بجلی، گیس بل جمع کرانے کیلئے 3ماہ کی چھوٹ، یوٹیلیٹی بلز پر نقصان حکومت برداشت کریگی، مشیر خزانہ سی پیک منصوبے فعال، تعمیراتی صنعت کی بحالی کا فیصلہ، اعلان آج کرونا پر محدود وسائل میں قابو پالینگے: وزیراعظم

  بجلی، گیس بل جمع کرانے کیلئے 3ماہ کی چھوٹ، یوٹیلیٹی بلز پر نقصان حکومت ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد(سٹاف رپورٹر) مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ کرونا کی وجہ سے عوام بجلی اور گیس کے بل 3 ماہ بعد جمع کراسکتے ہیں۔اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مشیر خزانہ نے کہا کہ کرونا سے متاثرہ افراد کی مدد کی جائیگی، اس کیلئے ایک 1200 ارب کا پیکیج دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ متاثرہ کاروباری حضرات کیلئے 5 بڑے فیصلے کیے ہیں، چھوٹے کارخانوں کے متاثرہ ملازمین کیلئے 100 ارب رکھے جارہے ہیں۔مشیر خزانہ نے بتایا کہ بجلی اور گیس کے بل فوری طور پر جمع کرانے کی ضرورت نہیں، 3 ماہ بعد بھی جمع کرائے جاسکیں گے، یوٹیلیٹی بلز جمع کرانے میں تاخیر کا نقصان حکومت خود برداشت کرے گی جس کیلئے 100 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔اسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد کا کہنا تھا کہ بزنس مین مطمئن رہیں، حکومت ان کے پیچھے کھڑی ہے، بزنس مین کمیونٹی کی سپورٹ پر شکریہ ادا کرتے ہیں، کارباری برادری سے مل کر کرونا سے متعلق چیلنجز پر قابو پائیں گے۔
حفیظ شیخ


اسلام آباد (سٹاف رپورٹر، نیوز ایجنسیاں)وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی کے آئندہ اجلاس کے پیش نظر کثیر الضابطہ ریسرچ کمیٹی قائم کی جائے گی جو مختلف شعبوں کے حوالے سے اپنی سفارشات مرتب کرکے نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی کے سامنے پیش کرے گی جبکہ وزیر اعظم نے کہا موجودہ صورتحال میں درست اور حقائق پر مبنی ڈیٹا کی دستیابی نہایت اہمیت کی حامل ہے، اس ضمن میں کسی قسم کی کوئی غفلت برداشت نہیں کی جائیگی،کرونا کی روک تھام کے حوالے سے مختلف ملکوں میں کیے جانیوالے اقدامات کا بھی مسلسل جائزہ لیا جا رہا ہے، پاکستان میں حالات دنیا سے مختلف ہیں۔ یہاں ہمارا مقابلہ محض کرونا سے ہی نہیں، غربت اور بیروزگاری سے بھی ہے، ہر فیصلہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائیگا۔ ادھر حکومت نے تعمیراتی صنعت کو بحال کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اس سلسلے میں آج ایک بڑے پیکج کا اعلان کیا جائیگا۔اس بات کا اعلان وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں کاروباری شخصیات میں ٹیکس ریفنڈز کے چیک تقسیم کرنے کیلئے منعقدہ تقریب میں کیا۔ جمعرات کو وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت کرونا وائرس کی صور تحال کے حوالے سے جائزہ اجلاس ہوا جس میں وزیر اقتصادی امور محمد حماد اظہر، وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی مخدوم خسرو بختیار، وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، معاون خصوصی اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، معاون خصوصی صحت ڈاکٹر ظفراللہ مرزا، معاون خصوصی ڈاکٹر معید یوسف، چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹنٹ جنرل محمد افضل، وزیرِ اعظم کے فوکل پرسن برائے کرونا ڈاکٹر فیصل سلطان و دیگر سینئر افسران شریک ہوئے۔ معاون خصوصی صحت ڈاکٹر ظفراللہ مرزا نے ملک میں کرونا وائرس کی تازہ ترین صورتحال،وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے معاشی و انتظامی اقدامات خصوصاً صوبہ سندھ سے بلوچستان اور پنجاب کو گندم کی بلاتعطل ترسیل، صنعتی یونٹس کی روانی، سی پیک منصوبوں پر عمل درآمد، وفاق اور صوبوں کے درمیان کوآرڈینیشن کی بہتری اور کرونا کے حوالے سے مصدقہ ڈیٹا اکٹھا کرنے کے اقدامات اورپیش رفت کے بارے میں تفصیلی بریفنگز دیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نیشنل کوارڈینیشن کمیٹی کے آئندہ اجلاس کے پیش نظر کثیر الضابطہ ریسرچ کمیٹی قائم کی جائے گی جو مختلف شعبوں کے حوالے سے اپنی سفارشات مرتب کرکے نیشنل کوارڈینیشن کمیٹی کے سامنے پیش کرے گی تاکہ ان سفارشات کی روشنی میں کمیٹی مستقبل کے لائحہ عمل کا تعین کر سکے۔ چیئرمین این ڈی ایم اے نے وزیر اعظم کو کرونا کی تشخیص کیلئے مطلوبہ میڈیکل سہولیات، کٹس، وینٹی لیٹرز و دیگر آلات کی دستیابی اور اس سلسلے میں کیے جانیوالے اقدامات کی تازہ ترین صورتحال پر بریفنگ دی۔جس میں بتایا گیا ابتدائی طور پر نجی شعبے کی دو لیبارٹریوں کو این ڈی ایم اے کی جانب سے ٹیسٹ کے آلات فراہم کیے جا رہے ہیں تاکہ ٹیسٹ کے اخراجات میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکے۔ اس تجربے کو مدنظر رکھ کر یہ سہولت مزید چودہ لیبارٹریز میں فراہم کی جائے گی۔ وزیرِ اعظم نے وفاقی دارالحکو مت میں کام کرنیوالے تمام ڈاکٹرز اور طبی عملے کیلئے ایک ماہ کی اضافی تنخواہ کی بھی اصولی منظوری دی۔ وزیراعظم نے کہا اس مشکل وقت اور نامساعد حالات میں انسانیت کی خدمت سے سرشار ڈاکٹرو ں اور طبی عملے کا جذبہ اور خدمات لائق تحسین ہیں۔ حکومت صحت کے شعبے سے وابستہ ان مسیحاؤں کی تمام تر ضروریات ترجیحی بنیادوں پر پورا کرنے کیلئے پرعزم ہے۔بعدازاں وزیرِ اعظم عمران خان کی زیر صدارت گیس کے شعبے میں اصلاحات کے حوالے سے اجلاس ہوا جس میں وزیرِ توانائی عمر ایوب،وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد، معاون خصوصی پٹرولیم ندیم بابر اور سینئر افسران شریک ہوئے، وزیر اعظم کو توانائی خصوصاً گیس کے شعبے میں جاری اصلاحاتی عمل پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔معاون خصوصی ندیم بابر نے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی دستیابی کی صورتحال پر تفصیلی بریف کیا اور بتایا اس وقت ملکی ضروریات کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی دستیابی اورذخیرے کی صورتحال تسلی بخش ہے۔ ملک میں موجود ریفائنریز کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے حوالے سے اٹھائے جانیوالے اقداما ت پر اب تک کی پیش رفت وزیر اعظم کو پیش کی گئی۔اجلاس سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا توانائی کے شعبے سے متعلقہ مسائل کا پائیدار حل حکومت کی اولین ترجیح ہے، توانائی کے شعبے سے متعلقہ مسائل عوام کی زندگیوں پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں، معاملات کے حل کی کوششوں کو مزید تیز کیا جائے، نظام میں موجود خرابیوں اور دستیاب وسائل کو موثر طریقے سے بروئے کار لا کر ہی عوام کو ریلیف فراہم کیا جا سکتا ہے،ایسے علاقوں جہاں قدرتی گیس کی فراہمی ممکن نہ ہو وہاں ایل پی جی کی دستیابی پر خصوصی توجہ دی جائے، تاکہ عوام کی روزمرہ کی ضرورتیں باآسانی پوری ہو سکیں اور جنگلات کی کٹائی کی حوصلہ شکنی ہو۔ لہذا اس شعبے میں اصلاحات کا عمل بلاتعطل جاری رکھا جائے گا۔گیس کے محدود ذخائر اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان وسائل کا بہترین اور منافع بخش استعمال یقینی بنایا جائے۔ حکومت نے تعمیراتی صنعت کو بحال کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اس سلسلے میں آج ایک بڑے پیکج کا اعلان کیا جائیگا۔اس بات کا اعلان وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں کاروباری شخصیات میں ٹیکس ریفنڈز کے چیک تقسیم کرنے کیلئے منعقدہ تقریب میں کیا۔وزیراعظم عمران خان نے کہا باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ ورکر مدد او اس تک پہنچنا زیادہ آسان ہے تاہم جو افراد یومیہ اجرت کمانے والے ہیں اور ان کا کہیں اندراج نہیں ان تک احساس پروگرام کے ذریعے پہنچنے کی کوشش کی جارہی ہے۔وزیراعظم نے بتایا ان افراد کو ایس ایم ایس مہم کے ذریعے اعلان کردہ 12 ہزار ارب روپے میں سے فنڈز فراہم کیے جائیں کیونکہ یہ گھرانے اس وقت سب سے زیادہ مشکل میں ہیں۔انہوں نے کہاکہ کاروباروں کو اسلئے سپورٹ کرنا ہے کہ بزنس کمیونٹی کے بغیر ملک آگے بڑھ ہی نہیں سکتا اور حکومت کا شروع سے یہی فیصلہ ہے کہ ملک میں صنعت کو فروغ دینا ہے، بزنس کو مراعات اور جس طرح 60 کی دہائی میں پاکستان میں صنعتی ترقی ہورہی تھی وہی ماحول فراہم کرنا ہے۔وزیراعظم نے کہاٹیکس ریفنڈز دینا اسی منصوبے کا حصہ ہے جو پہلے نہیں دیے جاتے تھے جس کی وجہ ہماری صنعت دوبارہ سرمایہ کاری نہیں کرسکتی تھی اور آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔انہوں نے بتایا حکومت کی پوری کوشش ہے بزنسز کو ریفنڈ دیے جائیں تا کہ ان کے لیکویڈیٹی ہو اس کے علاوہ وزارت تجارت و صنعت کو ہدایت کی گئی ہے تمام چیمبرز آف کامرس سے رابطے کر کے اس بات پر غور کیا جائے کہ کس طرح مل کر اس مشکل وقت سے نکلا جائے۔وزیراعظم نے کہا یہ مشکل صرف ہمارا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کا ہے بلکہ امیر ترین ملک امریکہ بھی مشکلات کا شکار ہے جن کی صرف معیشت زد میں ہے لیکن ہمیں بھوک کے مسئلے کا بھی سامنا ہے۔بزنس کمیونٹی کیلئے ضروری ہے کہ وزارت تجارت اور صنعت تمام اسٹیک ہولڈرز اور چیمبرز کیساتھ مل بیٹھ کر روزانہ کی بنیاد پر اس بات کا جائزہ لیں کہ اس مشکل وقت سے کس طرح نکلا جائے۔وزیراعظم نے کہا کہ ہم روزانہ اجلاس کر کے پوری قیادت کورونا وائرس کے باعث ملکی اور معاشی حالات کا جائزہ لیتی ہے۔ہمیں ایک طرف یہ دیکھنا ہے کہ وائرس نہ پھیلے جس کے حوالے سے اللہ کا خاص کرم کے دیگر ممالک میں جو تعداد ہے پاکستان میں اس سے کہیں کم ہے اور اپنے وسائل سے اس پر قابو پالیں گے۔ ہماری پوری کوشش ہے لاک ڈاؤن میں لوگوں کا اجتماع نہ ہو اور ایسی جگہیں مثلاً شادیاں، سکولز، کھیلوں کے مقابلے بند کردیے ہیں اور اس میں 2 ہفتے کی توسیع بھی کردی ہے اور عوام کو بھی خود ایسی جگہوں پر جانے سے گریز کا کہا جارہا ہے جہاں مجمع اکٹھا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ہمیں اس بات کا توازن بھی رکھنا ہے کس صنعت کو جاری رکھا جائے جس پر مسلسل غور جاری ہے کہ کون سی صنعت چلتی رہے تو لوگوں کے روزگار کا سلسلہ بھی جاری رہے گا اور وائرس کے پھیلاؤ کا خوف بھی نہیں رہے گا یہ حکومت کا اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ا وزارت تجارت و صنعت نے ان صنعتوں کی فہرست تیار کی ہوئی ہے کہ کون کون سی صنعتیں چل سکتی ہیں جس میں وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ کم ہے۔آج بروزجمعہ تعمیراتی صنعت کیلئے ایک بڑے پیکج کا اعلان کروں گا، حکومت نے فیصلہ کیا ہے تعمیراتی صنعت کو مراعات دینی ہیں اور اس کو چلانے میں مدد فراہم کرنی ہے۔ کیونکہ ہمارا یہ خیال ہے سڑکیں بننے سے کرونا کے پھیلاؤ کا خوف نہیں ہوگا، لوگوں کا ہجوم اکٹھا نہیں ہوگا یوں تعمیراتی صنعت سے منسلک دیگر صنعتیں بھی چلنا شروع ہوجائیں گی۔وزیراعظم کا کہنا تھا اس کیلئے ان صنعتوں کو حدود و شرائط سے آگاہ کیا جائے گا کہ کن ایس او پیز کو مدِ نظر رکھ کر کام کیا جاسکتا ہے لیکن ہم نے تعمیراتی صنعت کو کھولنے کا فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ کہیں یہ نہ ہو کرونا سے بچاتے بچاتے لوگوں کو بھوک سے مرنے سے نہ بچا پائیں۔پاکستان اور دیگر ممالک میں ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو اس صورتحال سے متاثر ہو کر بیروزگار ہے اور ہمارے وسائل اتنے نہیں کہ سب تک پہنچا جاسکے،اس لئے فیصلہ کیا ہے تعمیراتی صنعت کو کھولا اور بڑا ریلیف پیکج دیا جائے گا۔ادھر وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ہدایت کی گئی ہے کہ عالمی وبا کرونا وائرس کے پیش نظر جاری لاک ڈاؤن کے دوران شہریوں کے مسائل نظر انداز نہیں ہونے چاہئیں۔وزیراعظم آفس کی جانب سے ایک خصوصی مراسلہ جاری کیا گیا جس کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے افسران کو ہدایات جاری کی ہیں۔وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری کیے گئے خصوصی مراسلے کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک میں لاک ڈاؤ ن کے باعث شہریوں کو مسائل کا سامنا ہے، سرکاری افسران مسائل کے حل کے لیے شہریوں سے رابطے میں رہیں۔وزیراعظم آفس کے مراسلے کے مطابق کورونا کے باعث شکایات کے حل کا دورانیہ 41 سے 60 روز کردیا ہے۔وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری کیے گئے مراسلے میں کہا گیا کہ سرکاری افسران کو گھروں سے کام کے لیے پورٹل کی سہولت میسر ہے، افسران شہریوں کی شکایات کے ازالے کے لیے اقدامات کریں۔
وزیر اعظم اعلان

مزید :

صفحہ اول -