مرن والا بندہ چنگا سی مگر!

مرن والا بندہ چنگا سی مگر!
مرن والا بندہ چنگا سی مگر!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہالی ووڈ کی فلم “اوپن ہائیمر”کی بہت شہرت سنی تھی۔ جب یہ لاہور کے سینما گھروں میں لگی تو میں چاہنے کے باوجود مصروفیات اور تساہل کی وجہ سے یہ دیکھنے سے محروم رہا۔ حال ہی میں اس فلم کو آسکر ایوارڈ ملا تو رہا نہ گیا اور میں نے اسے لیپ ٹاپ پر ہی دیکھ لیا۔ اگرچہ فلم کی دلچسپ تاریخی نوعیت، بہترین اداکاری، شاندار فلم بندی اور مسحور کن موسیقی نے دل موہ لیا، جس پہلو نے دل کو دبوچا اور نوچا وہ  اوپن ہائیمر کے ساتھ انکی حکومتی بدسلوکی تھی۔ بالکل ویسے ہی جیسے محسنِ پاکستان عبدالقدیر خان کے ساتھ اپنے ملک میں کی گئی زیادتی تھی۔

ایسے میں بلا ارادہ میرا دل و دماغ اوپن ہائیمر اور عبدالقدیر خان کا موازنہ کرنے لگا کہ کیسے انکے اپنے ممالک، امریکہ اور پاکستان، میں پہلے تو انکو جوہری ہتھیاروں کی قوت سے نوازنے پر سر آنکھوں پہ بٹھایا، ریاست نے فائدہ اٹھایا، مگر بعد ازاں سازشیوں کی شہہ پر شکوک و الزامات میں گھیر کر انکی زندگی سزا بنا دی۔ 

  دونوں سائنسدانوں نے اپنی قوموں کے جوہری پروگراموں میں اہم کردار ادا کیا لیکن انہیں اپنے کام سے پیدا ہونے والے اہم تنازعات اور ذاتی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔

دوسری جنگِ عظیم کے دوران، امریکی پراجیکٹ“مین ھیٹن”میں ایٹم بم بنایا گیا جس میں کلیدی کردار اوپن ہائیمر نے ادا کیا جس کی وجہ سے اسے“امریکی جوہری پروگرام کا باپ”گردانا گیا۔ اس نے لاس الاموس لیبارٹری کی قیادت کی، جہاں اس نے ہیرو شیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے ایٹم بموں کے ڈیزائن اور تیاری کی نگرانی کی۔ جنگ کے بعد اسے یونائٹیڈ سٹیٹس اٹامک انرج کمیشن کا چیف ایڈوائزر بنا دیا گیا، جہاں اس نے جوہری طاقت کے بین الاقوامی کنٹرول کی وکالت کی اور ہائیڈروجن بم کی تیاری اور ترقی کی بھرپور مخالفت کی۔ 

1950 کی دہائی کے اوائل میں کمیونسٹ مخالف جذبات میں اضافہ ہوا تو اوپن ہائیمر کو بھی زد میں لے لیا گیا۔ کمیونسٹ اور بائیں بازو کے گروپوں کے ساتھ اوپن ہائیمر کی ماضی کی وابستگی پر شد و مد سے تحقیق و تفتیش کی گئی۔ 1954 میں اسکی سیکورٹی کلیر نس کو ایک کارروائی کے بعد منسوخ کر دیا گیا۔ اسکے حکومت میں کردار کو موثر طریقے سے ختم کر دیا گیا۔ اسکو اس سائنس کمیونٹی سے ہی الگ کر دیا گیا جسکی اس نے قیادت کی تھی۔ اسکو ہیروشپ کی رفعتوں سے دھتکار کر ذلتوں کی پستیوں میں دھکیل دیا۔ بالکل ایسے ہی عبدالقدیر خان کو پاکستان میں ایسے انجام سے دوچار کیا گیا۔ 

انہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا موجد اور باپ سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے یورینیم کی افزودگی کے لئے ملک کی صلاحیتوں کو نمایاں طور پر آگے بڑھایا۔ KRL خان ریسرچ لیبارٹری کی بنیاد رکھی جس نے پاکستان کے پہلے جوہری ہتھیار میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ 1998 میں آخر اس کا کامیاب تجربہ کیا گیا اور پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر بن گیا۔ 

مگر 2004 میں انہیں ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو جوہری صلاحیت فراہم کرنے کا الزام لگا کر جبری اعتراف کروایا گیا۔ محسنِ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔ کردار داغدار کر دیا گیا۔ اس وقت کے حاکم نے ان سے سرِ عام معافی منگوا کر معاف کر دیا۔ مگر یہ محدود اور مشروط معافی تھی۔ انکو رہائش گاہ میں نظر بند کر دیا گیا۔ انکی نقل و حرکت اور بیرونی دنیا کے ساتھ بات چیت کو محدود کر دیا گیا۔ اسی اذیت میں وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔

ہم اپنی بات کرتے ہیں۔ قدیر خان نے ملک کو جوہری قوت عطا کی جس سے اسکی دفاعی اور عسکری استعداد میں بے پایاں اضافہ ہوا۔ مگر انکو سازشوں، شکوک اور شبہات پر ہزیمت و اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم ان کی وفات کے بعد انکی بے گناہی اور عظمت کا کچھ احساس ہوا۔ میں یہ سوچنے پہ مجبور ہوں کہ جس معاشرے میں اپنے آپکو منوانے کے لئیے مرنا پڑے وہ معاشرہ مردہ دلوں، آدھ موئے ضمیروں اور خوابیدہ سوچوں کی آماجگاہ ہے۔ ایسا بانجھ معاشرہ اعلیٰ پائے کے مفکر، محقق، مفسر، افسر اور رہنما پیدا کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ یہاں نابغہ روزگار ناپید ہو جاتے ہیں۔ تا حدِ نظر بے حس بونوں کی ایسی رذیل فصل پھلتی پھولتی ہے جو اپنے ناعاقبت اندیش آقاؤں کے گنہگار کندھوں پہ سوار ہو کر قد آور کے قد اور قدر کو گھٹنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اور اکثر اپنے مقاصد میں کامیاب رہتے ہیں۔ 

  سالہاسال سے جاری اس ریت و روایت نے کامیابی کے اجزائے ترکیبی اور پیمانے یکسر بدل دئیے ہیں۔  جب چغلی، چرب زبانی اور چالاکی سے سفر طے ہونے لگے تو جرات اور محنت شاقہ سے نئی راہوں کو تلاشنے اور تراشنے کے جذبے ماند پڑ جاتے ہیں۔ جدت اور جرات خطرات اور خرابات سے عاری نہیں ہوتے۔ کیا جانے کب کوئی اہل حکم جدت کو بدعت قرار دے دے اور آپ کو جواب دہ ہونا پڑ جائے جیسے عبدالقدیر خان کے ساتھ ہوا۔ نہ جانے کتنے قد آور ادیب، شاعر، محقق، افسر اور فنکار اس بے حس بونا کلچر کے شکار ہو گئے اور کتنے بونے اپنے خالقوں کی مجرمانہ مدد سے خالی سینوں پہ جھوٹے تمغے اور ستارے سجائے اہلیت و قابلیت کا منہ چڑاتے رہے۔ ہنس ہنس کے کہتے رہے بندہ چنگا سی پر تھا تھوڑا ٹیڑھا۔ اس سارے گھناؤنے کھیل میں معاشرے کو معلوم بھی نہ ہوا کہ کتنا نقصان ہو گیا، ایمان کا، ایقان کا، انسان کا

مزید :

رائے -کالم -