فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 199

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 199
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 199

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس زمانے کا لاہور بھی پرانی وضع کا پابند تھا ابھی لاہور میں پلازے اور اونچی اونچی عمارتیں بننی شروع نہیں ہوئی تھیں ۔مال روڈ اور میکلوڈ روڈ کے کونے پر ٹیلی فون ایکسچینج کی ایک بلند عمارت تعمیر ہوئی تھی ۔نیشنل بنک کی عمارت ابھی زیر غور تھی۔ مال روڈ صحیح معنوں میں ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ تھی۔ سڑک کے دونوں طرف صاف ستھرے فٹ پاتھ اس کے بعد گھاس کے تختے جو موسم گل میں پھولوں سے بھی سجائے جاتے تھے، ہم جیسے لوگ ان گھاس کے قطعات پر دوستوں کے ساتھ بیٹھے مال روڈ کی سیر دیکھتے اور گپ شپ کرتے رہتے تھے۔ یہ بھی ایک تفریح تھی۔ فٹ پاتھوں پر سے ہر قسم کے لوگ گزرتے رہتے تھے۔ یہاں گھومنا‘ سیرکرنا یا محض گشت ہی لگا لینا بھی ایک کلچرل سرگرمی تھی۔ ادیب‘ شاعر‘ فن کار‘ صنعت کار‘ فلم والے‘ صحافی‘ سیاستدان کون تھا جو رات اور دن میں کسی وقت بھی یہاں نظر نہ آئے۔ بڑے بڑے دانش ور جن سے ویسے ملاقات کی ہمت ہی نہ پڑتی تھی یہاں چھڑی ہاتھ میں لئے یا کسی دوست کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ٹہلتے ہوئے نظر آ جاتے تھے۔ ہم جیسے نو آموز لوگ ادب سے سلام کرتے‘ وہ بڑی خوشی خلقی سے احوال دریافت کرتے اس طرح کچھ دور ان کے ہم قدم ہونے کا موقع اور شرف حاصل ہو جاتا تھا اس سے فائدہ اٹھا کر ہم کوئی سوال بھی کر لیتے تھے یا پھر ملاقات کا وقت لے لیا کرتے تھے۔ لیجئے ایک بہت مشکل مرحلہ مال روڈ پہ نہایت آسانی اور خوش اسلوبی سے حل ہو جاتا تھا۔

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 198 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مال روڈ پر واقع ریستوران لاہور کا دل تھے۔ کون سی قابل ذکر ہستی تھی جو یہاں نظر نہ آ جاتی تھی۔ مختلف اصحاب کے مختلف ٹھکانے تھے نوجوان لوگ تہذیب اور علم سیکھنے کے لئے کافی ہاؤس‘ ٹی ہاؤس‘ عرب ہوٹل‘ کیفے اورینٹ‘ انڈس ریستوران‘ لارڈز‘ شیزان اور میٹرو وغیرہ میں جا کر ایک طرف بیٹھ جاتے اور ان بڑے لوگوں کی باتیں سنا کرتے۔ موقع پر جرأت پا کر کوئی سوال بھی کر ڈالتے۔ انفسٹن ہوٹل ہی کے باہر والے گھاس کے تختے پر ایک شام ہم اور الیاس رشیدی صاحب بیٹھے ہوئے تھے جب انہوں نے یہ دھماکہ خیز انکشاف فرمایا تھا کہ اعجاز اور نور جہاں کی شادی ہو گئی ہے۔ ان دنوں نہ کاروں کا ہجوم‘ دھواں اور شور تھا‘ نہ ٹریفک کا اژدھام‘ زندگی بڑے سلیقے اور قرینے سے مال روڈ پر سے گزرتی رہتی تھی۔ اسی مال روڈ کے سابق انفسٹن اور حالیہ انڈس ہوٹل میں کراچی سے آ کر محمد علی نے ایک نمبر کمرا حاصل کیا اور کافی عرصے اس میں رہتے رہے۔ ان دنوں ان کی کراچی اور لاہور کے درمیان میں آمد ورفت لگی رہتی تھی مگروہ جب بھی لاہور آتے ان کے لئے انڈس ہوٹل کا ایک نمبر کا کمرا فراہم کردیا جاتا تھا۔ گویا لاہور میں وہ آغاز ہی سے ’’ایک نمبری‘‘ تھے۔ محمد علی کچھ وقت سمن آباد میں ایس ایم یوسف صاحب کے پارٹنر فلم ساز سردار فیروز کی کوٹھی پر بھی رہے تھے۔ لاہور میں سردار فیروز بھی چھڑے تھے اور محمد علی بھی ،دونوں میں گاڑھی چھنتی تھی۔ خدا جانے سردار فیروز کسی پیلی ٹیکسی کے مالک تھے یا انہوں نے مستقل طور پر ٹیکسی حاصل کر رکھی تھی۔ یہ ٹیکسی سردار صاحب کی کوٹھی پر ہی کھڑی رہتی تھی۔ ہم نے اسی پیلی ٹیکسی میں محمد علی صاحب کو ڈرائیو کرتے اور لاہور کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ ان دنوں وہ اتنے معروف نہیں تھے کہ دیکھنے والے انہیں پہچان جاتے لیکن ایک خوش پوش جوان رعنا کو پیلی ٹیکسی کے ڈرائیور کے روپ میں دیکھ کر لوگ حیران ضرور ہوتے تھے۔ یہ ٹیکسی ڈرائیور کسی کے اشارے پر نہیں رکتا تھا اور نہ ہی کوئی سواری بٹھاتا تھا۔ اس کا میٹر بھی کپڑے سے ڈھکا رہتا تھا۔
محمد علی لاہور آئے‘ ہم نے انہیں دیکھا اور انہوں نے ہمیں فتح کر لیا۔ جلد ہی ہمارے مراسم استوار ہو گئے ۔ہم لاہور اور یہاں کی فلمی دنیا کے ’’رازداں‘‘ تھے۔ اس لئے وہ مختلف لوگوں اور اداروں کے بارے میں ہم سے دریافت کرتے رہتے تھے اور ہم حسب توفیق انہیں سچّائی سے ہر ایک کے بارے میں معلومات فراہم کرتے رہے۔ یہ ہمیں بعد میں پتا چلا کہ خود ان کی نظر بھی بہت گہری اور شعور کافی پختہ تھا۔ ہر شخص کے بارے میں وہ بہت جلد رائے قائم کر لیتے تھے۔ حالانکہ اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ محمد علی کو شروع ہی سے ہم نے ایک ایسا شخص پایا جو اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں بہت محتاط رہتا ہے۔ ان کے دل میں کیا ہے؟ وہ کسی کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں؟ ان کی رائے کیا ہے؟ یہ کوئی نہیں جان سکا۔ اس لحاظ سے انہیں ایک ’’پُراسرار‘‘ اور گہرا آدمی کہا جاسکتا ہے۔
محمد علی کو فلم ساز و ہدایت کار ریاض نے اپنی فلم ’’غدار‘‘ میں‘ دو میں سے ایک ہیرو کے کردار کے لئے سائن کیا تو انہیں لاہور آنے اور یہاں قیام کرنے کا ایک معقول بہانہ مل گیا۔ دوسرے ہیرو سدھیر تھے، یہ تو وہ جان ہی گئے تھے کہ اگر پاکستان کی فلمی دنیا میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو لاہور ہی اس کے لئے مناسب جگہ ہے۔ کراچی سے جو بھی ابھرتا تھا وہ کچھ وقت کے بعد لاہور کا رخ کرتا تھا۔ محمد علی نے بھی ایسا ہی کیا، لیکن ایک محتاط اور فہمیدہ شخص کے طور پر اولاً اولاً انہوں نے کراچی کو بھی خیرباد نہیں کہا۔ گویا اب ان کے دونوں کشتیوں میں پیر تھے۔
آغاز میں انہیں لاہور میں فلمیں تو نہیں ملیں البتہ ملاقاتی‘ دوست اور مدّاح ڈھیروں مل گئے۔ ان کے کمرے میں ہر وقت یار لوگوں کا مجمع لگا رہتا تھا۔ وہ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ خوش دلی سے میزبانی کرتے تھے۔ کافی اور چائے تو خیر ہر وقت ہی چلتی تھی ۔لنچ کا وقت ہے تو کھانا‘ ڈنر کا وقت ہے تو ڈنر اور سرشام ہی ’’محفل‘‘۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ بہت سے لوگ ان کی میزبانی اور شرافت سے فائدہ اٹھا کراتنے بے تکلّف ہو گئے کہ ان کی غیر موجودگی میں بھی کمرے میں براجمان رہتے تھے۔ مزے سے لیٹے ہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ٹیلی فون کر رہے ہیں‘ محمد علی کے حساب میں خود بھی کھاپی رہے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ اپنے دوستوں کو بھی بے تکلفی سے وہاں مدعو کر رہے ہیں۔
ایک دن اتفّاق سے ہم دونوں کمرے میں اکیلے تھے۔ ہم نے شکایت کی ’’ بھائی‘ آپ کے کمرے میں ہر وقت لوگ بھرے رہتے ہیں ہر ایک کے لئے دعوت عام ہے۔‘‘
بولے ’’آفاقی یہ تو میرے لئے بڑی خوشی اور اعزاز کی بات ہے کہ لاہور والوں نے مجھے اپنا لیا ہے۔ کس قدر بے تکلفی اور خلوص سے ملتے ہیں۔ ہر وقت دوستوں کا جمگٹھا لگا رہتا ہے‘‘
ہم نے کہا ’’معاف کرنا یہ سب ضرورت مند اور شکاری ہیں انہیں ایسے ’’شکار‘‘ کی ہمیشہ تلاش رہتی ہے‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ انہوں نے بھویں چڑھا کر پوچھا۔
ہم نے کہا ’’مطلب یہ کہ پہلے اس کے جواب میں ایک لطیفہ سن لیجئے ۔قیام پاکستان سے پہلے لکھنو میں ایک نواب صاحب رہا کرتے تھے۔ ظاہر ہے خاندانی نواب تھے اس لئے شاہ خرچ بھی تھے۔داد و عیش کرتے تھے ۔لوگوں کی امداد اور سرپرستی ان کا شیوہ تھا۔ ایک پہلوان صاحب بھی ان کی فیاضی کے طفیل پرورش پا رہے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد نواب صاحب بھی ہجرت کرکے پاکستان آ گئے اور کراچی میں قیام کیا ۔وہ اپنے ہمراہ بہت کچھ لے کر آئے تھے۔ اس لئے عیش و آرام سے رہنے لگے مگر پرانی محفلوں اور وقتوں کو یاد کرتے تھے۔
ایک دن نوکر نے اطلاع دی کہ حضور فلاں پہلوان صاحب ملاقات کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ لکھنو میں بھی آپ کے حاشیہ نشینوں میں تھے۔
نواب صاحب خوشی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ فوراً اٹھ کر ڈرائنگ روم میں گئے۔ پہلوان صاحب تسلیمات بجا لائے۔ ان کا حال احوال دریافت کرنے کے بعد نواب صاحب نے پوچھا ’’اب یہاں ذریعہ معاش کیا ہے؟‘‘
انہوں نے عرض کیا ’’حضور آپ ہی کے در پر پڑا رہوں گا۔ کوئی کوٹھری عنایت کردیں گے تو بیوی بچّوں کے ہمراہ سر چھپا لوں گا اور ہم آپ کے اقبال کو دعائیں دیا کریں گے‘‘
نواب صاحب نے فوراً ان کی رہائش وغیرہ کے لئے احکامات صادر کئے اور کہا کہ بے فکر ہو کر رہو کھاؤ پیو‘ عیش کرو‘ بال بچوں کو بھی لے آؤ۔ مگر یہ تو بتاؤ کہ تمہارے پاس نہ میرا پتا تھا نہ نشان‘ اتنے بڑے ملک میں اتنا بڑا شہر کراچی ہے‘ تم میرے گھر تک کیسے پہنچ گئے؟‘‘
پہلوان صاحب نے سادگی سے عرض کیا ’’سرکار مجھے تو کوئی مشکل ہی پیش نہیں آئی۔ ریلوے سٹیشن پر ٹرین سے اترتے ہی میں نے پوچھا کہ بھائی میاں‘ یہاں بگڑے رئیسوں کا ڈیرا کہاں ہے؟ بس انہوں نے سرکار کا پتا بتا دیا‘‘
محمد علی صاحب یہ حکایت سن کر مسکرائے ۔پھر سوچ میں پڑ گئے اس کے بعد بولے ’’تمہارا مطلب ہے کہ۔۔۔‘‘
ہم نے بات کاٹ کر کہا ’’جی ہاں ہمارا وہی مطلب ہے جو آپ سمجھے ہیں ۔بھائی یہ لوگ آپ کی محبت میں یہاں نہیں آتے۔ اپنی ضرورت سے آتے ہیں، کھاتے ہیں‘ آرام کرتے ہیں‘ بہترین انگریزی شراب سے شوق فرماتے ہیں ۔نہ کوئی فکر نہ فاقہ‘ ایسا دوسرا انہیں اور کون ملے گا؟‘‘
وہ سنجیدہ ہو گئے ’’مگر یہ سب میرے مہمان ہیں‘‘
ہم نے کہا ’’یہ مہمان نہیں ڈیرے دار ہیں۔ آپ ذرا اپنا ہاتھ روک لیں ہوٹل والوں کو ہدایت کریں کہ آپ کی غیر موجودگی میں کوئی کمرے میں نہ آئے سوائے آپ کی خصوصی ہدایت کے۔ کچھ دن شام کے وقت کمرے میں غیر حاضر رہیں ۔آپ کے پاس کون سا قارون کا خزانہ ہے نہ ہی کسی ریاست یا جاگیر کے نواب ہیں‘‘
محمد علی سمجھ تو گئے کچھ محتاط بھی ہو گئے مگر پھر بھی ’’ڈیرے داروں‘‘ کی خاطر مدارت سے باز نہ آئے۔ ظاہر ہے کہ وہ بھی مہمانداری کرانے سے باز نہیں آئے۔(جاری ہے)

فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 200 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)