”سگنل فری معاشرہ“

”سگنل فری معاشرہ“
”سگنل فری معاشرہ“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان میں کورونا کا پہلا وار فروری 2020ء میں ہوا توعوام میں چہ می گوئیاں شروع ہو گئیں۔ کوئی اسے ”حسب ِ دستور“ ”بیرونی سازش“ گرداننے لگا۔ کوئی بڑے لوگوں کی بیماری کہنے لگا، تاہم کچھ لوگ اسے مُہلک وبائی مرض کے طور پر بھی قبول کرنے پر آمادہ لگے۔ اسی دوران کچھ”درد مندوں“ نے عوام کی ”راہنمائی“ کے لئے آڈیوز اور ویڈیوز بناکر، اَز راہِ ثواب، سوشل میڈیاکی نذر کرنا شروع کر دیں، جن میں کورونا سے بچنے اور اس کے علاج کے روحانی اور طبّی مجرّب نُسخے شدّ و مد کے ساتھ پیش کیے جانے لگے۔ کورونا کے سلسلہ میں، عطائیت کی حوصلہ شِکنی کی غرض سے، گوگل اور فیس بُک سے جب ایسی آڈیوز اورویڈیوز کو ہٹایا گیا،تو اسے صیہونی سازش سے تعبیر کیا گیا۔ انہی میں سے ایک ویڈیو میں، جو ٹیلی ویژن کے متعدد چینلوں پر بھی نشر ہوئی،ایک عالم دین،جوش و ولولہ سے دہکتے ہوئے خطاب میں،لوگوں کویہ باور کرارہے تھے کہ ”فاصلوں کی قطعاًکوئی ضرورت نہیں۔ٹخنے سے ٹخناملا کر نماز پڑھیں۔اگر کسی کو کورونا ہو جائے تو مجھے چوراہے میں کھڑا کر کے گولی مار دیں،خون معاف“۔یہ ویڈیو جب قانون نافذ کرنے والے اداروں تک پہنچی تو انہوں نے ”سوفٹ وئیر“کی ”مناسب ایڈجسٹمنٹ“کے بعد علامہ صاحب سے کورونا سے متعلق حفاظتی تدابیر کے حق میں چند جملوں پر مبنی ایک نیا ویڈیو پیغام جاری کرایا۔


ہم بنیادی طور پر ایک سگنل فری معاشرے سے تعلّق رکھتے ہیں،جو کسی بھی طرح کے، سڑک پر لگے نشانات کو غور سے دیکھنے اوران پر عمل کرنے سے ہٹ کر، زندگی کے جملہ معاملات میں،شرائط و قیّود کو خاطر میں لانے کو اپنا ”عدم پاکستانی“ ہونا سمجھتے ہیں۔شاید ہمارے اِسی روّیے سے متاثر ہو کر، سرکار نے، لاہور کی سڑکوں کو سگنل فری کرنے کا قدم اُٹھایا۔ لندن کی آبادی تقریباًنوّے لاکھ ہے۔ وہاں تاحال سڑکوں کو سگنل فری نہیں کیا گیا۔ اسی طرح، دیگر جدید دنیا میں سڑکوں کو سگنل فری کرنے سے گریزکیا گیا،کیونکہ اس چلن سے تُندوتیزاورخود غرضی پر مبنی روّیہ تشکیل پاتاہے،جو بے صبری،تنگ دِلی اور عدم برداشت کو جنم دیتاہے۔ دنیا کے ہر بڑے شہر میں کسی نہ کسی وجہ سے ٹریفک جام ہوتی ہے، مگر روّیوں کی نَس نَس میں رواں نظم و ضبط انہیں صبراور برداشت اپنانے پر اُکساتا ہے، جس کے باعث نہ قطار کے توڑنے کا تصّور، نہ عالم ِ تذبذب میں سماعت کُش ہارن کی آواز اور نہ ہی کسی سے الجھاؤ پیدا ہوتا ہے،بلکہ پُر سکون دل و دماغ کے ساتھ، سب ذمہ داری سے سڑکوں پر رواں رہتے ہیں۔ہم نے قوم کو کسی نظم و ضبط میں لانے کی بجائے باقی شعبوں کی طرح سڑکوں کو بھی سگنل فری کر دیاہے۔


کورونا کے پہلے وارکے دوران دیہاتی، شہروں سے آئے عزیزوں سے پوچھتے،”کیاآپ کو  یا آپ کے کسی عزیز کو کورونا ہوا ہے؟“اگر جواب نہ میں ہوتا توکہتے ”دیکھا،یہ حکومت کی سازش ہے، وہ آبادی کم کرنا چاہتی ہے،تبھی ہسپتالوں میں زہر کے ٹیکے لگ رہے ہیں۔“اس زہر آلود پراپیگنڈہ کے تدارک کے لئے،ڈاکٹروں کو خود ویڈیوز بنا کر عوام کی جہالت، اپنی بے بسی اور پُر خطر پیشہ ورانہ ماحول کی دُھائی دینا پڑی۔حکومت نے تمام سرکاری و غیر سرکاری ادارے اور کارباری مراکز با اَمرِ مجبوری بند کیے تو کاروباری علماء کی جانب سے احتجاجی فتویٰ جاری ہوا کہ ”کورونا سے تو شاید بچ جائیں،مگر بھوک اور بے روزگاری موت کا سبب بن کر رہے گی۔“سرکار نے صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے قوم کو قابلِ عمل شرائط کے ساتھ کاروبار کی اجازت دے دی،اورہمارے حوصلے بڑھتے چلے گئے۔


اگرچہ کورونا کا دوسرا وار قدرے کم نقصان کیے گزر گیا۔تاہم کورونا کے تازہ، تیسرے وار سے آج پوری دنیا خوفزدہ ہے۔ اس وار کو سب سے زیادہ مُہلک تصور کیا جا رہا ہے۔ہماری اپنی سرکارنے بھی بروقت اس وار کے مُہلک امکانات اور اثرات سے لوگوں کو پیشگی خبردار کیا۔ سرکار کو شاید یہ توقع تھی کہ تحریر و تقریر اورپرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے، پورا سال، کورونا کے حفاظتی اقدامات اور اس کی تباہ کاریوں کے بارے میں جو اقدامات اس نے کئے، شایدوہ لوگوں کے روّیوں میں تبدیلی لے آئے ہوں اوراب وہ محتاط طرزِ زندگی اپنائیں گے،مگر سرکار سے، اپنی قوم کی سگنل فری روش کو بھانپنے میں کوتاہی ہوئی۔ اسی لئے آج جب سرکار چیخ چیخ کر لوگوں کو احتیاطی تدابیراپنانے کی التجا کر رہی ہے، اور سرکاری و نجی دفاتر اور کاروباری مراکز کو اس وباء کے دوران کھولنے کے لئے چند شرائط اور اوقات کار کی پابندی کا کہہ رہی ہے تو سگنل فری معاشرہ اِسے ایک مجذوب کی بڑسے بڑھ کر کچھ نہیں سمجھ رہا۔جہالت کے تمام رنگوں میں ڈوبی آراء، کاروباری طبقہ کی طرف سے دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں۔

مثلاً ”چھ بجے کے بعد کورونا آتا ہے، پہلے کیوں نہیں آتا؟“ ”حکومت ہمیں بھوکا مارنا چاہتی ہے“ وغیرہ وغیرہ۔ہم آئے روز اموات کی بڑھتی ہوئی شرح کو کھلی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں۔ شاید ہی کوئی محلّہ،گلی، گاؤں یا دفتر ایسا ہو جہاں کوروناسے کوئی متاثر نہ ہوا ہو،مگر ہمیں یہ میتیں اورمریض موت کے سگنل کے طور پر بالکل بھی دِکھائی نہیں دے رہے۔ اس کاواشگاف مظاہرہ پچھلے دنوں موسلادھارشادیوں کے ”میلوں“ میں بخوبی دیکھنے کوملا۔ جہاں بند شادی ہالوں میں ہزاروں کا مجمع بغیر ماسک ودیگر احتیاط ہاتھ ملاتا، گلے ملتا،اور قہقہے لگاتا دیکھا گیا۔اگر کسی ”ضعیف العقیدہ“شخص کی جانب سے کوئی احتیاطی تدبیرنظر آئی، تو اسے ہم نشینوں کے ہاتھوں نشانہئ تضحیک بننا پڑتا۔


اگرچہ دیگر معاملاتِ زندگی میں ہم سگنل فری سوچ کو بطورِ عقیدہ مانتے ہیں۔تاہم، اگرہم نے کورونا کے بارے میں یہ سگنل فری روّیہ یوں ہی ثابت قدمی کے ساتھ اپنائے رکھا تو ہو سکتا ہے جن پیاروں کے لئے ہم ایسا فخریہ کر رہے ہیں، ان کی آنکھیں ہمیں دیکھنے کو ترسیں یا ہماری آنکھیں اُنہیں دیکھنے کو ترسیں۔البتہ اگر ہم نے کورونا کے بارے میں آج کچھ ضابطوں پر عمل کرلیا،توہوسکتا ہے، کل، ہماری یہ تعلیم دیگر معاملاتِ حیات میں کسی نظم وضبط کو لانے کا باعث بن جائے۔بھلے اس کے امکانات خال خال ہیں، تاہم عام انسان کی طرح، اُمید رکھنا،میرا بھی حق ہے۔

مزید :

رائے -کالم -