ہارنا نہیں جیتنا ہے
جس طرح مقدمات میں تاریخیں ملتی ہیں، اس طرح حکومت نے 14 دن کے مزید لاک ڈاؤن کی تاریخ دیدی ہے۔ جیسے مقدمے کے فیصلے کی تاریخ کا کچھ پتہ نہیں ہوتا، اسی طرح یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اگلی پیشی یعنی 14 اپریل تک یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ کورونا ختم ہو گیا ہے یا ابھی اس نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ دنیا میں جس طرح اگلے کئی ماہ کی تقریبات، کھیلوں کے مقابلے اور مختلف ممالک میں ہونے والے انتخابات منسوخ کئے جا رہے ہیں، اس سے نظر یہی آتا ہے کہ معاملہ جلدی سلجھنے والا نہیں، یہ بھی کہا جا رہا ہے جب تک دنیا کے کسی ایک ملک اور کسی ایک فرد میں بھی کورونا موجود ہے، یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکے گا کہ کورونا وائرس ختم ہو گیا ہے۔ اب یہ گتھی کون سلجھائے گا، اس بات کو کون یقینی بنائے گا کہ اس وائرس کو دنیا کے کونے کونے سے ختم کر دیا جائے۔
جب تک اس کی ویکسین ایجاد نہیں ہوتی، اس کا مکمل خاتمہ تو ممکن ہی نہیں۔ تو کیا اب یہ دنیا اسی طرح لولے لنگڑے انداز میں چلے گی، کبھی اپنے پیروں پر نہیں کھڑی ہو سکے گی۔ پہلے کی طرح وہ نارمل زندگی میں نہیں لوٹے گی، جو اس موذی وائرس سے پہلے انسانوں کا مقدر تھی۔ ان حالات میں تو لگتا یہی ہے کہ صرف وہی قومیں جیتیں گی، جو اپنے حواس اور اعصاب برقرار رکھیں گی۔ جو اضطراب کا شکار ہو کر بکھر جائیں گی، وہ شاید کبھی دوبارہ اپنے استحکام کو نہ پا سکیں۔ کیا ہم نے اس پہلو پر غور شروع کیا ہے، کیا قوم کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس لمبی جنگ میں حوصلہ نہیں ہارنا، کیا ہم اس جنگ کے لئے خود کو تیار کر رہے ہیں۔ امریکہ نے کھربوں ڈالرز اس کورونا سے معیشت کو بچانے کے لئے صرف کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر یہ چھوٹی موٹی بلا ہوتی تو ایسا بڑا اقدام کبھی نہ اٹھایا جاتا۔ ہم جیسی کمزور معیشت والے ممالک کیسے اس کا سامنا کریں گے۔ تاوقتکہ حکومت اور عوام ایک پیج پر نہ آ جائیں۔
کورونا وائرس دنیا کے 2 سو سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے کسی ملک نے یہ الزام نہیں لگایا کہ اس کی وجہ بیرون ملک سے واپس آنے والے اس کے شہری ہیں صرف ہمارے ہاں ہی یہ بحث چل رہی ہے کہ کورونا ایران سے واپس آنے والے زائرین کے ذریعے پھیلا اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں نے اسے پھیلایا۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کے کسی ملک نے بیرون ملک گئے ہوئے اپنے شہریوں پر یہ پابندی لگائی کہ وہ وطن واپس نہیں آ سکتے۔ اگلے ایک دو دنوں میں کینیڈا اور امریکہ کے ہزاروں شہریوں کو پاکستان سے خصوصی پروازوں کے ذریعے نکالا جائے جس کے لئے دونوں ممالک کی حکومتوں نے پاکستان سے خصوصی درخواست کی۔ کیا دور ابتلا میں اپنے ہی شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کئے جا سکتے ہیں۔ بات صرف احتیاط کرنے کی ہے، اس کے لئے حکومت ہی کوئی لائحہ عمل بناتی ہے۔ یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ مذہبی عقائد رکھنے والوں نے کورونا کو ہوا دی۔ بالفرض یہ نہ ہوتا تو کیا ہم پھر بھی کورونا سے محفوظ رہتے، کیا خیال ہے دنیا بھر کے ممالک نے اس وبا کو روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر احتیار نہیں کیں۔ اس کے باوجود یہ وائرس ان ممالک میں داخل نہیں ہوا؟ ایک طرف ہمیں اس موذی وبا سے لڑنا ہے دوسری طرف ہم بلا وجہ آپس میں الجھ رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے ایران سے آنے والے زائرین کی کیوں بات کرتے ہو عمرے سے آنے والوں کی کیوں نہیں کرتے، کسی کا خیال ہے کہ اس میں بھی فرقہ واریت چمکائی جا رہی ہے حالانکہ اتحاد بین المسلمین کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔ کورونا سے ایسے تو نہیں لڑا جا سکتا کہ ہم تقسیم ہو جائیں، ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرائیں، اس سے تو بحیثیت متحد قوم ہم نے نبرد آزما ہونا ہے۔
وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ قاری محمد حنیف جالندھری نے مجھے ایک بیان واٹس اپ پر بھیجا ہے۔ جس میں اس بات پر تشویش اور غم و غصے کا اظہار کیا ہے کہ تبلیغی جماعت کے بارے میں ایسے خیالات کو ہوا دی جا رہی ہے جیسے اس صورتِ حال کے صرف وہی ذمہ دار ہیں، ان کے ساتھ امتیازی سلوک ناقابل برداشت ہے۔ تبلیغی جماعت کے وابستگان پر ظلم و ستم اور ان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ اللہ رب العزت کے غیض و غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ حکومت بیورو کریسی، پولیس اور میڈیا کو واضح ہدایات جاری کرے کہ وہ اس معاملے میں احتیاط برتیں۔ تبلیغی جماعت کی کردار کشی کرنے والے اس شکل میں قومی وحدت کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ موجودہ حالات میں گھر سے باہر پھنسے ہوئے تبلیغی احباب کو دیگر پاکستانی مسافروں اور پردیسیوں کی طرح سمجھا جائے، اس سے پہلے اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی بھی اپنے ویڈیو بیان میں سخت موقف اختیار کر چکے ہیں، انہوں نے تبلیغی جماعت سے وابستہ مبلغین کے ساتھ اچھوتوں جیسے سلوک کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ دین کا پرچار کرنے والوں کو لاوارث نہ سمجھا جائے۔ ہم ان کے ساتھ کسی ظلم اور امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیں گے۔
بات پھر وہی ہے کہ اس وبا سے نمٹنے کے لئے ہمیں اپنے حواس کو برقرار رکھنا ہے جھنجھلاہٹ میں ایک دوسرے کو موردِ الزام نہیں ٹھہرانا۔ اس وبا کو دنیا میں آئے تین ماہ سے زائد ہو گئے ہیں۔ ہمارے ہاں تو مارچ کے وسط تک کاروبارِ زندگی معمولات کے مطابق چلتا رہا۔ تبلیغی جماعت کے ترجمان نعیم بٹ کا موقف ہے کہ انہیں اجتماع روکنے کا بہت بعد میں کہا گیا۔ حکومت تو خود ملک میں پی ایس ایل دھوم دھام سے کرا رہی تھی۔ اسٹیڈیم میں چالیس چالیس ہزار افراد کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھے ہوتے تھے۔ کیا اس بار یمیں بھی کسی نے تحقیق کی کہ اس سے کرونا کس حد تک پھیلا۔ ایک نارمل چلتی زندگی کو جب آپ ہڑبڑا کر بریک لگاتے ہیں تو جو چیزیں جہاں ہیں رک جاتی ہیں۔ ایسے حالات میں بقائمی ہوش و حواس فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ ایسے فیصلے نہیں جو ایک طرف موذی وبا کو پھیلا دیں اور دوسری طرف اپنے اندر انتشار پیدا کرنے کا باعث بنیں۔ یہ تاثر ختم ہونا چاہئے کہ پولیس تبلیغی جماعت کے وابستگان سے زیادتی کر رہی ہے۔ انہیں اگر قرنطینہ بھی کرنا ہے تو ان کی تمام ضروریات کا مکمل خیال رکھا جائے۔ ویسے بھی تبلیغی جماعت ملک کی سب سے پر امن تنظیم ہے۔ جس کا کام صرف دین کا ابلاغ ہے، اس مشکل گھڑی میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنا مقصود بھی ہیں تو ان کی عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہئے۔
14 اپریل تک کے لاک ڈاؤن میں کیا کچھ رونما ہوتا ہے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا، بہر حال چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ کسی بھی صورت حال کو خطرناک ہونے سے پہلے روکیں گے۔ انہوں نے کورونا وبا سے نمٹنے کے لئے فوج کی خدمات کو قوم کی امانت قرار دیا۔ میں سمجھتا ہوں اتفاق و اتحاد کی جو فضا موجود ہے، اسے جاری رہنا چاہئے، حکومت اور اپوزیشن کی دوریاں بھی ختم ہوں اور مشترکہ طور پر کورونا سے پاکستانی معیشت، عوام اور سلامی کو بچانے کی کوششیں کی جانی چاہئیں۔ انشاء اللہ قوم اس صورتِ حال سے کندن بن کر نکلے گیا ور ہم پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکے ہوں گے۔