یوں تو اقبال کا سارا کلام ہی سیرت اور کردار کی تعمیرکا درس دیتا ہے لیکن اس کی اکثرغزلیں خاص طور پر نہایت بلیغ ہیں۔ اقبال کے ہاں غزل کہنے کا انداز ہیئت کے اعتبار سے روایتی ہے۔ اس نے روایتی الفاظ و تراکیب اور اصطلاحات و تشبیہات سے کام لے کر غیر روایتی مضامین کو جس خوبصورتی سے اپنی فارسی غزلوں میں بیان کیا ہے وہ حد درجہ قابل تعریف ہے۔ اس کی غزلوں کی اکثر بحریں ساز کی بجائے سوز کو ابھارتی ہیں۔ معانی کی گہرائی اور اسلوب کی دلکشی نے اس سوز و ساز میں اضافہ کر دیا ہے۔ہم نے کالم میں اس غزل کو اس لئے شامل کیا ہے کہ قارئین یہ دیکھ سکیں کہ اس نے غزل کے پیرائے میں جو کچھ کہا ہے وہ بھی سب کا سب کردار سازی پر کہا ہے اور اتنے مختلف اور اتنے دل آویز پیرایہ ہائے اظہار میں کہا ہے کہ بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔
اقبال کا دوتہائی کلام فارسی میں ہے۔ حضرت علامہ نے اردو کی بجائے فارسی کو کیوں ترجیح دی اس کا جواب بہت سے شارحینِ اقبال نے دیا ہے۔ میں ان پر اضافہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ لیکن اقبال کی وہ غزلیں جو فارسی کے مسلمہ اساتذہ نے کہی ہیں، ان کے کسی شعر یا مصرعے کو موضوع بنانا اور اس شعر کے مفہوم میں اپنی طرف سے اضافہ کرنا، اقبال کا ایک ایسا وتیرہ ہے جس پر ابھی تک کچھ لکھنا یا کہنا باقی ہے۔
نظیری نیشا پوری، فارسی کا ایک غزل گو شاعر تھا۔ اس کا آبائی پیشہ تجارت تھا۔ 1560ء میں پیدا ہوا اور 1612ء میں 52برس کی عمر میں اس کا انتقال ہو گیا۔ وہ جب ایران سے ہندوستان میں آیا تو اس کی شاعری کے چرچے اس سے پہلے ہندوستان پہنچ چکے تھے۔ یہ ہندوستان میں خاندانِ مغلیہ کا دور تھا۔ اس نے یہاں آکر عبدالرحیم خان خاناں کے ہاں ملازمت کرلی۔اس کی غزلیات مشہور ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستان میں فارسی جاننے والے بہت تھوڑے لوگ باقی رہ گئے ہیں۔ اس کی غزل کا ایک مشہور شعر ہے:
گریزد از صفِ ما ہر کہ مردِ غوغا نیست
کسے کہ کشتہ نشد از قبیلہ ء مانیست
(جو شخص جنگ کے شوروغل سے بھاگتا ہے وہ ہماری صفوں سے گریزاں رہتا ہے اور جو شخص قتل نہیں ہو جاتا وہ ہمارے قبیلے کا فرد نہیں)
اس شعر کا دوسرا مصرعہ اقبال کے پسندیدہ موضوعات کا ہم نوا تھا اس لئے انہوں نے اس زمین میں دس اشعار پر مشتمل ایک غزل لکھی جو ”پیامِ مشرق“ میں ہے۔ اس کا ایک شعر یہ ہے:
مْریدِ ہمّت آں رہروم کہ پا نگْذاشت
بہ جادۂ کہ درو کوہ و دشت و دریا نیست
اس غزل کا ترجمہ ذیل میں دیا جا رہا ہے:
فرمودہ اقبالؒ
(1) اپنی مٹی سے وہ آگ پھر سے پیدا کر جو بجھ چکی ہے۔ کسی دوسرے سے روشنی کی بھیک مانگنا اچھا نہیں ہوتا۔(2) نظیری کے اس مصرعہ کے بدلے اگر کوئی مجھے سلطنت جمشید بھی دے تو میں لینے کے لئے تیار نہ ہوں گا کہ ”جو جنگ میں قتل ہو جانا نہ جانتا ہو وہ ہمارے قبیلے سے نہیں“۔ (3) اگرچہ آج کل محض عقل کے بل بوتے پر آگے بڑھنے کو ترقی کہا جا رہا ہے اور اگرچہ اس جادوگرنی (عقل) نے بہت سی افواج ہمارے خلاف حملے کے لئے اکٹھی کرلی ہیں لیکن تو غم نہ کر۔ہمارے پاس عشق کا صرف ایک لشکر ہی کافی ہے۔(4) تو ابھی موسیقی کی مختلف اصطلاحات کا شعور نہیں رکھتا اور نہ تجھے آلات موسیقی کے مختلف کل پرزوں اور ان سے نکلنے والی دھنوں کی خبر ہے۔ وگرنہ کون سا ایسا نغمہ ہے جو اسلامی موسیقی میں نہیں۔(5) میں اپنے آپ کے نظارے میں اس قدر محو ہوں کہ محبوب کے نظارے میں اگرچہ ایک دنیا بے خود ہوئی جا رہی ہے لیکن مجھے اس کو دیکھنے کی فرصت نہیں۔ (6) آج کل محبوب شہروں میں آ بسے ہیں۔ صحراؤں والے محبوب ابھی باقی نہیں رہے اور اگر ایسا ہے تو پھر کیوں نہ محبوبوں کے شہروں پر دھاوا بولیں اور ایسا شور و غل برپا کریں کہ شہر کے ہنگامے لرزنے لگیں۔ (7)یہ غم نہ کر کہ تمہاری کشتی نرم و نازک ہے یا حجم میں چھوٹی ہے۔ اسی کشتی کے ساتھ ہم بڑے بڑے مگرمچھوں کو شکار کرتے رہے ہیں۔ کیا تو ان کی کہانیاں بھول گیا ہے؟(8) میں اس مسافر کی جرائت و استقامت اور ہمت و شہامت کی داد دیتا ہوں اور اس کا مرید ہوں جو ایسی راہوں کی طرف قدم نہیں بڑھاتا جن میں مشکلات اور رکاوٹیں نہ ہوں، پہاڑ اور جنگل نہ ہوں، دریا اور گھاٹیاں اور ایسی ہی دوسری رکاوٹیں نہ ہوں۔(9) ایسے بادہ نوش صوفیوں کی محفل میں شریک ہو جو پی کر خاموشی اختیار نہ کرلیں بلکہ شور و غل سے آسمان سر پر اٹھالیں۔ ایسے پیروں فقیروں کی بیعت نہ کر جو پی کر چپ سادھ لیں اور اکڑوں ہو کر بیٹھ جائیں۔ (10) کسی بات کو الفاظ کے پردے میں لپیٹ کر کہنا گویا گویائی اور تکلم کا کمال ہے۔ اشارے کنائے اور رمز و ایما کی زبان ہم درویشوں کا شیوہ رہا ہے۔ ہم کھل کر اظہار مدّعا کرنے کی بجائے مختلف تشبیہوں، استعاروں اور کنایوں کے استعمال کو بہتر سمجھتے ہیں۔
اسباق
1۔ اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت کو دوبارہ حاصل کرو۔ کسی اور کی بیساکھیوں کے سہارے کب تک چلتے رہو گے؟
2۔فارسی کے مشہور و معروف شاعر نظیری کا یہ مصرع ہمیشہ پیش نظر رکھو کہ جس میں وہ کہتا ہے کہ صرف وہی لوگ ہمارے قبیلے کی رکنیت حاصل کر سکتے ہیں جن کو جہاد و قتال کا شوق ہو۔
3۔اگرچہ ماڈرن ٹیکنالوجی نے دھوم مچا رکھی ہے اور اس بات کا شور برپا ہے کہ یہ سب ایجادات اہل مغرب کی عطا ہیں لیکن تمہیں پتہ ہونا چاہیے کہ محض عقل کے سہارے جو تہذیب ابھرے گی اس کا زوال نوشتہ دیوار ہو گا۔ جب تک اس عقل میں انسانی ذوق و شوق اور قلبی واردات کا پیوند نہیں لگایا جائے گا یہ خام ہی رہے گی اور یہ پیوند صرف مسلمانوں کے پاس ہے۔تو غم نہ کر عشق کا صرف ایک لشکر عقل کے ہزار لشکروں کو شکست دے سکتا ہے۔
4۔اگر ساری نہیں تو بیشتر جدید ایجادات کی ابتداء مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہوئی۔ یہ دوسری بات ہے کہ تمہیں اس حقیقت کی خبر نہیں کہ عصر حاضر کی ایجادات کے سازینے میں جو نغمے گونج رہے ہیں وہ سب کے سب بربطِ سلیمیٰ (اسلامی سازینہ) میں پائے جاتے تھے۔
5۔ اپنے آپ پر اعتماد رکھ۔ غیروں کو بت بن کر دیکھتے رہنا باعث ننگ ہے۔ اپنے ماضی پر نگاہ ڈال، محنت کر اور کھوئی ہوئی دولت کو پھر سے حاصل کر۔
6۔اگر آج لیلائے سائنس شہری آبادیوں میں آکر آباد ہو گئی ہے تو صحرائی لیلیٰ کی تلاش ختم کرکے تم بھی شہروں میں آ بسو۔ مطلب یہ ہے کہ جدید سائنسی علوم کا حصول جہاں سے بھی ملے از بس ضروری ہے۔ صرف ماضی کو سینے سے لگائے رکھنا اور حال کی حقیقتوں کا ادراک نہ کرنا بے وقوفی ہے۔
کھلے ہیں سب کے لئے غربیوں کے مے خانے
علومِ تازہ کی سرمستیاں گناہ نہیں
اس میں ایک اور بلیغ نکتہ بھی ہے۔ سارے براعظموں میں صرف براعظم یورپ ایک ایسا براعظم ہے جس میں کوئی صحرا، کوئی ریگستان نہیں جبکہ مسلمانوں کی ابتداء ہی صحرائے عرب سے ہوئی۔ وہی صحرائے عرب جو شتربانوں کا گہوارہ کہلاتا تھا!…… میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ اقبال نے جگہ جگہ صحرا اور دشت کو شہری آبادیوں پر جو ترجیح دی ہے تو اس کے پیچھے بھی یہی جغرافیائی حقیقت کار فرما ہے[
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن؟
7۔تہذیب و تمدن اور ایجادات و اکتشافات کا تمہارا ورثہ ایک قابل قدر ورثہ ہے۔ اس کو حقیر نہ سمجھ۔
8۔تن آسانی، سہل گوشی اور آرام طلبی کو خدا حافظ کہہ اور سخت جانی، مشقت آزمائی اور جاں گدازی کو اپنا شعار بنا۔
9۔سکوت اور بے عملی کی بجائے ہنگامہ پروری اور حرکیت سے عشق کر۔