اسلام آباد کا ایک غیرسیاسی مسئلہ
دارالخلافہ میں رہائش کسی بھی شہری کیلئے وجہئ افتخار ہوتی ہے۔ اسلام آباد میں رہنے والے کو کئی Advantages حاصل ہوتے ہیں۔ اسلام آباد نسبتاً نیا شہر ہے اور باقاعدہ منصوبہ بندی سے آباد کیا گیا ہے۔ منصوبہ بندی میں کچھ ایسی چیزیں شامل کر دی گئی ہیں جو کسی اور شہر میں نہیں مثلاً اسلام آباد میں تانگا ریڑھا اور رکشہ چلانا ممنوع ہے، ٹرک بھی شہر کے اندر نہیں آ سکتا، مویشی پالنا بھی ممنوع ہے حتیٰ کہ مرغیاں رکھنے کی بھی اجازت نہیں پھر شہر کو ایک قدرتی Edge بھی حاصل ہے کہ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے زمین اونچی نیچی ہے اور پانی کیلئے نالے ہیں لہٰذا جتنی بارش آ جائے۔ لاہور اور کراچی کی طرح اس کی گلیاں پانی سے نہیں بھرتیں بلکہ چند گھنٹوں میں پانی نالوں میں بہہ جاتا ہے۔ ڈسٹ بھی دوسرے شہروں سے کم ہے۔ حکومت سے جغرافیائی قرب کے بھی کچھ فائدے ہیں لیکن یہاں ایک مسئلے نے شہریوں کی ”ناک میں دم“ کر رکھا ہے وہ ہے پولن الرجی۔
بہار آتی ہے تو اسلام آباد کے راستے پھولوں سے اور ہسپتال الرجی کے مریضوں سے بھر جاتے ہیں۔ نیا شہر تھا اِسے سرسبز بنانے کے عمل میں فیصلہ سازوں نے ایک ایسی غلطی کی جس کی سزا پورا شہر ہر سال بھگت رہا ہے اور لگتا ہے یہ عمل جاری رہے گا۔ سی ڈی اے نے شہر کو سرسبز بنانے کے لئے 70 کی دہائی میں یہاں جنگلی شہتوت کا بیج جہازوں کے ذریعے پھینکا کیونکہ یہ جلدی اُگتا ہے اور اِسے زیادہ پانی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ پیپرملبری(Paper Mulberry)دراصل شمال مشرقی ایشیا کا پودا ہے اگرچہ بھارت میں یہ بہت پہلے پہنچ چکا ہے کہا جاتا ہے کہ اس پودے سے ایک وباء پھیل گئی جس میں لوگوں کے ناک بہنے لگے، مسلسل چھینکیں آنے لگیں اور سانس پھولنے لگی چونکہ یہ ایک نئی بات تھی لہٰذا شروع میں شہر میں خوف پھیلنے لگا کہ یہ کونسی وباء ہے۔ اخبارات میں اِس کا چرچا ہونے لگا۔ کچھ عرصے بعد یہ دریافت ہوا کہ یہ جنگلی شہتوت کا ”فیض“ ہے یہ ایسا زہریلا پودا ہے کہ اِس پر پرندوں کا کوئی گھونسلہ نہیں، پتہ نہیں اِس کے اثرات سے پرندوں پر کیا گزری ہو گی۔
یہ مسئلہ مارچ سے شروع ہو کر وسط اپریل تک رہتا ہے اِس بیماری سے نزلہ، زکام اور دمے کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ یہ بلڈپریشر میں اضافے اور دل کے دورے کا بھی باعث بن جاتا ہے۔ اگرچہ مصدقہ اعدادوشمار دستیاب نہیں کہ اِس بیماری کے نتیجے میں کتنی اموات ہوئیں لیکن ایک سٹڈی کے مطابق اس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 2018ء میں ایک لاکھ تیس ہزار تک پہنچی ہے۔ دوائیوں کے ساتھ ساتھ اگر مریض اِس دوران لاہور یا کسی اور جگہ چلا جائے تو وقتی فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ بیماری کا Cycle ٹوٹ جاتا ہے لہٰذا اکثر لوگ اپنے آبائی گاؤں شفٹ ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاج کے لئے کم از کم ایک ماہ کیلئے مسلسل Anti Histamine اور Anti allergic دوائیاں کھانی پڑتی ہیں۔ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ اگر موسم شروع ہونے سے دو ہفتے پہلے Ars Album شروع کر لی جائے تو اِس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ بیماری حملہ آور نہ ہو۔پیپرملبری(Paper Mulberry)کے علاوہ گرمیوں میں بھنگ کے پودے سے بھی یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے لیکن اِس کی شدت کم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی مضرصحت پودے ہیں لیکن سب کو کاٹنا مشکل ہے۔
جب اس مسئلے کی شدت واضح ہو گئی تو سی ڈی اے نے اِس پر قابو پانے کے لئے کوششیں شروع کر دیں۔ سی ڈی اے کے انوائرمنٹ کے شعبے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عرفان عظیم نیازی نے بتایا کہ اس پر 2006ء میں پیپرملبری(Paper Mulberry) کے کافی درخت کاٹے گئے آغاز سکولوں کے نواحی علاقوں سے ہوا لیکن اِس پر کئی NGO`s نے شور مچایا۔ سٹی کونسل کے نام سے ایک تنظیم نے ایڈووکیٹ ریاض حنیف رائی کی قیادت میں 2013ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ کر دی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔ عدالت نے ماہرین کی ایک ماحولیاتی مینجمنٹ کمیٹی تشکیل دے دی۔ چیف کارپوریشن آفیسرکو کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ کمیٹی نے اس پر ماہرین کے کئی اجلاس منعقد کئے۔ پبلک ہیرنگ کی اور 2023ء میں فیصلہ دیا کہ یہ درخت کاٹے جائیں۔ سی ڈی اے نے اس فیصلے کی روشنی میں ایف 9 پارک میں مضرِصحت درختوں کی کٹائی اور اِن کی جڑوں کو اکھاڑنے کا فیصلہ کیا اور یہ بھی طے کیا کہ ایک درخت کی بجائے تیس درخت لگائے جائیں گے لیکن ممتاز صحافیوں رؤف کلاسرا اور قیوم صدیقی نے اِس مسئلے پر اعتراض اُٹھایا کیونکہ پارک میں درخت کاٹنا غیرقانونی ہے جس پر سپریم کورٹ نے سوموٹو نوٹس کے ذریعے یہ عمل روک دیا۔ کورٹ نے آئی جی فاریسٹ اور سابق آئی جی فاریسٹ پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی ہے۔ کمیٹی نے چند دن پہلے فیصلہ کیا ہے کہ درختوں کی کٹائی کا عمل دوبارہ شروع کیا جائے۔پیپرملبری(Paper Mulberry) کے خاتمے کا عمل وقفے وقفے سے جاری ہے تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ اسلام آباد کے شہریوں کی ”سزا“ کب ختم ہو گی۔ میں نے 1986ء میں اسلام آباد میں ڈیرہ ڈالا لہٰذا اب میرا شمار بھی ان پرانے باسیوں میں ہوتا ہے جنہیں اِس مصیبت کا سامنا ہے۔