سیزن دی اپمیائر، تاریخ اور ڈرامے کا قتل 

سیزن دی اپمیائر، تاریخ اور ڈرامے کا قتل 
سیزن دی اپمیائر، تاریخ اور ڈرامے کا قتل 
سورس: Pixabay (creative commons license)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کی زندگی پر مبنی ویب سیریز ”دی ایمپائر“ ڈیزنی ہاٹ سٹار کے پلیٹ فارم سے سٹریم کی جا رہی ہے۔یہ سیریز ایلکس ردرفورڈ کی ناول سیریز ”ایمپایر آف دی مغل“  سے ماخوذ ہے۔ سکرین پلے بھانوی ایئر اورمیتاکشرا کمارکا لکھا ہے جو اس سیریز کے ڈائریکٹر بھی ہیں  اور انہوں نے ایم  اے توراز کے ساتھ مل کر اس کے ڈائیلاگ بھی لکھے ہیں۔سیریز کے پروڈیوسر نکھل ایڈوانی ہیں جو”کل ہو نہ ہو“ جیسی فلم ڈائریکٹ کر چکے ہیں۔اس سے پہلے انہوں نے نیٹ فلیکس کے لیے بھی ایک سیریز پروڈیو س کی ہے۔سیریز کی کاسٹ میں شبانہ اعظمی،کونال کپور،دینیوموریہ  اور درشتی دھامی جیسے بڑے نام شامل ہیں۔ 
 بھارتی ٹیوٹر صارف جہاں اس سیریز کی تعریف کر رہے ہیں وہیں لوگ اس کی مخالفت یہ کہہ کر بھی کر رہے ہیں کہ یہ مسلمان حملہ آوار بابر کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی  ہے۔مخالفیں ڈنزنی ہاٹ سٹار کو ان انسٹال کرنے کا ہیش ٹیگ چلا رہے ہیں۔کیا یہ سیریز حقیقت میں ظہیر الدین بابر کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے یا پھر تاریخ اور ڈرامہ دونوں کو مسخ کر رہی ہے۔
  سریز کی کہانی ظہیر الدین بابر کے فرغانہ سے لیکر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیادرکھنے کے واقعات کے گرد گھومتی ہے۔سیریز کو آٹھ اقساط میں تقسیم کیا گیا ہے۔سیریز کا آغاز بابر کے ہندوستان میں حملے سے ہوتا ہے جس میں وہ ابراہیم لودھی سے جنگ ہار کر فرار کی راہ اختیار کرتا ہے  اور خود کودوبارہ سے لڑائی کے لیے تیار کرتا ہے اس دوران میں باقی کی کہانی فلیش بیک میں دکھائی گئی ہے۔سکرین پلے فیش بیک میں لینئر اندازمیں چلتا ہے۔جو او ٹی ٹی کے پلیٹ فارم کے لحاظ سے کافی پرانی تیکنک لگتی ہے۔فلیش بیک ایک بار شروع ہوتا ہے تو دو سے تین اقساط تک جاری رہتا ہے۔اس دوران بابر ایک ہارے ہوئے بادشاہ کی طرح اپنی قسمت اور کمزوریوں کا رونا روتا رہتا ہے، جبکہ رائٹر اور ڈائریکٹر پاس مارجن تھا کہ پلاٹ کو ماضی اور حال کے درمیان متوازی تقسیم کرتے ہوئے سنٹرل ایشا اور ہندوستان کی سیاست کی پیچیدگیاں کو بیان کرتے ہوئے بابر کی فہم و فراست،اس کی جنگی حکمت عملی اور اس باریک بینی کو نمایاں کرتے جو کہ بابر نامہ میں نظر آتی ہے۔سیریز میں بہت سے مقامات ایسے تھے یہاں دلچسپی پیدا کی جا سکتی تھی اور اس کے لیے اگر سیریز بنانے والوں کو ناول سے ہٹ کر بابر نامہ کی مدد لینی پڑتی تو لے لینی چاہیے تھی جو  بظاہر لگتا ہے کہ نہیں لی گئی۔اس کے علاوہ سیریز تاریخ کو مکمل طور پر مسخ کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ 
 تاریخ کو ڈرامے کے پہلو پر قربان کیا جاسکتا ہے لیکن سیریز میں ڈرامے کی بھی کمی تھی۔بہت سے مقامات ایسے تھے جہاں پر ڈرامائی عناصرکو بھرپور انداز میں پیش کیا جاسکتا تھا لیکن انہیں ایسے ہی جانے دیاگیا۔پہلی قسط میں شیبانی خان فرغانہ پر حملے کا اعلان کرتا ہے تو بابر کا باپ عمر شیخ مرزا  مذاکرات کا راستہ اپناتا ہے جس پر اس کی ساس  بابر کی نانی دولت بیگم اس کی مخالفت کرتی ہے۔جب بابر محل کی برجی پر شمشیر زنی کی مشق کر رہا ہوتا ہے تودولت بیگم وہاں پہنچ جاتی ہے اور عمر شیخ سے بحث کرتی ہے کہ اسے شیبانی خان سے مذاکرات کی بجائے جنگ کرنی چاہیے کیونکہ سلطنت نرمی خوئی اور مذاکرات سے نہیں چلتی بلکہ اس کے لیے سخت فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔اس دوران زلزلہ آتی ہے اور وہ محل کی برجی ٹوٹ جاتی ہے جس پر دونوں کھڑے بحث کر رہے ہوتے ہیں۔بالی ووڈ کے فارمولے کی طرح ساس اور داماد بلندی سے نیچے گرتے ہیں لیکن ایک جگہ لٹک جاتے ہیں۔دولت بیگم نے عمر شیخ کا ہاتھ تھاما ہوتا ہے۔جب بابر اور وفادار وزیر خان ان کو بچانے کے لیے پہنچتے ہیں اور دولت بیگم سے ہاتھ بڑھانے کو کہتے ہیں تو وہ بابر میں اپنی نسل کا تابناک مستبقل دیکھتے ہوئے عمر شیخ کا ہاتھ چھوڑ دیتی ہے جو نیچے گر کے مر جاتا ہے۔اس سوچے سمجھنے مووو کو جس طرح پیش کیا گیا وہ دیکھنے والے کی فوری سمجھ میں آ جاتا ہے کہ دولت بیگم نے جان بوجھ کر عمر شیخ کو نیچے گرایا ہے۔عمر شیخ کے مرنے کے فوری بعد محلاتی سازش کو ختم کرتے ہوئے بابر کو فرغانہ کا حکمران بنا دیا جاتا ہے۔ دولت بیگم کا یہ رازکہ اس نے عمر شیخ کو اس لیے مرنے دیا تھا کہ وہ بابر کو تخت نشین کرواسکے، ساتویں قسط میں  اس وقت کھلتا ہے جب وہ خود بستر مرگ پہ ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے احساس گناہ میں مبتلا رہتی ہے۔ اس احساس گناہ کا تذکرہ گزشتہ چھ اقساط میں کسی بھی جگہ نہیں ہوتا۔یہ احساس گناہ اگر کردار کے ساتھ ساتھ چلایا جاتا تو دولت بیگم کے کردار کے بہت سے نفسیاتی شیڈز نکل سکتے تھے اور ڈرامائی موڑ پیدا ہو سکتے تھے۔اس نفسیاتی پہلو کو نظر انداز کر کے کردار کو بہت زیادہ کھوکھلا کر دیا گیا۔
 اسی طرح بابر کے دوست قاسم کا کردار مکمل طور پر تخیلاتی ہے جو بابر کے بہت قریب ہے جس کی حرکات اور ڈائیلاگ یہ تاثر دیتے ہیں دونوں میں امردپرستی کے رجحانات ہیں لیکن کرداروں کا یہ پہلو بھی سکرین پر مکمل طور پر نظر نہیں آتا۔حالانکہ بابر نامہ میں بابر نے خود بابری نامی ایک لڑکے سے اپنی محبت کا ذکر کیا ہے،جو سیریز سے زیادہ دلچسپی کا حامل ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ”اردو بازار میں ایک لڑکا تھا بابری نام،جس میں ہمنامی کی بھی ایک مناسبت تھی انہی دنوں مجھے اس کے ساتھ عجیب لگاو پیدا ہوگیا۔اس سے پہلے کسی پہ فریفتہ نہ ہوا تھا۔کسی سے مہرومحبت کی بات تک نہ کی تھی بلکہ دل لگی کا نام بھی نہ سنا تھا مگر حال یہ تھا کہ اگر کبھی بابری میرے سامنے آجاتاتھا تو مارے شرم کے میں نگاہ بھر کے اس کی طرف دیکھ نہ سکتا تھا۔چہ جائیکہ اس سے مل سکوں اور  باتیں کر سکوں۔اضطراب دل کی حالت یہ تھی کہ اس کے آنے کا شکریہ تک نہ ادا کر سکتا تھا یہ تو کہاں کہ نہ آنے کا گلہ زبان پر لاتا“(بابر نامہ  صفحہ نمبر 75 مترجم میرزا نصیر الدین مطبوعہ محمڈن پرنٹگ ورکس دہلی)۔بابر کی یہ حالت اس وقت تھی جب وہ اپنے چچا کی بیٹی عائشہ سلطان بیگم سے شادی کر چکے تھے۔سیریز میں قاسم اور بابر کے درمیان کشمکش اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بابر کی شادی ماہم بیگم سے ہوتی ہے (یہ کردار بھی فکشنل ہے) لیکن یہ قاسم اور بابر کے تعلق کی اس کشمکش کا نفسیاتی و جنسی پہلو بہت جان رہا اور کرداروں کے درمیان کوئی جذباتی ڈرامائی عنصر پیدا نہیں کر سکا۔سمر قند کی فتح کے دوران قاسم سے حادثاتی طور پر وزیر خان قتل ہو جاتا ہے جس کا احساس گناہ قاسم پر حاوی ہوتا ہے۔لیکن اس احساس گناہ سے کردار کی نفسیات پہ کیا اثرات پڑتے ہیں اس کی جھلک نظر نہیں آتی۔قاسم کو بابر اس وقت اپنے دربار سے نکال دیتا ہے جب سمر قند کی فتح کے بعد اسے پتہ چلتا ہے کہ قاسم نے شاہ فارس سے اس وعدہ پر فوجی امداد لی تھی کہ بابر شاہ فارس کے نمائندے کے طور پر سمر قند پہ حکومت کرے گا۔اس کے بعد قاسم پانی پت میں نمودار ہوتا ہے جب بابر وہاں سے بھاگنے کی تیاری کر رہا ہوتا ہے۔وہ بابر کو حوصلہ دیتا ہے اس سے معافی مانگتا ہے بابر اسے معاف کر دیتا ہے لیکن جب وہ وزیر خان کے حادثاتی قتل کا اقرار کرتا ہے  تو بابر اسے مارنے لگتا ہے وہ بابر سے اس قیمت پر اپنی جان بخشی کرواتا ہے کہ وہ جنگ کا پانسہ پلٹ دے گا۔وہ بابر کی خدمت میں توپیں اور گولہ بارود پیش کرتا ہے جو کہ ایک مخوص بالی ووڈ کا انداز ہے۔قاسم کے پاس توپیں بنانے کا ہنر انہیں پانی پت موبالائیز کرنے کے وسائل کہاں سے آئے اس کے جوابات کہیں بھی نہیں ملتے۔قاسم کی واپسی اور توپوں کا آنا بہت ہی مضحکہ خیز ہے۔
 بابر کی بہن خانزادہ کا کردار بھی تاریخ سے میل نہیں کھاتا۔شیبانی خان نے سمر قند کے محاصرے میں خانزادہ سے نکاح کی شرط نہیں رکھی۔بلکہ جب بابر اور اس کے اہل خانہ فرار ہوئے تھے تو خانزادہ بیگم شیبانی خان کے ہتھے چڑھ گئی تھی۔جس سے اس نے نکاح کر لیا تھا جس سے ایک لڑکا خرم شاہ پیدا ہوا جسے شیبانی خان  نے بخارا کا علاقہ دیا تھا۔سیزن میں شیبانی خان بالی ووڈ کے اوباش ولن کی طرح خانزادہ کے غرور تکبر کو خاک میں ملانے اور خود سے محبت پر آمادہ کرنے کے لیے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیتا ہے اس کی عصمت دری کرتا ہے۔خانزادہ کو اس کی خدمت پر معمور خواجہ سر ا مشورہ دیتا ہے کہ وہ شیبانی سے محبت کا ناٹک کر کے وہاں سے نکلنے کی کوشش کرے۔وہ شیبانی سے محبت کا ناٹک کرتی ہے۔پھر اپنے بھائی کو مدد کے لیے خط لکھی دیتی ہے جب خط پکڑا جاتا ہے تو وہ شیبانی خان کے سامنے ناٹک کرتی ہے کہ وہ امیدسے ہے۔جس پر شیبانی خان کا اس شاہی طبیب سے چیک اپ کرواتا ہے جو اس بات کو کنفرم کرتا ہے۔اسی اثنا میں دونوں کا نکاح ہوتا ہے۔اس کے  بعد بہن کو چھڑانے کے لیے بابر سمرقند کا محاصرہ کر لیتا ہے۔اس کی بہن اسے ملنے کا پیغام بھجواتی ہے۔شیبانی خان کے سامنے ملاقات کے دوران وہ اسے بتاتی ہے کہ وہ شیبانی کے بچے کی ماں بننے والی ہے۔باتوں ہی باتوں میں وہ قلعے کی خفیہ سرنگ کا اشارہ بھی دے دیتی ہے۔بابر اس سرنگ سے حملہ کرتا ہے اور قلعے کو فتح کرلیتا ہے۔خانزادہ شیبانی کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔جب بابر کی فوج ان کا تعاقب کر کے ان کو پکڑ لیتی ہے تو وہ شیبانی پہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ حاملہ نہیں تھی بلکہ ڈھونگ کر رہی تھی شیبانی قتل ہوتا ہے اور وہ اپنے بھائی کے پاس واپس چلی جاتی ہے۔جہاں بابر کو پتہ چلتا ہے کہ اس کی بہن نے شیبانی کے ساتھ ناٹک کیا تھا اور جس میں شیبانی کی پہلی بیوی اور شاہی طبیب بھی شامل تھے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کو چاہتے تھے اور شیبانی سے چھٹکارا چاہتے تھے۔اس سے پہلے دونوں کے تعلقات کا ذکر سیریز میں کہیں نہیں ہوتا یہ بھی اچانک ہی سامنے آتا ہے جس پر حیرانگی ہونی کی بجائے ہنسی آنے لگتی ہے۔
  اس کے بعد خانزادہ بابر کے ساتھ کابل اور ہندوستان پہنچ جاتی ہے جہاں وہ ہمایوں کی تخت نشنی میں اس کی مدد کرتی ہے۔یہ سیزن بابر کی موت کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔اگر کردار وں کے حوالے سے بات کی جائے تو اداکاروں نے اپنا پورا زور لگایا ہے لیکن کردار ہی اس قدر بے جان، بے رنگ اور کھوکھلے لکھے گئے تھے کہ وہ کوئی تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے۔سیریز سنٹرل ایشا اور ہندوستان کی ثقافت کے رنگوں سے عاری ہے۔کاسٹیوم ڈائزنگ میں کوئی جدت،تنوع اور تہذیبی رنگ شامل نہیں ہے۔ڈائیلاگ اردو میں ہیں جس پہ ہندی کا رنگ غالب ہے کچھ خواتین اداکاروں کی ڈائیلاگ ڈلیوری ایسے ہے جیسے کو این آر آئی اردو یا ہندی بولتا ہے۔بابر کی افغان بیوی گل رخ بیگم کے لہجہ دردی سے زیادہ اس کے انگریزی لہجے کی چغلی کھا رہا ہے۔
 یہ سیزن تاریخ کے ساتھ ساتھ ڈرامے کو بھی مسخ کرتا ہے۔پورے سیزن میں بابر اور کمزور اور قسمت کا پر انحصار کرنے والا انسان دکھایا گیا ہے۔یہ سیزن نہ تو اسے بہتر جنگجوکے طور پر پیش کر سکا اور نہ ہی عادل ب2ادشاہ اور زیرک انسان کی صورت دے سکا۔اس سیزن کو دیکھتے ہوئے اس سے توقعات نہ باندھیں بلکہ یہ سوچیں کہ آپ کے پاس اٹھ گھنٹے ضائع کر نے کو ہیں اور آپ وہ ضائع کر رہے ہیں۔

.

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

.

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.   ‎

مزید :

بلاگ -