لاہور میں جسم فروشی کے لیے 10تا 12سال کی لڑکیوں کا دھندہ جاری، سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے رابطوں کا انکشاف
لاہور (ویب ڈیسک) کم سن لڑ کیو ں سے زیادتی کے واقعا ت کے کیس ہا ئی لائیٹ ہو نے کے بعد صوبائی دار الحکومت میں جسم فرو شوں نے طریقہ کا ر تبدیل کردیا۔ مذکو ر ہ گینگ 10 سے 12سال کی عمرکی لڑکیوں سے مکرو ہ دھندے کروانے کے لئے اپنے گاہکوں کو واٹس ایپ ، ایمواور میسنجر کے ذر یعے تصویر بھیج کر بکنگ کر نے کا انکشاف ہو اہے۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
روزنامہ خبریں کے مطابق بچپن میں جسم فروشی شروع کرنے والی لڑکیاں زیادہ تر اس دھندے میں اس لیے پڑتی ہیں کہ ان کے والدین یا ان کے سرپرست ان کا کنوارہ پن فروخت کر دیتے ہیں،شہر میں نا با لغ لڑ کیو ں سے جسم فرو شی کو مکروہ د ھند ہ کروانے والے گرو ہ کا انکشاف ہو اہے ، اخباری ذرا ئع کاکہنا ہے کہ مذکو ر ہ گرو ہ نے شہر کے مختلف مقاما ت پر جسم فرو شی کے خفیہ اڈے بنا ر کھے ہیں اورمحکمہ پو لیس کے کچھ ضمیر فرو ش افسران بھی مبینہ طو ر پر ان کی سر پر ستی کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق شہر میں کم سن لڑ کیو ں سے زیا دتی کے واقعا ت ہا ئی لا یٹ ہو نے پرمذکو ر ہ گینگ پہلے اپنے گا ہک کو 10 سے 12سال عمر کی لڑ کی کا کنوارہ پن فروخت کرنے کے لئے واٹس ایپ ، ایمو،میسنجر اور سوشل میڈیا کی دیگر ویب سائٹس کے ذریعے تصویر بھیج کر بکنگ کر تا ہے اور پھر لڑ کی کو اسکی بتا ئی ہو ئی جگہ پر گا ر نٹی لے کر بھیج دی جا تی ہے جنسی ٹاؤٹ کی جانب سے لڑکی کے کنوارے پن کی گارنٹی ہونے کی وجہ سے اس ایک رات کی قیمت ہزا رو ں سے لا کھو ں روپے میں ہو تی ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ شہر میں جگہ جگہ جسم فروشی کے اڈے کھل گئے ہیں بلکہ نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی ایسے افراد موجود ہیں جبکہ بڑی مارکیٹوں، سڑکوں، درباروں، باغوں، پارکوں اور اہم علاقوں میں بھی ایسے افراد کی کوئی کمی نہیں۔ ذرا ئع کا کہنا ہے کہ 5سال قبل شہر میں 200قحبہ خانے تھے جن کی تعداد اب بڑھ کر 445ہو چکی ہے۔ اسی طرح ایک اندازے کے مطابق لاہور میں پانچ سال کے دوران جسم فروشی میں دگنا سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے شہر میں ایک لاکھ سے زیادہ جسم فروش خواتین ،نابالغ لڑکے اورلڑکیاں ہیں جن کی عمریں 12سے 13سال سے لے کر 40 ،45سال تک ہیں ملک کے معاشی حالات کے باعث ان کی تعداد میں ماہانہ سو سے دو سو تک کا اضافہ ہو رہا ہے۔
جسم فروشی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون’’ ج ‘‘نے نا م نہ بتا نے کی شر ط پر بتایا کہ اس دھندے میں معاشرے کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین شامل ہیں ان میں ایسی بھی ہیں جو سو روپے میں بک جاتی ہیں اور ایسی بھی جو اپنے آپ کو پیش کرنے کے لاکھوں روپے وصول کرتی ہیں اس نے کہا یہ بڑی بد قسمتی ہے کہ جہاں ہر چیز مہنگی ہوتی جا رہی ہے وہاں عورت کی عصمت سستی ہو رہی ہے چند سال پہلے جس میعار کی لڑکی پانچ ہزار میں ملتی تھی اب ایک ہزار میں مل جاتی ہے کیونکہ یہ عورتیں کسمپرسی کی زندگی گزارتی ہیں۔ ان کے بچے ضروریا ت زندگی کو ترستے ہیں پھر اس پیشے میں لا تعداد لڑکے، لڑکیاں شامل ہو گئی ہیں جبکہ جنسی تسکین حاصل کرنے والے افراد کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے جو خود کو تسکین پہنچانے کے لیے براہ راست سیکس سے لیکر فاصلاتی جنسی تسکین کے طریقے استعمال کرتے ہیں جسے عرف عام میں’’ اورل سیکس ‘‘کا نام دیا جاتا ہے۔