مفاہمت اور امن کا خواب
ایلاف کلب لاہور کی ایک خصوصی نشست میں پاک بھارت بگڑے ہوئے تعلقات اور کشمیر کے بے حد خطرناک حالات کے سلسلے میں تباد لہ خیالات کیا گیا۔ خلیفہ ضیاء الدین خصوصی مقرر تھے،انہوں نے کہا: ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دو ملکوں میں دشمنی کی آگ نہیں بڑھکائی جانی چاہئیے۔ ارب ڈیڑھ ارب انسانوں کی زندگی اور مستقبل کا مسئلہ ہے،ہمیں اپنے مسائل اور اختلافات پر انتہائی ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ غور وفکر کرنا چاہئے۔ اگر ہم نے اپنے جذبات کو ایک منہ زور گھوڑے کی طرح بدکنے کے لئے چھوڑدیا تو ہم کسی بھی مقام پر پہنچ سکتے ہیں اور یہ تباہی و بربادی کا مقام بھی ہوسکتا ہے۔پوری انسانیت کے لئے انتہائی رنج و الم اور حسرت و یاس کی صورتِ حال بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ ایسا راستہ ہے کہ اس سے دونوں قوموں کو ہر حال میں دور ہی رہنا چاہئے۔ اس وقت بھارت میں پچیس تیس کروڑ کی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، یہ مسلمان مودی کی انتخابی مہم کے دوران بھڑکائی ہوئی نفرت اور انتہاء پسندی کو بھگت رہے ہیں۔ ان کے ساتھ بھارت میں جو سلوک ہورہا ہے وہ تیزی سے انہیں سٹیٹ مخالف بنا دے گا، جب مزید بگڑنے والے حالات بھارتی حکومت سے سنبھالے نہ گئے تو مکر و فریب کو اپنا سب سے بڑا ہتھیار سمجھنے والی بھارتی حکومت اس کا الزام پاکستان کو دے کر جنگ کو مسئلے کا حل تصور کرے گی۔ پاکستان اور بھارت میں ایک عرصہ تک بیک ڈور ڈپلومیسی (درپردہ سفارتکاری) یا ٹریک ٹو مذاکرات (بالواسطہ مذاکرات) ہوتے رہے ہیں، جن کے نتیجے میں کئی مواقع پرمسئلہ کشمیر سمیت تمام بڑے مسائل کے حل تک ہم پہنچ چکے تھے،
اس سلسلے میں پاکستان اور بھارت کے علاوہ کشمیری قیادت کی تائید بھی حاصل ہو گئی تھی،لیکن پھر اچانک، ان طاقتوں کی وجہ سے جو دونوں ملکوں میں امن نہیں چاہتیں، معاملات بگڑ گئے۔اب بھی اسی طرح بیک ڈور ڈپلومیسی اور مخلصانہ کوششوں سے حالات درست ہوسکتے ہیں اور تنازعات مستقل طے کرلینے کے بعد دونوں ملکوں میں اچھے تعلقات کا آغاز ہو سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ خراب ہی نہیں رہے ان میں بہتری بھی آتی رہی ہے۔ اب بھی بہتری کے لئے مذاکرات شروع کئے جانے چاہئیں۔اس سلسلے میں دونوں ملکوں کی اپوزیشن جماعتوں کو صرف امن کے مقصد کو سامنے رکھنا چاہئے اور دو ایٹمی طاقتوں کے تعلقات بگاڑنے کی بنیاد پر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ جنگ کی صورت میں تو اپوزیشن اور حکومت اور فوج ایک ہوجاتے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں طرف کے اپوزیشن لیڈر امن کے زمانے میں بھی خود کو مدبر اور انسانیت دوست ثابت کریں اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان جنگی جنون کو مت ابھاریں۔اس وقت فوری ضرورت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ختم کیا جائے بھارت اپنی افواج وہاں سے نکالے، وہاں انسانی حقوق پامال کرنے اور وحشت کا جو کھیل شروع کیا گیا ہے اسے ختم کیا جائے۔ پوری دُنیا اس المناک صورت حال کو فوری طور پر ختم کرنے کے لئے کہہ رہی ہے۔
ایسا نہ کیا گیا تو دونوں ملکوں کے تعلقات تو بدترین ہوجائیں گے، اس کے اثرات بھارت پر بے حد تباہ کن ہوں گے۔ بھارتی قیادت اگر کچھ بھی بصیرت رکھتی ہے تو اسے اس طرف فوری توجہ کرنا ہوگی۔اس وقت کشمیر کی صورتِ حال کے پیش نظر دونوں طرف ہیجانی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ پاکستانی، اور کشمیری عوام کے جذبات ایک ہیں، لیکن بھارت اپنے گھر کا جائزہ لے تو اس کے اندر بھی مودی حکومت کے فیصلوں اور پالیسیوں کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔اس وقت بھارت کے اندر مودی سے زیادہ قابل ِ نفرت انسان کوئی دوسرا نہیں ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ سکھوں میں بھی نفرت بڑھ رہی ہے۔ دلت (اچھوت) جو بہت بڑی تعداد میں ہیں ان میں بھی اپنی محرومیوں کا احساس فزوں تر ہوچکا ہے۔ ہر طرف سے مخالفانہ آوازیں بلند ہورہی ہیں اگر بھارتی حکومت میں کچھ بھی فہم و فراست ہے تو وہ اپنے مستقبل کے متعلق باآسانی اندازہ کرسکتی ہے۔ کشمیر کے مسئلہ نے دُنیا کی نظروں میں جتنی اہمیت اب حاصل کی ہے اور جتنی ہمدردی کشمیریوں کو اس وقت حاصل ہوئی ہے ایسی پہلے کبھی نہیں تھی۔ موجودہ صورتِ حال میں ہر نیا دن بھارتی حکومت کے لئے پہلے سے بڑھ کر ذلت لے کر آرہا ہے۔
بھارت اپنے لئے پیدا کئے ہوئے اس عذاب کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرپائے گا، جیسا کہ پاکستان کی طرف سے کہا جارہا ہے، بھارت کسی نہ کسی ڈرامے کے بعد پاکستان کو حالات کا ذمہ دار قرار دے کر جنگ کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرے گا، لیکن اللہ کے فضل سے اس وقت سفارتی، اخلاقی اور دفاعی لحاظ سے پاکستان کی پوزیشن کہیں زیادہ مضبوط ہے اس کا احساس بھارت کے عام لوگوں کو ہے، لیکن متعصب اور کم ظرف بھارتی حاکموں کو اپنی موجودہ پست ترین پوزیشن بدلنے کے لئے کسی مہم جوئی کی تلاش ہے۔اس وقت دُنیا دو جوہری طاقتوں کو ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا دیکھ رہی ہے۔ جنگ کسی بھی طرح کا رخ ااختیار کرسکتی ہے، جوہری جنگ تک نوبت پہنچی تو پوری دُنیا کی بربادی کا پیغام لے کر آئے گی۔ روائتی ہتھیاروں سے جنگ کے سلسلے میں بھی پاکستان کو اس وقت بھارت پر برتری حاصل ہے اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ تمام کشمیری عوام اورخود بھارت کے مسلمانوں، سکھوں، اچھو توں اور عیسائیوں کی ہمدردیاں بھی اس وقت کشمیری عوام اور پاکستان کے ساتھ ہیں۔ اگر خدانخواستہ جوہری جنگ کی کوئی صورت پیدا ہو گئی، جس کے سلسلے میں کہ اس وقت پوری دنیا کو تشویش ہے تو پھر دونوں ملکوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔ یہ دونوں ملکوں کے لئے خود کشی کے مترادف ہوگا۔ یہ وقت ایسا ہے کہ ہمیں بے حد صبر سے کام لینا اور دشمن کی طرف سے ہر آن چوکنا رہنا ہوگا۔