کابل پر طالبان کا قبضہ اور 20 سالہ جنگ کا اختتام ، افغانستان کی معاشی صورتحال بارے تشویشناک خبر آگئی

کابل پر طالبان کا قبضہ اور 20 سالہ جنگ کا اختتام ، افغانستان کی معاشی صورتحال ...
کابل پر طالبان کا قبضہ اور 20 سالہ جنگ کا اختتام ، افغانستان کی معاشی صورتحال بارے تشویشناک خبر آگئی
سورس: File Photo

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 کابل (ڈیلی پاکستان آن لائن)کابل پر طالبان کے قبضہ کرنے اور 20 سال کی جنگ کے اختتام کے دو ہفتوں سے زائد عرصے کے بعد معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق طالبان عہدیدار احمد اللہ متقی نے سوشل میڈیا پر کہا کہ کابل میں صدارتی محل میں ایک تقریب کی تیاری کی جا رہی ہے جس میں نئی حکومت کے بارے میں اعلان جلد متوقع ہے۔ایک سینئر طالبان عہدیدار نے گزشتہ ماہ بتایا تھا کہ تحریک کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ سے توقع ہے کہ وہ ایک گورننگ کونسل پر حتمی اختیار حاصل کر لیں گے جس کے نیچے ایک صدر ہو گا۔

تجزیہ کاروں کےمطابق بین الاقوامی عطیہ دہندگان اورسرمایہ کاروں کی نظر میں نئی حکومت کی قانونی حیثیت افغانستان کی معیشت کےلیےاہم ہو گی جو طالبان کے اقتدار میں واپسی کے بعد ختم ہونے کا امکان ہے۔طالبان کے سپریم لیڈر کے تین نائب ہیں، تحریک کے مرحوم بانی ملا عمر کے بیٹے مولوی یعقوب، طاقتور حقانی نیٹ ورک کے رہنما سراج الدین حقانی اور گروپ کے بانی ارکان میں سے ایک ملا عبدالغنی برادر ہیں۔

ایک غیر منتخب لیڈر شپ کونسل کے ذریعے طالبان نے اپنی پہلی حکومت چلائی تھی جس نے 1996ء سے لے کر 2001ء میں امریکی قیادت میں مغربی افواج کے ہاتھوں بے دخل ہونے تک سخت اسلامی قوانین کو نافذ کیا تھا،اس مرتبہ طالبان نے دنیا کے سامنے ایک زیادہ معتدل چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، انہوں نے انسانی حقوق کے تحفظ اور پرانے دشمنوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے گریز کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے تاہم امریکا، یورپی یونین اور دیگر نے اس طرح کی یقین دہانیوں پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ نئی حکومت کی باضابطہ پہچان اور اس سے آنے والی معاشی امداد عمل پر منحصر ہے۔

امریکی انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ وکٹوریہ نولینڈ نے ایک نیوز بریفنگ میں کہا تھا کہ ہم ان کی باتوں کے بجائے ان کے کام کو دیکھیں گے۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں شدید خشک سالی اور جنگ کی بدحالی نے ہزاروں خاندانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے۔افغانستان کو نقدی کی اشد ضرورت ہے اور طالبان کو تقریبا 10 ارب ڈالر کے اثاثوں تک فوری رسائی حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے جو زیادہ تر افغان مرکزی بینک کی جانب سے بیرون ملک میں رکھے گئے ہیں۔

طالبان نے بینکوں کو دوبارہ کھولنے کا حکم دیا ہے تاہم رقم نکالنے کی ہفتہ وار حد کو سخت کردیا ہے اورر بینکوں پر لمبی قطاریں بھی دیکھی جارہی ہیں۔کابل کی رہائشی زیلگئی نے کہا کہ اب ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے، قیمتیں ہر روز بڑھ رہی ہیں۔