قومی مفاہمت وقت کی ضرورت

قومی مفاہمت وقت کی ضرورت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان مسلم لیگ(ن)کے صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے لاہور میں پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت کے اہم مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں، حکومتوں اور اداروں کو ساتھ مل  بیٹھ کر فیصلے کرنا چاہئیں۔میاں نواز شریف نے کہا کہ بجلی کے بل عوام کے لئے ناقابل ِ برداشت ہیں، عوام ریلیف کی توقع رکھتے ہیں، مشکل ترین حالات میں عوام کو ریلیف دینا ان (حکومت) کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے اور معاشی استحکام واپس لانے کے لئے سیاسی قربانی ان کی حب الوطنی کاثبوت ہے۔اِس موقع پر وزیراعظم شہبازشریف نے عوام کی ریلیف کے لئے وفاقی حکومت کے اقدامات کے بارے میں بتایا اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے پارٹی صدر کو اعتماد میں بھی لیا۔وزیراعظم نے مولانا فضل الرحمن سے دو روز قبل ملاقات کی تھی، جماعت محمود خان اچکزئی سے مذاکرات کی بھی حامی ہے۔البتہ اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازنے بانی پی ٹی آئی سے مذاکرات کی سخت مخالفت کی اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ جس نے ملک کو نقصان پہنچایا، سانحہ نو مئی کروایا ایسے شخص سے مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مرکزی قیادت کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بیان کیا کہ نو مئی کے واقعات پر قوم اور ریاستی اداروں سے معافی مانگنے تک بانی پی ٹی آئی سے مذاکرات نہیں ہوسکتے۔اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے اپنے لئے سیاست میں جگہ پیدا کرنی ہے تو اِسے دہشت گردی، انتہاء پسندی اور ملک دشمن سیاست سے یوٹرن لے کر قوم سے معافی مانگنا پڑے گی۔ پی ٹی آئی نے امریکی کانگریس میں لابنگ کے ذریعے قرارداد منظور کرائی۔ احسن اقبال کا دعویٰ تھا کہ عمران خان اصل میں این آر او چاہتے ہیں جو اُنہیں نہیں ملے گا، اُنہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنا پڑے گی اور رسیدیں پیش کرنی ہوں گی۔ اجلاس کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ذاتی طور پر پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں۔ اُنہوں نے مزید واضح کیا کہ وہ کسی ایسی ٹیم کا حصہ نہیں ہیں جو پی ٹی آئی سے مذاکرات کرنے جا رہی ہے۔اِس کے برعکس اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ قومی مفاد میں تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں سے مذاکرات ہونا چاہئیں۔ اُنہوں نے کہا کہ وزیراعظم جو بھی فیصلہ کریں گے تو نیشنل سکیورٹی اور قومی معاملات پر ان کا ساتھ دیں گے، اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات کی قیادت خود وزیر اعظم کو کرنا چاہئے۔ ون پوائنٹ ایجنڈے پر ملک کی سکیورٹی اور تحفظ کے لئے تمام جماعتوں کو اختلافات بھلا کر ایک ہونا ہو گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ مذاکرات کیے اور بات چیت کی حمایت کی  ہے، اُنہوں نے کہا محترمہ شہید نے نوازشریف سے بات چیت کی، چارٹر آف ڈیمو کریسی پر دستخط کیے۔ اب بھی باہمی اختلافات بھلا کر عوام کے لئے کام کرنا ہو گا، عہدے آتے جاتے رہتے ہیں،ملک اور قوم کا خیال رکھیں۔ تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی نے بھی (ن) لیگ کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کی تصدیق کر دی ہے۔انہوں نے اقرار کیا کہ ملک کو آگے لے جانے کے لئے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں، سب کو اپنی ضداوراَنا قربان کرنی ہو گا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے عمر ایوب اور گوہر خان کی طرف ہاتھ بڑھایاان کے ہاتھ بڑھانے پر پی ٹی آئی کو مثبت ردعمل دینا چاہئے تھا، ایسا ہوتا تو مذاکرات اُسی وقت شروع ہو جاتے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے محمود اچکزئی کو بات چیت کی اجازت دے رکھی ہے اور اُنہیں محمود اچکزئی کے حکومت کے ساتھ مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں ہے، ہمارا کوئی رابطہ نہیں اور نہ ہی ہم نے بھیک مانگی ہے۔

 حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اِس وقت سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی حد تک مذاکرات پر آمادہ نظر آ رہی ہیں، البتہ بعض حکومتی ارکان اِس معاملے پر سخت موقف اختیار کیے ہوئے ہیں،اگراِس وقت تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتیں بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے میں دلچسپی کا اظہار کر رہی ہیں تو وزراء کو بھی لچک کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔اِس سے قبل بھی بہت کئی بار مذاکرات کا شور مچا لیکن پھر عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آیا۔تحریک انصاف ہر مرتبہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹتی رہی، ایک دن وہ بات چیت کی بات کرتی تھی تو اگلے ہی دن یو ٹرن لے لیتی تھی،اِسی وجہ سے ڈیڈ لاک کی سی صورتحال ہو گئی۔ اپنی ضد کی وجہ سے ہی اس نے حکومت بنانے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش ٹھکرا کر اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دی، وہاں بھی شور ہنگامے کا بازار گرم رکھا۔ 

دنیا کے بڑے سے بڑے مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے، پاکستانی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی گفتگو کا راستہ بند کیا گیا نقصان ہی ہوا۔اِس وقت حالات بہت گمبھیر ہیں، معیشت کمزور ہے، دہشت گردی پنجے گاڑ رہی ہے، مہنگائی زوروں پر ہے، ملک کا نظام دِگرگوں ہے، لوگ پریشانی کا شکار ہیں،ایسے میں اہل ِ سیاست پر لازم ہے کہ وہ عوام کے بارے میں سوچیں، عوام کے لئے سوچیں، ایک میز پر بیٹھ کر اپنے اختلافات دور کریں۔ نو مئی کے ملزمان کو سب ہی کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں،اِس سلسلے میں فوری اقدامات کریں۔ابھی حال ہی میں برطانیہ میں فسادات نے سر اُٹھایا،وہاں کی حکومت نے جنگی بنیادوں پر اقدامات کئے، ہنگاموں پر قابو پایا، ثبوت اکٹھے کئے اور ملزموں کو گرفتار کیا اور دن رات عدالتیں کھلی رکھ کر مجرموں کو سزائیں بھی دیں،اِس معاملے کو طول دینا مشکلات میں اضافہ ہی کرے گا۔  

مکالمہ جمہوریت کی مکمل تکمیل کے لئے ایک شرط ہے 2023ء میں صدر گستاوو پیٹرو کی قیادت میں کولمبیا کی حکومت نے نیشنل لبریشن آرمی  کے گوریلا گروپ کے ساتھ کئی دہائیوں پر محیط تنازعے کو ختم کرنے کے لئے امن مذاکرات کئے، زمبابوے میں 2018ء کے متنازعہ انتخابات اور معاشی عدم استحکام کے بعد صدر ایمرسن منانگاگوا نے حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے لئے پولیٹیکل ایکٹرز ڈائیلاگ (پی او ایل اے ڈی) کا آغاز کیا۔ اِسی طرح2017ء کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد کینیا میں صدر اوہورو کینیاٹا اور حزبِ اختلاف کے رہنماء رائیلا اوڈنگا کے درمیان سیاسی تعطل اور بڑھتی ہوئی کشیدگی دیکھنے میں آئی، انہوں نے مارچ 2018ء میں عوامی ”ہینڈ شیک“کیا، مذاکرات کیے اور معاملات حل کر لیے۔لہٰذا تمام اہل ِ سیاست کو ملکی مفاد کی خاطر ایک میز پر بیٹھنا ہی ہو گا، خلوصِ نیت کے ساتھ ملک کو آگے بڑھانے کا عزم کرنا ہو گا، عوام بہتری کی اُمید میں بیٹھے ہیں، مایوسی کا شکار ہیں اُنہیں اِس صورتحال سے نکالنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنا ہو گا۔ سیاست کے میدان میں کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا، کچھ بھی قطعی نہیں ہوتا، ضد اور اَنا کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -اداریہ -