونے کا کوئی اعتبار نہیں، وہ نیویارک کے ایک کانگریس مین کی بیوی تھیں، یہ کانگریس مین یہودی ہے اور نیویارک کا میئر بننے کا متمنی تھا، لیکن یہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہے۔ہما نے کئی بار اس کی حرکتوں کو درگزر کیا، لیکن اب گزشتہ ہفتے دونوں میں علیحدگی ہو گئی ہے۔کچھ ری پبلیکن خوف کی فضا پیدا کئے رکھنے میں ماہر ہیں۔ وہ مسلمانوں کے امریکہ پر چھا جانے کی پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں۔ معاشی اعتبار سے وہ عوام کو خوف زدہ کئے رکھتے ہیں کہ ڈیمو کریٹس کی پالیسیوں کی وجہ سے عنقریب ڈالر زیرو ہونے والا ہے۔ یہ ہمارے شیخ رشید کی طرح ڈالر کے زیرو ہونے کی نت نئی تاریخیں دیتے اور لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ اپنا روپیہ بینکوں سے نکال کر سونا خرید کر ذخیرہ کرلیں۔ ان کی نئی تاریخ ستمبر کا مہینہ ہے۔
گن کنٹرول کے حوالے سے کئی کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ ڈیموکریٹس جھوٹے سچے آتشیں اسلحہ پر پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں، لیکن ری پبلیکن کھلم کھلا اس کے خلاف ہیں، اس لئے نیشنل رائفلز ایسوسی ایشن جیسی موثر تنظیمیں ری پبلیکن کی حامی ہیں۔ کانگریس میں ان کی مضبوط لابی ہے۔ یہ کانگریس مینوں کو باقاعدہ فنڈز کے نام پر ’’مال‘‘ لگاتی ہے۔ اسلحہ کے حامی اس سلسلے میں دوسری آئینی ترمیم۔۔۔Second Amendueet ۔۔۔ کو جواز بناتے ہیں، جس میں اسلحہ اٹھانے کو عوام کا حق قرار دیا گیا ہے۔ اب ڈونالڈ ٹرمپ کے حامی ری پبلیکن صرف اتنا ہی نہیں کہتے کہ ہیلری کلنٹن آگئی تو اسلحے پر پابندی لگ جائے گی،حالانکہ ڈیمو کریٹس بھی مکمل پابندی نہیں چاہتے، وہ اسلحے کے حصول کو کچھ قوانین کے تحت لانے کے حق میں ہیں، لیکن ری پبلیکن عوام کو خوف زدہ کرنے کے لئے یہاں تک الزام لگا دیتے ہیں کہ ہیلری آئین کی دوسری ترمیم ہی کو ختم کر دیں گی۔ گن کنٹرول کے مسئلے کو ہیلری کے حامیوں نے بھی خوب استعمال کیا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی زبان کا ٹانکا اکھڑا ہوا ہے،اس نے ایک انتخابی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اسلحہ کے حامیوں کی حمایت کی اور پھر یہ بھی کہہ دیا کہ اسلحے کے حامی بہت اکھڑ لوگ ہیں اور ہیلری ان کی مخالفت کر رہی ہے، یہ یہاں موجود ہیں۔ ڈیمو کریٹس نے اسے اسلحہ کے حامیوں کے ہاتھوں ہیلری کے قتل کرنے کی دھمکی قرار دیا ،اس پر بہت لے دے ہوئی۔ ری پبلیکن کے اندر ڈونالڈ ٹرمپ کے مخالفین نے بھی اسے قتل کی کھلی یا خفیہ دھمکی پر محمول کیا۔
ہیلری کے حامیوں کو ڈونالڈ ٹرمپ کے ہوتے ہوئے مخالفت میں دلائل تراشنے کی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی۔ ڈونالڈ ٹرمپ انہیں خود ایسا مواد فراہم کرتا رہتا ہے۔ ایک گزشتہ کالم میں اوزون پارک نیویارک میں ایک امام مسجد کے قتل کا ذکر کیا تھا ،جس کے بارے میں علاقہ مکینوں کی رائے تھی کہ یہ ٹرمپ کے ’’اسلاموفوبیا‘‘ کی وجہ سے پیدا ہونے والے ماحول کا نتیجہ ہے۔ جب ری پبلیکن کے دوسرے ہتھیار کارگر نہ ہوئے تو گزشتہ سے پیوستہ ہفتے یہ سوال اٹھایا گیا کہ ہیلری کی صحت اچھی نہیں ہے اور وہ صدارتی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ ایک ڈاکٹر نے ’’ہو سکتا ہے‘‘ ’’ممکن ہے‘‘ کی بنیاد پر ہیلری کی صحت کو مسئلہ بنا دیا۔ ہیلری کلنٹن نے ایک تفصیلی میڈیکل رپورٹ میڈیا کو جاری کر دی اور ڈونالڈ ٹرمپ کی میڈیکل رپورٹ جاری کرنے کا مطالبہ کر دیا، ایک ڈاکٹر نے ڈونالڈ ٹرمپ کے صحت مند اور چاق و چوبند ہونے کی رپورٹ دے دی، لیکن جب اس سلسلے میں مزید سوالات اٹھائے گئے تو ڈاکٹر نے تسلیم کیا کہ اس نے یہ رپورٹ پانچ منٹ کے اندر اندر تیار کی تھی اور مسٹر ڈونالڈ ٹرمپ اس کے دفتر (کلینک) میں پدھارے ہی نہیں تھے، بلکہ دفتر کے باہر اپنی پُر تعیش کار (لیموزین) میں بیٹھے رہے تھے۔
ڈیمو کریٹس نے دس ایسے واقعات بیان کئے ہیں، جن میں کسی مسلمان کو قتل کیا گیا یا مسجد کو نقصان پہنچایا گیا اور ملزم نے اس موقع پر ڈونالڈ ٹرمپ کا نام لیا۔ کسی نے اعتراف کیا کہ وہ ڈونالڈ ٹرمپ سے متاثر تھا، کسی نے اس موقع پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈونالڈ ٹرمپ سچ کہتا ہے، یعنی مسلمانوں کے خلاف ڈونالڈ ٹرمپ کا اظہار نفرت مبنی بر حقیقت ہے۔ ڈیمو کریٹس نے ان واقعات کو ڈونالڈ ٹرمپ کی ’’نفرت کی مہم‘‘ کا نتیجہ قرار دیا۔۔۔ہو سکتا ہے یہ کسی حد تک درست ہو لیکن ہمیں یہ ایسا ہی لگتا ہے کہ کبھی کسی مسلمان کے ہاتھوں کسی واردات قتل وغیرہ کے بعد جب پولیس کیس بناتی تھی تو ساتھ یہ اضافہ بھی کر دیتی تھی کہ ملزم نے واردات کرتے وقت ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ اس طرح یہ واقعہ مسلم انتہا پسندی کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا تھا، حتیٰ کہ ایک بار ایک مقتولہ کی ماں کو عدالت میں کہنا پڑا کہ اس کی بیٹی کا قتل سیدھا سادا قتل کا معاملہ ہے، اسے اسلام سے منسوب کر کے الجھایا نہ جائے، جبکہ پولیس کا اصرار تھا کہ قاتل نے لڑکی کو قتل کرتے وقت ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ڈیمو کریٹس ڈونالڈ ٹرمپ پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے فوجی اعزاز ’’پرپل ہارٹ‘‘ کی توہین کی ہے۔ جب ڈونالڈ ٹرمپ کو یہ پیش کیا گیا تو اس نے احترام کا مظاہرہ کرنے کی بجائے کہا کہ میں ہمیشہ سے اسے حاصل کرنا چاہتا تھا، لیکن یہ آج خود میرے پاس آ گیا ہے۔
ری پبلیکن ’’کلنٹن فاؤنڈیشن‘‘ کے معاملات کو غیر شفاف قرار دے رہے ہیں۔ ڈیمو کریٹس ڈونالڈ ٹرمپ کے ٹیکس کے معاملات پر اعتراضات اٹھا رہے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ پر الزام ہے کہ اس کی بلڈنگوں میں سیاہ فاموں کو اپارٹمنٹ کرائے پر نہیں دیئے جاتے۔ یہ نہ صرف پرانی شکایت ہے، بلکہ اکثر بلڈنگوں میں سیاہ فاموں سے یہ رویہ روا رکھا جاتا ہے لیکن اس سے قبل کسی نے اسے نہیں اچھالا، حالانکہ ملک میں یکساں مواقع برائے کرایہ داری یا کرایہ داری میں مساوات کا قانون بھی موجود ہے، تاہم بلڈنگوں والے کالے رنگ کی بجائے کسی اور بہانے سے اپارٹمنٹ دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ بعض بلڈنگوں میں تو پاکستانی، بنگلہ دیشی اور بھارتیوں کو بھی جگہ نہیں ملتی، لیکن اس وقت یہ معاملہ بھی ایک دوسرے پر الزام تراشی کے کام آ رہا ہے۔ یہ تو صرف صدارتی انتخابات کا معاملہ ہے۔ کانگریس کے امیدوار بھی ایسا ہی کرتے ہیں اور یہ الزامات بار بار ٹی وی کے اشتہارات میں دہرائے جاتے ہیں۔ ہار جیت کے فیصلے بھی اکثر انہی الزامات اور جوابی الزامات سے متاثر ہوتے ہیں۔