جھوٹے نعروں کی نصف صدی!
ٹھیک پانچ دہائی پہلے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا تو یہ نعرہ بقائمی ہوش و حواس سنا ”اب راج کرے گی خلق ِ خدا“ گورنمنٹ کالج بوسن روڈ میں سال اول کی کلاس کا پہلا دن تھا کہ ہمارا استقبال نعرہ بازی سے ہوا،نعروں میں ایک نعرہ یہی تھا۔ آج میں اپنی1974ء والی میٹرک کی سند ضرورت کے تحت دیکھ رہا تھا، تو مجھے پانچ صدیاں گزرنے کا احساس تو ہوا، لیکن اُس سے بھی زیادہ یہ احساس دامن گیر ہو گیا کہ اِس نعرے کی ان پانچ صدیوں میں کس قدر مٹی پلید ہوئی ہے۔راج کرنے والی خلق ِ خدا غلامی جیسی زندگی گزار رہی ہے۔ آقا ایک نہیں بہت سے ہیں،البتہ غلامی ایک جیسی ہے۔ یہ نعرہ غالباً ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں لگنا شروع ہوا تھا جو یہ نعرہ لے کر آئے تھے،طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، پانچ صدیوں میں اس طاقت کے سرچشمے کی رگیں تک سوکھ گئی ہیں۔ایک لاغر مریض کی طرح بے چارے عوام زندگی گزار رہے ہیں،نظام کے جبر نے انہیں ایسا جکڑا ہے کہ گلو خلاصی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔کہتے ہیں کہ بھٹو کو ایسے ہی نعرے لے ڈوبے تھے،جن طاقتوروں کو چھوڑ کر انہوں نے عوام کو طاقت مانا تھا،انہوں نے بالآخر ایسا سبق سکھایا جس کی اب تک کوئی دوسری مثال نہیں مل رہی،ویسے تو اس قوم کو آزاد ہوئے77 برس ہو گئے ہیں تاہم شعور کی پانچ دہائیاں تو ایسی ہیں، جن میں سیاسی جماعتوں نے یہی نعرہ لگایا کہ عوام ہی اس ملک کے اصل حکمران ہیں۔یہ اتنا بڑا دھوکہ تھا کہ جسے عوام سمجھ نہیں سکے،کبھی ایک سیاسی جماعت اور کبھی دوسری کے پیچھے چلتے رہے کہ شاید وہ منزل آ جائے،مگر انہیں کیا معلوم تھا جنہیں وہ راہبر سمجھتے ہیں وہ راہزن ہیں جو اُن کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں۔آج البتہ پون صدی کے بعد یہ راز کھل چکا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں، سیاسی اشرافیہ اور نسل در نسل چلے آنے والے عوامی نمائندے کس طاقت کے سرچشمے کی بنیاد پر عوام کو اپنا غلام بنائے ہوئے ہیں۔یہ عقدہ جب سے کھلا ہے یہ ووٹ کی پرچی ایک ڈھکوسلا ہے،جیت کی پرچی کہیں اور سے ملتی ہے،اُس وقت سے مجھے تو عوام واقعی ایک ٹشو پیپر لگنے لگے ہیں وہ پانچ صدی پہلے کا ہمارا دور شباب واہموں، خواہشوں اور خوابوں کا زمانہ تھا، ہر بات سچی لگتی تھی اور ہر نعرہ پُرکشش محسوس ہوتا تھا۔یہ عادت قوم کے لئے ایک نشہ بن گئی تو پھر سیاسی وڈیروں نے اسے خوب کیش کرایا جو بھی سامنے آیا اُس نے سب سے پہلے استحصالی نظام کو برا کہا، حالانکہ وہ خود اُس نظام کا ایک متولی تھا اُس سے فیضیاب ہونے والوں میں آگے آگے تھا۔یہ باتیں تو اب ہونے لگی ہیں کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک صفحہ پر ہیں۔اس سے پہلے تو عوام کو اسٹیبلشمنٹ، آمریت اور استحصالی نظام کے نام پر بے وقوف بنایا جاتا تھا۔بالآخر اس قوم پر اسٹیبلشمنٹ کا یہ احسان ہے کہ اُس نے سیاستدانوں کے اس بیانیے کا پردہ چاک کر دیا ہے۔اب کامیابی کی بات یہ سمجھی جاتی ہے کہ حکومت یہ دعویٰ کرے اُسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے، کم از کم اس کی وجہ سے عوام کی جھوٹے نعروں،بڑھکوں اور دعوؤں سے تو جان چھوٹی۔
میرے شعور کی پانچ دہائیاں مکمل ہوئی ہیں تو تمام حقیقتیں بھی آشکار ہو گئی ہیں۔عوام کو بس اِس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ آج بھی ہر کام اُن کا نام لے کر کیا جاتا ہے۔یہ ایسی مجبوری ہے،جسے اس ملک میں مارشل لاء لگانے والے آمر بھی نہیں بھول سکے اور جمہوریت کے نام پر اقتدار میں آنے والوں کی تو بات ہی کیا ہے۔ہماری اشرافیہ نے یہ راز پا لیا ہے عوام کا ورد اتنی زیادہ مرتبہ کرو کہ وہ بھوکے،پیاسے رہنے کے باوجود نہال ہو جائیں،ہر حکمران کے راز اُس کے جانے پر کھلتے ہیں،نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے تین تین مرتبہ وزارتِ عظمیٰ سنبھالی،اُس وقت تک مجال ہے زبان کھولی ہو، جب تک اقتدار کی کرسی اُن کے نیچے رہی۔ہاں جب کرسی کھینچ لی گئی تو عوام کو بتایا گیا تمہارا منتخب وزیراعظم نکال دیا گیا ہے۔ کیا عجیب ماجرا ہے جب بھی منتخب وزرائے اعظم اقتدار سے نکلے تو عوام نے دھاڑیں نہیں ماریں،خوشیاں منائیں، اس میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا تھا۔عوام مٹھائی اس لئے بانٹتے رہے کہ منتخب ہونے والوں کے پاس عوام کو سوائے اپنی کرپشن کی کہانیاں ودیعت کرنے کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ البتہ عمران خان اُن سب میں ذہین یوں نکلے کہ انہوں نے نکلنے سے پہلے ہی ایک بیانیہ بنا لیا۔وگرنہ جہاں تک اُن کی حکومتی کارکردگی کا تعلق تھا اُن کے آخری دِنوں میں عوام مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آ کر حکومت کے جانے کی دعائیں مانگ رہے تھے۔سائفر کی جادوئی پڑی کے ذریعے عوام کے اُس پرانے دُکھ کو کیش کرایا گیا،جو وہ اب راج کرے گی خلق ِ خدا جیسے نعروں کی وجہ سے نسل در نسل اپنے اندر سنبھالے ہوئے تھے۔ ہاں نعرے کی نئی شکل”ہم کوئی غلام تو نہیں“ میں ڈھال دی گئی۔عوام ایک نئے خواب، نئے سحر میں مبتلا ہیں، کسی بھی ایجنڈے کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایک لائحہ عمل بنتا ہے،ایک منشور ترتیب پاتا ہے، وہ تو کسی جماعت کے پاس بھی نہیں،سب کے پاس نعرے ہیں اور جھوٹے خواب ہیں۔ہم کوئی غلام تو نہیں،ایک پُرکشش بیانیہ ہے،مگر اس پر عمل کیسے ہو گا،جب آئی ایم ایف کے بغیر کسی حکومت کو بھی معیشت چلانے کی توفیق نہ ہو تو یہ نعرہ سوائے فراڈ کے اور کچھ نہیں رہ جاتا۔
آج نواز شریف فرماتے ہیں تمام اسٹیک ہولڈرز کو بیٹھ کر عوام کو یلیف دینے کے فیصلے کرنا چاہئیں،ساتھ ہی اُن کی موجودگی میں یہ شرط بھی عائد کر دی گئی کہ غیر مشروط معافی مانگنے تک پی ٹی آئی سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے،حالانکہ اِس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام نہیں،اِس عدم استحکام کی وجہ سے معیشت پر دباؤ ہے، بیرونی ممالک سے قرضہ نہیں مل رہا اور مرکزی و صوبائی حکومتوں کے پاس اتنے وافر وسائل ہی نہیں کہ جن سے وہ عوام کو ریلیف دے سکیں۔پی ٹی آئی سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان تو ایسے کیا گیا ہے،جیسے تحریک انصاف حکومت کے ترلے منتیں کر رہی ہو۔امر واقعہ یہ ہے عمران خان بارہا کہہ چکے ہیں وہ فارم47 والوں سے مذاکرات نہیں کریں گے، صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے ایسی باتیں کرنے کا کیا فائدہ۔ایک عام تاثر تو یہ پایا جاتا ہے کہ حکومت ایسا کوئی فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کی منشاء کے بغیر نہیں کر سکتی۔ مسلم لیگ(ن) تنہا فیصلے اس لئے بھی نہیں کر سکتی کہ وہ مخلوط حکومت چلا رہی ہے۔ صرف نواز شریف کے کہہ دینے سے کچھ نہیں ہو گا آصف علی زرداری، ایم کیو ایم اور بلوچستان کی جماعتیں اس حکومت کی بیساکھیاں ہیں،اُن کے بغیر اس کا قائم رہنا ممکن نہیں،میں تو جب پانچ دہائیاں پیچھے مڑ کے دیکھتا ہوں تو مجھے وہ پاکستان زیادہ پُرامن،خوشحال اور آزاد نظر آتا ہے۔آج بے شک ہم نے سنگ وخشت کے بڑے بڑے جہان آباد کر لئے ہیں،ایٹمی طاقت بن گئے ہیں،آبادی میں دوگنا اضافہ کر چکے ہیں،مگر بے چینی، بے یقینی، عدم استحکام اور عوام کی چیخ و پکار تو اُس زمانے سے زیادہ ہے۔قرضہ اتنا چڑھ گیا ہے کہ اب قرضہ اتارنے کے لئے بھی قرضہ نہیں مل رہا تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں،پچاس سال میں آگے بڑھے ہیں،ارے پگلو ہم پیچھے چلے گئے ہیں۔