جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ اور نوٹیفکیشن ڈرامے

جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ اور نوٹیفکیشن ڈرامے
جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ اور نوٹیفکیشن ڈرامے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


چند دن پہلے صحافیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اس افواہ کو غلط قرار دیا تھا کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو ختم کرنے کا کوئی نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا تھا کہ سیکرٹریٹ پوری طرح بااختیار ہے اور اس میں افسران پورے اختیارات کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔اب اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو صوبے کے کئی معاملات سے بے خبر رکھا جاتا ہے یا پھر انہوں نے سیاسی مصلحتوں کے تحت یہ بیان دیا،کیونکہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو ختم کرنا پی ٹی آئی کا ایک بہت بڑا یوٹرن تصور کیا جاتا،اب بات کرتے ہیں اُن تین نوٹیفکیشنوں کی جو اِس ضمن میں جاری ہوئے اور دیکھتے ہیں کہ بیچ میں گڑ بڑ کہاں ہوئی ہے۔


سب سے پہلے11ستمبر2020ء کو ایک نوٹیفکیشن نمبر(SP)204/2020(cabI) SO جاری ہوا۔ یہ وہ نوٹیفکیشن تھا جس کا وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے فخر سے اعلان کیا۔ درحقیقت اس نوٹیفکیشن کے ذریعے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی فعالیت کا اعلان کیا گیا اور رولز میں وہ ترامیم کی گئیں،جن کے تحت جنوبی پنجاب کے علیحدہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری،علیحدہ ایڈیشنل آئی جی اور سیکرٹری صاحبان کی تعیناتی کی اجازت دی گئی۔کہا یہی گیا کہ یہ عہدے اپنے مکمل اختیارات کے تحت جنوبی پنجاب منتقل کر دیئے گئے،اسی کے ساتھ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے عہدے پر زاہد زمان اختر اور ایڈیشنل آئی جی کے طور پر ظفر اقبال کی تقرریاں بھی کر دی گئیں،نہ جانے یہ نوٹیفکیشن کیسے ہو گیا، کیونکہ لاہور میں بیٹھی ہوئی بیورو کریسی کے لئے یہ بات بالکل ناقابل ِ قبول تھی کہ اختیارات  اُس سے لے کر جنوبی پنجاب میں بیٹھے افسروں کو دے دیئے جائیں۔ایڈیشنل چیف سیکرٹری ملتان آئے تو انہوں نے بڑے طمطراق سے پریس کانفرنس کی اور یہ خوشخبری سنائی کہ اب جنوبی پنجاب کے عوام کو اپنے کاموں کے لئے لاہور نہیں جانا پڑے گا۔ قانونی ماہرین شروع دن سے اس نکتے پر اعتراض کر رہے تھے کہ صوبے میں ایک چیف سیکرٹری ہوتا ہے،دو کیسے ہو سکتے ہیں،جب وزیراعلیٰ ایک ہے تو دو چیف سیکرٹری ناممکن ہیں،مگر غالباً تحریک انصاف پر اُس وعدے کا دباؤ تھا،جو اُس نے اپنی انتخابی مہم میں کیا اور جنوبی پنجاب کو  سو دِنوں میں علیحدہ صوبہ بنانے کا اعلان کیا۔ اب چونکہ صوبہ بنانا تو ممکن نہیں تھااِس لئے یہ راہ نکالی گئی کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بنا کے عوام کو مطمئن کیا جائے۔اس طرح عجلت میں بیورو کریسی کو اعتماد میں لئے بغیر ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا،جس میں کئی قانونی خلا رہ گئے۔


جب ایڈیشنل چیف سیکرٹری زاہد زمان اختر کو تعینات ہوئے کئی ماہ گذر گئے اور عملاً انہیں اختیارات ملے اور نہ ایڈیشنل سیکرٹری فنانس تعینات کیا گیا تو وہ بددل ہو گئے اور انہوں نے خاموشی سے اپنا تبادلہ کرا لیا۔یہ گویا لاہور میں بیٹھے ہوئے افسران کی پہلی فتح تھی جو انہوں نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو ختم کرانے کے ضمن میں حاصل کی۔ صرف یہی نہیں،بلکہ اُس وقت سے لے کر آج تک کوئی دوسرا ایڈیشنل چیف سیکرٹری بھی تعینات نہیں کیا گیا،جس کے باعث مختلف محکموں کے وہ تمام سیکرٹریز بھی بے بس ہو گئے،جنہیں  جنوبی پنجاب میں سیکرٹری بنا کے تعینات کیا گیا تھا، بلی تھیلے سے باہر اُس وقت آئی جب 29مارچ 2021ء کو ایک نوٹیفکیشن پنجاب کیبنٹ ڈویژن کی طرف سے جاری کیاگیا اور اُس میں گورنر پنجاب کی طرف سے یہ نوید سنائی گئی کہ11ستمبر2020ء کو پنجاب کے رولز آف بزنس میں جنوبی پنجاب کے لئے ترامیم کا جو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا، اُسے واپس لے لیا گیا ہے،

جس کا آسان زبان میں مطلب یہ تھا کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا خاتمہ ہو گیا اور اب لاہور میں بیٹھے ہوئے لاٹ صاحب ہی جنوبی پنجاب کے معاملات بھی دیکھیں گے۔یہ نوٹیفکیشن سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، میڈیا پر چلا تو یو ٹرن لینے والے انگڑائی لے کر بیدار ہوئے۔ سرے سے ایسے کسی نوٹیفکیشن کی موجودگی ہی سے انکار کر دیا۔ جنوبی پنجاب میں مظاہرے ہوئے، پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، اپوزیشن نے سخت ردعمل دیا، مریم نواز نے اپنی پریس کانفرنسوں میں حکومت کے  لّتے لئے تو اس کمبل سے جان چھڑانا مشکل ہو گئی۔ سب سے پہلے عثمان بزدار کو سامنے آنا پڑا کہ معاملہ اُن کی حکومت کا تھا، انہوں نے پریس کانفرنس میں لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم تو جنوبی پنجاب کو مزید اختیارات اور فنڈز دینے والے ہیں اس پر پی ٹی آئی کے ترجمانوں نے واہ واہ کے ڈونگرے برسائے اور کہا اپوزیشن عوام کو گمراہ کرنے کے لئے بے بنیاد خبریں اڑاتی ہے،جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

مگر وہ جو کہتے ہیں کہ سرکار کا کوئی نوٹیفکیشن ایک بار جاری ہو جائے تو حرف غلط کی طرح مٹ نہیں جاتا،بلکہ اسے محنت سے مٹانا پڑتا ہے، سو یہی ہوا، جب نوٹیفکیشن سے عثمان بزدار اور دیگر انصافی وزراء انکار کر رہے تھے،اس کی منسوخی کے لئے پنجاب حکومت کے سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن محکمہ کے کیبنٹ ونگ نے یکم اپریل2021ء کو ایک اور نوٹیفکیشن جاری کیا،جس میں اُس نوٹیفکیشن کو واپس لینے کی خوشخبری سنائی گئی،جو 29مارچ 2021ء کو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے حوالے سے جاری ہونے والے11ستمبر2020ء کو ختم کرانے کی بابت جاری کیا گیا تھا۔اب کون بتائے گا کہ نوٹیفکیشنوں کا یہ کھیل کس کے ایما پر کھیلا جا رہا ہے۔ آج شاہ محمود قریشی ایک وڈیو بیان کے ذریعے جنوبی پنجاب کے عوام کو مطمئن کر رہے ہیں کہ عثمان بزدار کے حکم سے جنوبی پنجاب کا اسٹیٹس بحال کر دیا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ چوہے بلی کا یہ کھیل آخر کیوں کھیلا جا رہا ہے۔جنوبی پنجاب کے عوام سے مذاق کیوں جاری ہے۔آج چھ ماہ ہو گئے ہیں پہلے نوٹیفکیشن کو جاری ہوئے، عوام کو کون سے اختیارات منتقل کئے گئے ہیں۔اگر بالفرض بیورو کریسی وزیراعلیٰ پنجاب کے علم میں لائے بغیر، مگر گورنر پنجاب کی منظوری سے نوٹیفکیشن جاری کر دیتی ہے تو اسے پنجاب حکومت کے اندر حکومت قرار دیا جائے یا سب کچھ مل جل کے ہوا اور شدید ردعمل آنے کے بعد واپس لے لیا گیا۔حکومت پنجاب اس معاملے میں سنجیدہ ہوتی تو ایڈیشنل چیف سیکرٹری کا عہدہ کئی ماہ سے خالی نہ چھوڑتی، دیکھتے ہیں نئے نوٹیفکیشن کے بعد پردہئ غیب سے کیا نکلتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -