ڈوبتے سورج کی ہلکی سی سرخ روشنی میں ننھے بچوں کو با جماعت نماز پڑھتے دیکھنا ہم جیسوں کیلیے بہت بڑا سبق ہے اگر ہم حاصل کرنا چاہیں 

 ڈوبتے سورج کی ہلکی سی سرخ روشنی میں ننھے بچوں کو با جماعت نماز پڑھتے دیکھنا ...
 ڈوبتے سورج کی ہلکی سی سرخ روشنی میں ننھے بچوں کو با جماعت نماز پڑھتے دیکھنا ہم جیسوں کیلیے بہت بڑا سبق ہے اگر ہم حاصل کرنا چاہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:230
عربوں کی سماجی اقدار
میں ہمیشہ سے سعودیوں کی 2 خوبیوں کا معترف رہا ہوں جن کی وجہ سے رب بھی ان سے بہت راضی ہے اور انھیں بے شمار نعمتوں سے نوازتا ہے۔ ایک تو ان کی باجماعت نماز کی ادائیگی تھی، ہر ایک کی کوشش ہوتی تھی کہ نماز کے وقت جب ایک سے زیادہ لوگ جمع ہو جائیں تو وہ با جماعت نماز پڑ ھ لیں۔ حتیٰ کہ صحرا میں بھی جو چھوٹے بچے باہر بکریاں چراتے پھرتے ہیں، نماز کے وقت ایک بچے کو امام بنا کر باقی اس کے پیچھے کھڑے ہو کر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک دیکھنے اور سمجھنے والا منظر ہوتا تھا، بھلا ایسے صحرا میں اللہ کے سوا اور کون انھیں دیکھ رہا ہوتا تھا، وہ نماز نہ بھی پڑھیں تو کون پوچھنے والا تھا۔ڈوبتے سورج کی ہلکی سی سرخ روشنی میں ننھے بچوں کو یوں نماز پڑھتے دیکھنا ہم جیسوں کے لیے ایک بہت بڑا سبق ہے اگر ہم حاصل کرنا چاہیں۔خواتین بھی پیچھے نہ تھیں، بازاروں میں ہر مسجد میں ان کی نماز کی ادائیگی کے لیے ایک علیٰحدہ حصہ مخصوص تھا جہاں وہ بھی امام صاحب کی معیت میں با جماعت نماز ادا کیا کرتی تھیں۔ہاں یہ دیکھ کر عجیب سا محسوس ہوتا تھا کہ سعودی اپنی نماز زیادہ تر فرض کی ادائیگی تک ہی محدود رکھتے تھے اور وضو کے مسئلے میں بھی کوئی ایسا خاص تردد نہیں کرتے تھے۔ پانی کو وہ بہت احتیاط اور انتہائی ضرورت کے تحت ہی استعمال کرتے تھے۔ان کی یہ عادت اتنی پکی ہو گئی تھی کہ دفاتر یا گھروں میں بھی، جہاں پانی وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے، جب وہ وضو کرتے تو چلو بھر پانی لینے کے فوراً بعد نلکا بند کر دیتے اور وضو کے فرائض اسی طر ح پورے کرتے۔ وضو کے دوران ان کا نلکا ہماری طرح فضول نہیں بہتا رہتا تھا، ظاہر ہے جب دیہاتوں میں قریب ترین کنواں بھی پچاس ساٹھ کلومیٹر پر ہو گا تو پانی کی قدر خود ہی آ جاتی ہے۔
دوسری خوبصورتی جو ان کے کردار میں تھی، جس کا میں نے مشاہدہ کیا اور سب نے ہی محسوس بھی کیا، کہ وہ سنت رسولﷺ کے مطابق ناپ تول کے معاملے میں انتہائی ایمانداری سے عمل کرتے تھے۔ وہ بھی دنیا کے دوسرے لوگوں کی طرح چیزوں کی قیمتوں پر بے تحاشہ جائز یا ناجائز مول تول کرتے ہیں لیکن جب ایک دفعہ قیمت طے پا جاتی ہے تو پھر وہ پیچھے نہیں ہٹتے۔ آپ جو چیز بھی خریدیں وہ طلب کردہ مقدار سے زیادہ ہی ہو گی کم ہرگز نہیں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ 3 میٹر کپڑا گھر آ کر ناپیں گے، تو سوا تین میٹر نکلے گا اسی طرح ایک کلو سیب سوا یا سبزیاں ڈیڑھ کلو تو ہو سکتی ہیں لیکن کلو سے کم ہرگز نہیں،جب کہ پاکستان میں لالچ اتنا سرایت کر گیا ہے کہ خریدی ہوئی ہر چیز گھر جا کر دیکھیں تو اس کی مقدار ہمیشہ کم ہی نکلتی ہے۔
سعودی بھی انسان ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ خاص حالات میں رہتے ہوئے اپنے معاشرے کے اندر کچھ منفی روایات بھی قائم ہو گئی ہیں۔ عام طور پر ان کا اخلاق بہت اچھا ہوتا ہے تاہم کمپنی کے ملازمین ہوں یا گھریلو نوکر وہ ان کے ساتھ برے سلوک میں ظلم کی حد تک بے رحم اور سنگ دل ہو جاتے ہیں۔کسی کی تنخواہ روکنا ہو، چھٹی دیناہو یا کوئی اور ایسا ہی کام ہو تو زیادہ تر سعودی تنگ اور سنگ دلی کی انتہا کر دیتے ہیں، اسی طرح قسمت کے مارے گھریلو ملازمین ان کے جبر و تشدد کا سب سے زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔چند سو ریالوں کی خاطر بیس بیس گھنٹے کام لینا اور پورا سال تنخواہ نہ دینے کے علاوہ ذہنی اور بعض اوقات جسمانی تشدد کرنا بھی وہاں معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ نتیجتاً کئی گھریلو خادمائیں بھاگ کر اپنی ایمبیسیوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ میری سامنے بھی ہوا تھا، جب میں اپنے ہفتے وار اخبار لینے کے لیے پاکستانی سٹور پر گیا تو ایک لڑکی عبایہ میں بھاگتی ہوئی سٹور میں داخل ہوئی اور آتے ہی چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ وہ لاہور کی ہے اور بقول اس کے اس نے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کیا ہوا تھا۔ ایک سعودی فیملی اس کو بچوں کی گورنس کے طور پر لائی تھی اور پھر اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئیے اور اس سے زیادتی کی کوشش بھی کی گئی۔ وہ اپنے ساتھ انگریزی میں لکھے ہوئی کچھ خطوط بھی لائی تھی جس میں اس نے اپنے بارے میں سب کچھ تحریر کیا ہوا تھا، وہ خطوط اس نے جلدی سے سٹور کے مالک کو تھما دئیے۔وہ واضح طور پر سخت خو فزدہ تھی اور پناہ کے لیے کہہ رہی تھی۔ کچھ ہی دیربعد کچھ سعودی مرد اور خواتین بھی اس کے پیچھے وہاں آ پہنچے اور اس کو گھسیٹ کر لے جانے لگے۔ سٹور کے مالک کو کچھ غیرت آ گئی اور وہ سامنے کھڑا ہو گیا کہ میں اسے نہیں جانے دوں گا، پولیس کو بلا لیا گیا، لڑکی نے سعودیوں کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا۔ سعودیوں نے کہا کہ ہمارا اس کو یہاں لانے پر 5ہزار ریال خرچ آیا ہے آپ یہ رقم ہمیں دے دیں ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ سٹور مالک نے بڑے پن کا مظاہر کرتے ہوئے وہ پیسے ان کو ادا کر دئیے اور پولیس کی موجودگی میں سمجھوتہ کر کے لڑکی کو اپنی فیملی کے پاس گھر بھیج دیا، اور بعد ازاں اسے لاہور روانہ کر دیا گیا۔ خطوط میں اس نے اپنے ساتھ غیر اخلاقی اور ظالمانہ سلوک کی پوری داستان لکھی تھی۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -