حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی میں مزید شدت
اسلام آباد سیاسی ڈائری
وفاقی دارالحکومت میں اس امر کے مضبوط اشارے مل رہے ہیں کہ ستمر کا مہینہ سیاسی اور عدالتی لحاظ سے خاصا ہنگامہ خیز ثابت ہو سکتا ہے کورونا اور پھر موسلا دھار بارشوں سے ملک بھر میں اور بالخصوص کراچی میں شہریوں کے لئے جو مصائب پیدا ہوئے اس پر بھی وفاقی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان پیپلزپارٹی کے مابین خوب بیان بازی ہوتی رہی لیکن ان دونوں آفات نے بلا شبہ حکومت کو ایک ڈھال بھی فراہم کئے رکھی۔ لگتا ہے کہ اب یہ ڈھال شاید اتنی کارگر ثابت نہ ہو، کراچی میں تباہ کن اور بے مثال بارشوں کے ریکارڈ سے وہاں شہریوں کو تاریخ کے بدترین مسائل کا سامنا ہے لیکن وفاق اور سندھ حکومت کے مابین خوب سیاست ہو رہی ہے، بلا شبہ سندھ حکومت کی شہریوں کو ریلیف پہنچانے کے حوالے سے کچھ کوتاہیاں سرزد ہوئی ہوں گی لیکن کراچی کے شہریوں کو وفاق اور سندھ کے مابین سیاسی گولہ باری سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے ایک پریس کانفرنس میں غصیلے انداز میں کہا کہ وفاقی حکومت کے پاس اگرچہ پیسے موجود نہیں کہ سندھ حکومت کی مدد کی جا سکے لیکن اگر پیسے ہوتے بھی تو سندھ حکومت کو نہیں دیئے جا سکتے تھے کیونکہ یہ امدادی رقم بھی اومنی اکاؤنٹس میں چلی جاتی۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان سندھ میں شہریوں کو سہولیات پہنچانے اور ریلیف اقدامات کے لئے اپنی سرکردگی میں تیار شدہ ایک پیکج لے کر کراچی کا دورہ کریں گے کیونکہ کراچی نہ صرف پاکستان کی اقتصادی شہ رگ ہے بلکہ پاکستان تحریک انصاف کو گزشتہ عام انتخابات میں وہاں سے خاصی کامیابی ملی اب دیکھنا ہے کہ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے مابین کیسے تال میل اور ایک توازن قائم ہو پاتا ہے کہ کراچی کے متاثرہ شہریوں کی بحالی ممکن ہو سکے۔ اس حوالے سے زیادہ ذمہ داری بہر حال وفاق پر عائد ہوتی ہے کہ سیاسی اختلافات کے ساتھ ساتھ کوئی ایسا میکانزم تشکیل دے کہ کراچی کے مصائب میں کمی ہو سکے۔ ملک بھر کے ساتھ اسلام آباد میں بھی موسلادھار بارشوں کا سلسلہ جاری ہے جس سے درجہ حرارت میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے لیکن سیاسی درجہ حرارت بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے گزشتہ ماہ کے آخر میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین ایف اے ٹی ایف قانون سازی پر حکومت اور اپوزیشن کے مابین پارلیمینٹ میں ایک محاذ آرائی کا بازار گرم ہوا جو ٹھنڈا پڑتے ہوئے نظر نہیں آ رہا۔ حکومت کا موقف ہے کہ اپوزیشن قومی سلامتی کے ایشو پر سیاست کر رہی ہے اور تعاون کے صلہ میں کسی این آر او کی طلبگار ہے۔ تاہم اپوزیشن کا کہنا ہے حکومت ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کی آڑ میں شہری آزادیاں سلب کرنے کے درپے ہے جبکہ حکومت کے اپوزیشن کے خلاف اپنائے جانے والے رویہ سے اس قانون سازی پر عدم اتفاق پیدا ہوا۔اب گماں ہوتا ہے کہ حکومت اس ایشو پر اپوزیشن کے تعاون کی خواہاں نہیں تھی۔ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ حکومت ایف اے ٹی ایف پر قانون سازی کے لئے جلد از جلد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائے گی جبکہ ستمبر کے مہینہ میں عدالتوں میں بہت سے ایسے کیسوں کی سماعت متوقع ہے جس سے ملکی سیاست میں ارتعاش پیدا ہو گا۔ ان کیسوں میں سب سے اہم ترین سابق وزیراعظم محمد نوازشریف، ان کی بیتی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کی سزا کے خلاف کیس ہیں جس میں یکم ستمبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی ٹیم جسٹس عامر رضا اور جسٹس محسن اختر کیانی نے نوازشریف کو وطن واپس آکر عدالتوں کے سامنے سرنڈر کرنے کا حکم دیا اس فیصلے سے پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر اہم اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جبکہ اس موقع پر مریم نواز بھی عدالت میں موجود تھیں۔ مریم نواز کو مری سے آتے ہوئے بارہ کہو کے مقام پر لیگی کارکنوں نے ایک پرجوش استقبالیہ دیا۔ ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر بھی سینکڑوں کی تعداد میں لیگی کارکن اور رہنما ان کے استقبال کے لئے تھے تاہم حکومت کی جانب سے سیکیورٹی انتظامات کے سلسلہ میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سابق وزراء، احسن اقبال اور دانیال عزیز اور دیگر وزراء کو ہائیکورٹ میں داخلے سے روک دیا گیا جبکہ مریم نواز نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اے پی سی میں پتہ چل جائے گا کہ کون کون اتفاق رائے کے لئے تیار ہیں انہوں نے حکومت کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا ہونے کا بھی مشورہ دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دارالحکومت کے بعض سیاسی حلقوں میں جو یہ تاثر ہے کہ شائد پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی حکومت کے خلاف ایک موثر تحریک چلانے کے تصور کو جلا نہ بخشیں غلط ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ایک عمومی تاثر ہے اپوزیشن رہنما شہبازشریف اور پی پی پی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری صرف بیان بازی کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈال کر کوئی ڈیل یا ڈھیل لینے کی کوشش میں ہیں بالخصوص وزیراعظم عمران خان اور ان کے حواری اس تاثر کو پختہ کر رہے ہیں لیکن اب جبکہ سابق صدر زرداری اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف بھی ستمبر کے مہینہ میں کیسوں کی سماعت میں تیزی آنے سے صورت حال مختلف ہو سکتی ہے۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے 3ستمبر کو ہونے والے رہبر کمیٹی کے اجلاس میں اے پی سی کی تاریخ اور ایجنڈے کو حتمی شکل دی جا سکتی ہے۔ ایک نئی محاذ آرائی کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستمبر اہم مہینہ،سیاسی کیسوں کی سماعت ہو گی،نواز شریف اور ٓاصف علی زرداری کی درخواستیں اور مقدمات پیش ہوں گے،تین ستمبر کو اے پی سی کی تاریخ طے ہو گی؟
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی میں مزید شدت،ایف اے ٹی ایف والی قانون سازی پر پیدا ہوئی
بارشوں نے کراچی کو نقصان پہنچایا،تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں بیان بازی ہوئی،عوام پریشان ہیں، کیا دونوں جماعتیں مل کر منصوبہ بندی کر سکیں گی؟