منتشر خیالات
میرے گھر سے دفتر کا فا صلہ چند کلو میٹر ہے، مگر آ نکھیں پوری طرح کھول کے سفر کیا جا ئے تو پھر چند کلومیٹر کا یہ فاصلہ نہایت طویل، نا خوشگوار اور طبیعت پر بہت بھا ری گزرتا ہے ۔میں سڑک پر آنے کے لئے ٹریفک سگنل پر رکا تو میری گا ڑی کے شیشے کو کسی نے بجا یا ۔
گر دن گھما کر دیکھا تو چھو ٹے بچے تھے ہا تھوں میں قا عدے لئے امید بھر ی نظروں سے مجھے کتا بیں خرید نے کی دعوت دے رہے تھے ، میں گو مگو کی کیفیت میں پڑ گیا یہ قاعدے میں نے خریدنے نہیں تھے ،یہ معصوم مگر بھو ک سے معمو ر آنکھیں میرے احساس کو پاش پا ش کرنے کے لئے کافی تھیں، مجبوری کا احساس کیا اور جس قاعدے اور کتابوں کی ان بچوں کو ضرورت تھی وہ ان سے لے کر میں آگے چل دیا۔
میرا خیال ان دو کروڑ بچوں کی جانب ہو گیا جوسکو لوں سے با ہر تعلیم سے محروم مگرعمران خان کے نعروں میں مو جو د ہو تے ہیں یا پھر میرے خیال میں وہ بچے اور نو جوان بھی آ ئے جن پر تعلیم کے دروا زے تو کھل گئے مگر عقل اور دانش ان سے کو سوں دور رہی۔ اس میں کہیں مجھے مشال خان کا دھندلا عکس
نظر آ یا کہیں بہا ولپو ر جیسے میٹھے شہر کا کڑوا لڑکا خطیب ذہن میں آ یا جس نے پرو فیسر خا لد حمید کوجہانِ عدم بھیج دیا۔ ان جیسے بے شمار وا قعات ہیں جن کا کہیں نہ کہیں تعلیم سے تعلق ضرور جڑا ہے۔ بڑے روڈ پر چڑ ھتے ہی مجھے روزا نہ ایک خا تون نظر آ تی ہیں جنہیں میں ایک زبر دست انٹر پرینیورشپ کی مالک اور آ ئیڈیل سمجھتا ہوں۔ روڈ کنارے بھٹی لگا رکھی ہے اور دھما دھم خشک چنے کے دا نے بھو نتی ہیں جیسے میری اماں چنے کی فصل گھر میں آ نے کے بعد عصر کے وقت کچی مٹی کے گا رے سے بنے چولہے (چولھ) پر لکڑیاں جلا کر مٹی کے کُنے میں چنے بھون کر دیتیں تو ہم اپنی جیبوں میں انہیں ٹھونستے اور خرا ماں خرا ماں محلے کے کر کٹ گرا ؤ نڈ نکل جا تے تھے۔ میں نے لیفٹ کا انڈیکیٹر لگا کرگاڑی روڈ کنارے چھوڑی اور دم بخود اماں کے پا س جا کھڑا ہوا۔ یہ یادوں کی بارات کا لمحہ تھا انہیں بڑی کڑا ہی میں چنے بھونتے ہوئے دیکھتا رہا، دل ہی دل میں بڑی عقیدت اور اپنائیت سے اسے عورتوں کی معاشی ترقی اور آزادی کا علمبر دار سمجھا، ان سے چند روپوں کے خستہ مگر منہ میں گھل جانے وا لے گرم چنے لئے اور چلنے کا ارادہ باندھا، صحا فی ہوں گردن گھما کر اطراف کا جا ئزہ لیا تو ایک جا نب ایل ڈی اے کے اہلکار ہٹو بچو کے نعرے لگاتے تجاوزات کے خلاف مہم چلا تے نظر آ ئے، دوسری جانب ایک بڑی ہورڈنگ پر بہت بڑی رئیل اسٹیٹ کے پلا ٹوں کا اشتہا ر دیکھا اور تیسری نظر اس خاتون پر پڑی جو بڑی متفکر نگاہوں سے ایل ڈی اے کے ان اہلکاروں کو دیکھ رہی تھی، مجھے اس ساری صورتحال میں ان کی دکان ختم ہو تی نظر آئی۔
وہی پرانے پا کستان کا مکروہ منظر میری نظروں میں گھوم گیا جہاں ایک جانب رئیل اسٹیٹ کی مہنگی رہا ئشی کا لو نیوں کے تیز رفتار کا روبار اور ایک جانب عہدِ عمرانی میں فقیروں کی لٹی کمائی۔ آ ج کل بڑے اور بااثر لوگوں کی تجاوزات کو ریگولرائز کر نے کے دن ہیں خبر نہیں غریب گھرانوں کی کفالت کا بو جھ اٹھائے ان خود دار محنت کشوں کی تجاوزات ختم کر نے کا دوہرا رویہ کب بند ہو گا؟ وزیر اعظم بلند معیا رِ احتساب کی با ت کر تے ہیں تو کیا ہم ان سے پو چھ سکتے ہیں کہ غریبوں کے گھروں اور دکانوں کو بھی بنی گالہ کی طرح ریگولرائز کر نے کا حکم دینگے؟ اشرافیہ کی بجا ئے یہ عام آ دمی ہی ہے جس نے اس ریاست کا ناکامی کا تمام تر بو جھ اٹھا یا ہوا ہے، وزیراعظم اکثر کہتے ہیں کہ چھ ارب رو پے روزانہ بیرونی قر ضوں پر سود ادا کر رہے ہیں تو میں سوچنے لگ پڑا کہ ٹریفک سگنلز پر قلم اور کتاب بیچنے وا لے بچے اورچنے بیچنے وا لی مائی صاحبہ بھی تو یہ بوجھ ڈھو رہے ہیں ، عام آ دمی تو وہ قرض بھی اتار رہا ہے جو اس پر نہ توکبھی لگا اور نہ ہی اس پروا جب ہے۔ حکومتی اہلکا روں کا یہ پر وگرام مجھے تجا وزات ہٹا ؤ نہیں بلکہ غریب مکاؤ پروگرام لگا۔
عام آ دمی کی زند گی غربت اور مہنگائی کے ہاتھو ں بہت تنگ ہو چکی ہے۔ اب تویہ سوچ بھی ختم ہو رہی ہے کہ ریا ست صحت، تعلیم ، انصاف، روزگار، روٹی، کپڑا اور مکان جیسے بنیا دی حقوق بھی دے سکے۔
عمران خان کے گورننس ما ڈل سے خوابِ تبدیلی ٹوٹ چکا ہے۔حکو مت ایک جا نب غر بت کے خاتمے کے پروگرام کا اعلان کر رہی ہے دوسری طرف معیشت کا بحران بھی بڑ ھا رہی ہے، مجھے حیرانی ہے پٹرول ، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے سے معیشت کی رفتار کیسے تیز ہو گی یا غربت میں کیسے کمی ہو گی؟ مہنگا ئی کی شرح پانچ سال کی بلند ترین سطح پر اور قرضوں پر سود ہر دوماہ بعد بڑھ رہا ہے، اصلا حات بہت پیچھے چلی گئی ہیں اور بیرونی قرضوں کا حصول ترجیح بن گیا ہے۔ وزیراعظم بڑے زخمو ں کو چھو ڑ کر چھو ٹے چھوٹے زخموں پر مرہم رکھنے کی پا لیسی اپنائے ہوئے ہیں مگر عام آ دمی کے لیے نہ تو ’ احساس‘ ہے اور نہ ہی ’ تحفظ ‘ موجود ہے۔
تحفظ اور احساس کا ذ کر وزیراعظم خوب کرتے ہیں مگر عملاً ان کا وجود نہیں ہے کیونکہ بہت سے واقعات اس کی نفی کر تے ہیں۔ ہما رے ملک میں ہر جگہ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو مسلمانوں کی دلجو ئی کر نے کے انداز کو سراہا گیا مگر ہم نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی عادت کب شروع کر نی ہے؟ احسا س کے بو جھ تلے دبے وزیراعظم عمران خان سانحہ ساہیوال کے متا ثرین کے گھر گئے؟ کیا انہوں نے بچ جانیوالی بچیوں کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا؟ کیا ان کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ان کے گھر گئے ؟وزیراعظم جلسہ فرمانے گھو ٹکی تو پہنچ گئے مگر اس مظلوم باپ کے گھر گئے جس کی آ ہ و فغاں پورا پاکستان سن رہا ہے کہ بچیوں کو زبردستی مسلمان بنا دیا گیا ہے۔
یہ سا رے کام ہمارے خود کے کرنے کے ہیں مگر ہم نے اقلیتوں سے مساوی سلوک اور ان کے سر پر ہا تھ رکھنے کا فریضہ نجا نے کیوں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کو سونپ دیا ہے؟ مدینے کی فلا حی ریا ست کے نعرے تو بہت آسان ہیں مگر انہیں نبھا نا عمران خان کے بس کی بات نہیں یہ نعروں سے زیادہ توفیق کا معاملہ ہے۔
جس طرف نظر دوڑائیں دھرتی پہ سکھ کم اور دکھ زیادہ ہیں، یہ کل بھی تھے آ ج بھی اسی طرح سے مو جود ہیں اور آ نے وا لے کل بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہیں گے، مگر حکمرانوں کی تھوڑی سی توجہ یا ترجیحات زخموں پر مرہم کا کام ضرور کر تی ہیں
ہم کہ ہیں کب سے درِ امید کے در یو زہ گر
یہ گھڑی گذر گئی تو پھر دست طلب پھیلائیں گے
کو چہ و با زار سے پھر چن کے ریزہ زیزہ خواب
ہم یو نہی پہلے کی صورت جو ڑ نے لگ جائیں گے