پی ٹی آئی سرکار کا خٹک کارڈ
یوں تو خٹک ڈانس پشتونوں کا روایتی لوک رقص ہے اور کسی بھی خوشی کے موقع پر بھرپور محفل سجائی جاتی ہے اور سب اس ماحول سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔مگر تبدیلی سرکار پر بھی اسکے اتنے اثرات ہونگے وہم و گمان میں بھی نہ تھے۔
خان صاحب کی حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی مختلف محاذوں پر شدید مشکلات کا سامنا ہے مگر اس میں سے کوئی ایک مشک بھی اپوزیشن کی طرف سے پیدا کردہ نہیں ہے کیونکہ اس وقت متحدہ اپوزیشن بھی صدارتی انتخابات کو لے کر منتشر نظر آرہی ہے۔ عمران شاہ کا تھپڑ ہو یا چوہدری فواد کا 55 روپے کلو میٹر والا ہیلی کاپٹر یا وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا پروٹوکول کے ساتھ سفر ان معاملات کو لے کر شدید تنقید جاری ہے۔ اسی اثناء میں ضمنی انتخابات کا بھی اعلان ہوگیا ہے اور سابق وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کے خاندان کے مزید دو افراد کو ٹکٹ سے نواز دیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے بھی چار افراد اسمبلیوں میں موجود ہیں ۔
اب کی بار چونکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو لے کر پرویز خٹک عمران خان کی چوائس نہیں تھے اس لئیے گمنام سے محمود خان کو سامنے لایا گیا ہے جو کہ جہانگیر ترین کی بہترین چوائس لگتی ہے۔ان سب باتوں کے باوجود پرویز خٹک کی فیملی کو ضمنتی انتخابات میں بھی نوازنا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کے خٹک لابی بہت مضبوط ہے اور وہ عمران خان خو کے موروثیت کے خلاف ہیں اور اپنی فیملی کو ایوانوں سے دور رکھنے کے قائل ہیں ۔ پرویز خٹک کو لے کر انکی یہ پالیسی مکمّل ناکام نظر آتی ہے۔
پرانا سا گھسا پٹا سا سوال تو بنتا ہے کہ کیا پورے خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے پاس کوئی بھی نظریاتی کارکن نہیں بچا ہے جو کہ ضمنی انتخابات لڑ سکے یا یہ ساری خوبیاں صرف اور صرف پرویز خٹک صاحب کی فیملی میں ہی پائی جاتی ہیں۔
خان صاحب کو ابھی مسند اقتدار سنبھالے بمشکل دو ہفتے ہوئے ہیں مگر مختلف سمتوں سے پریشانیوں کا انبار چلا آرہا ہے۔سپریم کورٹ نے ڈی پی او رضوان گوندل کے تبادلے اور عمران شاہ کے تھپڑ کو لے کر از خود نوٹس لے رکھا ہے خاور مانیکا والے واقعہ میں وزیراعلیٰ ینجاب کی پوزیشن خطرے میں نظر آرھی ہے۔
فواد چوہدری اور شیخ رشید کے بیانات بھی جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔
یہ ساری معاملے ایک طرف مگر جس طر ح خٹک فیملی کو خیبرپختونخواہ میں اسپیس دی جارہی ہے اسکی مثال ملنا مشکل ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ان باتوں کو لے کر خان صاحب کیا فیصلے کرتے ہیں ۔تبدیلی کا جو حقیقی تصوّر خان صاحب نے پیش کیا ہے اسکے اثرات انکے پارٹی کے بقایا ممبران پر نمایاں نظر نہیں آرہے ہیں۔
اگر یہی صورتحال رہی تو سفر آہستہ اور منزل دور ہوتی جائے گی۔
ہماری نیک خواہشات خان صاحب کے ساتھ ہیں اور پرویز خٹک صاحب کو بھی یورا حق ہے کہ وہ خٹک ڈانس کا بھرپور مظاہرہ کریں مگر اقتدار کے سفر میں اپنے نظریاتی کارکنان کی قربانیوں کو فراموش نہ کریں کیونکہ جو لوگ قربانیوں کو بھول جاتے ہیں وہ تاریخ کا تاریک باب بن جاتے ہیں۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔