امتِ مسلمہ کی عدالتی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر(3)

امتِ مسلمہ کی عدالتی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر(3)
امتِ مسلمہ کی عدالتی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر(3)
کیپشن: abdul rasheed qamer

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


قاضی صاحب کا دو ٹوک کلام سن کر سپاہی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کی خدمت میں پہنچا .... اور ساری داستان کہہ سنائی.... خلیفہ اُٹھ کھڑا ہوا.... اور تھوڑی ہی دیر بعد خلیفہ وقت عدالت کے باہر موجود تھا۔ عدالت کا دروازہ کھلتے ہی درباری سپاہی آگے بڑھا اور بولا: قاضی صاحب یہ دیکھیے امیر المومنین خلیفہ ہشام بن عبد الملک خود حاضر ہو گئے ہیں.... خلیفہ ہشام کو دیکھتے ہی قاضی صاحب استقبال کے لیے کھڑے ہو گئے لیکن خلیفہ نے اُنھیں بیٹھنے کا حکم دیا.... پھر قاضی نے ایک مصلّٰی بچھایا، اس مصلّے پر خلیفہ اور اس کا مقابل ابراہیم بن محمد بیٹھ گئے۔ عتیبی بیان کرتے ہیں کہ ہم حاضرین اُس قضیے سے متعلق گفتگو صاف صاف تو نہیں سن پا رہے تھے.... البتہ کچھ باتیں ہمیں سمجھ آرہی تھیں.... فریقین نے اپنے اپنے دلائل پیش کیے.... قاضی صاحب نے مفصل گفتگو سننے کے بعد خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ ( قصص العرب و القصد الفرید)
٭فضل بن ربیع، امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد، قاضی ابو یوسفؒ کے پاس خلیفہ ہارون الرشید کی طرف سے کسی مسئلے میں بحیثیت گواہ حاضر ہوا.... قاضی ابو یوسفؒ نے فضل بن ربیع کی گواہی مسترد کردی۔ خلیفہ ہارون الرشید نے پوچھا کہ آپ نے فضل کی گواہی کو کیوں ردّ کیا ہے؟ قاضی ابویوسفؒ نے جواب دیا کہ میں نے خود اسے ایک دن آپ کی مجلس میں یہ کہتے سنا ہے کہ وہ آپ کا غلام ہے چنانچہ اگر وہ اپنے قول میں صادق ہے تواس کی شہادت ناقابل قبول ہے .... کیونکہ وہ بقول خود آپ کا غلام ہے.... اور اگر وہ اپنے قول میں جھوٹا ہے ، تو اس صورت میں بھی اس کی گواہی ناقابل قبول ہے.... کیونکہ جب وہ آپ کی مجلس میں جھوٹ بولنے کی پرواہ نہیں کرتا.... تو مجلس قضا میں بھی۔(بدرجہ اولیٰ) جھوٹ کی پرواہ نہیں کرے گا....    خلیفہ¿ وقت نے جب قاضی ابو یوسف کا یہ مدلل کلام سنا تو خاموش ہوگئے اوران کے فیصلے پر ان کی تائید کی۔(بحوالہ تاریخ بغداد)

٭ایک موقع پر اہل سمرقند نے اسلامی لشکر کے سپہ سالار قتبیہ بن مسلم کے خلاف اسلامی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔ قاضی صاحب نے مسجد کے ایک کونے میں اپنی نشست سنبھالی اور کارروائی کا آغاز کردیا۔ قاضی صاحب کا غلام (اہلکار) ان کے قریب کھڑا بغیر کسی لقب کے امیر لشکر کا فقط نام لے کر بلا رہا ہے ، کہ وہ حاضر ہوں.... چنانچہ امیر لشکر فاتح سمر قند قتیبہ بن مسلم حاضر ہوئے۔ عدالت نے انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پھر اہل سمرقند کے سردار کاہن کو بلوایا۔ اور امیر لشکر کے ساتھ بٹھادیا۔اب عدالت کی کارروائی شروع ہوتی ہے:قاضی صاحب اپنی نہایت پست آواز میں مخاطب ہوئے۔ کاہن سے پوچھا بتا¶ کہ تم کیا کہتے ہو؟ کاہن نے کہا کہ ”آپ کا کمانڈر قتیبہ بن مسلم ہمارے ملک میں دھوکے سے داخل ہوا ہے .... اس نے اعلان جنگ نہیں کیا.... اور نہ ہی اس نے ہمیں اسلام کی دعوت دی.... قاضی نے امیر لشکر کی طرف دیکھا اور پوچھا :” تم کیا کہتے ہو؟“ امیر لشکر نے قاضی سے کہا: کہ ”لڑائی تو دھوکہ ہوتی ہے۔ یہ ملک بہت بڑا ہے۔ اس کے باشندوں کو اﷲ تعالیٰ نے ہماری وجہ سے شرک اور کفر سے بچا لیا ہے اور انہیں مسلمانوں کی وراثت اور ملکیت میں دے دیا ہے۔ قاضی نے پوچھا: کیا تم نے حملے سے پہلے اہل سمرقند کو اسلام کی دعوت دی تھی؟.... یا جزیہ دینے پر آمادہ کیا تھا؟ ....یا دونوں صورتوں میں انکار پر لڑائی کی دعوت دی تھی؟.... سپہ سالار نے کہا: نہیں ایسا تو نہیںہوا.... قاضی نے کہا: تو گویا آپ نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا ہے!!.... اب آگے قاضی صاحب کے الفاظ پر غور کریں.... فرمایا: ” اﷲتعالیٰ نے اس امت کی مدد ہمیشہ اس لیے کی کہ اس نے دین کی اتباع کی اور دھوکہ دہی سے اجتناب کیا.... اﷲ کی قسم! ہم اپنے گھروں سے جہاد فی سبیل اﷲ کے لیے نکلے ہیں.... ہمارا مقصود زمین پر قبضہ جمانا نہیں اور نہ حق کے بغیر وہاں حکومت کرنا مقصود ہے .... میں حکم دیتا ہوں کہ مسلمان اس شہر سے نکل جائیں اور شہر کو اس کے اصل باشندوں کے حوالے کردیں.... ان کو پہلے دین کی دعوت دیں.... جنگ کا چیلنج کریں.... پھر ان سے لڑائی کا اعلان کریں....“ اہل سمرقند نے اس فیصلے کو سنا....ان کے کانوں اور آنکھوں نے جو سنا اور دیکھا اس پر انھیں یقین نہیں آرہا تھا.... تھوڑی ہی دیر میں قاضی کے فیصلے پر عمل درآمد شروع ہو چکا تھا.... اور فوجیں واپس جا رہی تھیں.... وہ افواج جن کے سامنے مدینہ سے لے کر سمر قند تک کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی.... جنھوں نے قیصر و کسریٰ اور خاقان کی قوتوں کو پاش پاش کرکے رکھ دیا.... ان کے سامنے جو رکاوٹ بھی آئی، خس وخاشاک کی طرح بہا لے گئے.... مگرآج وہی اسلامی فوج ایک کمزور،نحیف و نزار جسم کے مالک قاضی کے فیصلے کے سامنے دست بردار ہو گئی.... ایک شخص جس کے ساتھ صرف ایک غلام ہے اس نے مقدمے کی سماعت کی .... چند منٹوں کی سماعت.... عدالت میں دو طرفہ بیانات سنے.... سپہ سالار کا اقرار .... اور چند فقروں پر مشتمل فیصلہ کہ ”مےں حکم دیتا ہوں کہ مسلمان اس شہر سے نکل جائیں.... شہر کو اس کے اصل باشندوں کے حوالے کر دیں پہلے ان کو دین کی دعوت دیں.... جنگ کا چیلنج کریں.... پھر ان سے لڑائی کریں“ اس عادلانہ فیصلے کو دیکھ کر اہل سمرقند نے اسلامی افواج کے راستے روک لیے گھوڑوں کی باگیں پکڑلیں.... کہ ہمارے ملک سے واپس نہ جائیں.... ہمیںایسے ہی عدل و انصاف کی ضرورت ہے ....پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ سمرقند کی گلیاں اور چوک اﷲ اکبر کے نعروں سے گونج رہے تھے.... لوگ جوق در جوق مسلمان ہورہے تھے.... اور اس طرح سمرقند کی زمین اسلام کی دولت میں داخل ہو گئی۔ (بحوالہ قصص من التاریخ از شیخ علی طنطاوی)
٭عہد اسلام کے اس زرّیں دَور میں بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ سربراہِ مملکت اور حکمران، عدالت میں بطور گواہ حاضر ہوتا ہے، مگر اس کی گواہی کو مسترد کردیا جاتا ہے.... ایک عدالت کا نقشہ کچھ یوں ہے: ”قسطنطنیہ مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ کا دارالحکومت تھا۔ جسے آج کل استنبول کہا جاتا ہے۔ وہاں عدالت لگی ہوئی ہے۔ قاضی شمس الدین محمد حمزہ کرسی عدالت پر براجمان ہیں.... مقدمہ پیش ہوا.... قاضی نے گواہان کی فہرست دیکھی.... اس فہرست میں حاکم وقت سلطان بایزید کا نام بھی شامل ہے.... سامنے دیکھا کہ بایزید گواہوں کے کٹہرے میں کھڑا ہوا ہے۔
اچانک قاضی نے فیصلہ سنا دیا کہ سلطان با یزید کی گواہی کو مسترد کیا جاتا ہے کیونکہ وہ گواہ قابل اعتبار نہیں ہے۔ عدالت میں سناٹا چھا جاتا ہے۔ حاکم وقت کی گواہی ناقابل قبول ہے؟ لوگ حیران و ششدر رہ گئے۔سلطان با یزید نے آگے بڑھ کر قاضی کو مخاطب کیا: ”کیا میں پوچھ سکتاہوںکہ مجھے گواہی کے قابل کیوں نہیں سمجھا گیا ہے؟“.... قاضی نے حاکم کی حیثیت اور ہیبت کونظر انداز کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ ”گواہ باجماعت نماز ادا نہیں کرتا۔ اس لیے اس کی گواہی ناقابل قبول ہے۔“
قاضی نے حاکم وقت کی گواہی کو مسترد کرتے ہوئے اسلام کے عدالتی نظام کو وقار اور مزید جلا بخشی اور ثابت کردیا کہ کرسی عدالت پر بیٹھ کر چھوٹے اور بڑے میں تمیز نہیں کیجاتی.... ادھر حاکم نے بھی فیصلہ سنا اور اس کے سامنے گردن جھکا دی.... اور اپنی کمزوری کا اعتراف کرتے ہوئے حکم دیاکہ فی الفورمیرے محل کے سامنے ایک خوب صورت سی مسجدبنائی جائے.... اس مسجد کی اگلی صف میں اپنے لیے جگہ مخصوص کی اوراس کے بعد نمازبا جماعت سے غفلت کا کبھی مرتکب نہیں ہوا۔(بحوالہ انسائیکلوپیڈیا تاریخ عالم)
قارئین کرام! تاریخ اسلام ایسے روشن اور عدل و مساوات پر مبنی فیصلوں سے بھری پڑی ہے.... جہاں حکمران.... وزرائ.... گورنر.... عسکری کمانڈر عدالتوں میں پیش ہوتے رہے.... اور قانون کا سامنا کرتے رہے.... اورانکے فیصلوں کے سامنے اپنا سر جھکاتے رہے.... یہ اسلام کا ہی امتیاز ہے کہ اس میں قانونی طور پر تمام انسان برابر ہیں.... سربراہِ مملکت اور ایک عام مسلمان کے حقوق میں کوئی فرق نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے کلام پاک .... نبی کریمﷺ کے فرامین.... صحابہ کرامؓ کے ارشادات.... اور تاریخ کے سنہری اوراق کے مطالعہ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آج ہم زوال پذیر صرف اس لیے ہیں کہ ہم نے اﷲ کریم سے وعدہ کرکے پاکستان کو اسلام کے نام پرحاصل تو کر لیا تھا، لیکن اسلام کے زرّیں اصول اپنانے سے یکسر روگردانی اختیار کر رکھی ہے اور ۶۶برس سے اللہ کریم کے ساتھ انتھا درجے کی بدعہدی کے مسلسل مرتکب ہےں.... ....ہمارے آئین مےں سربراہِ مملکت یا اور کسی بڑی شخصیت کے استثنیٰ کی اگر کوئی صورت ہے بھی، تو یہ عدل و انصاف کے سراسر منافی ہے اور قوانین الٰہیہ کا صریحاً مذاق ہے.... آئین میں ہر وہ شق جو قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتی اسے بہرطور تبدیل اور ختم کیاجانا چاہئے.... کیونکہ ہمارا دعویٰ بھی تویہی ہے کہ ہمارا آئین اسلامی ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ریاست کے تمام ستونوںکو قرآن و سنت کے مطابق انصاف و عدل کا بول بالا کرنے اور ملک کو امن وسلامتی کا گہوارہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔      (ختم شد)

مزید :

کالم -