بجلی کے جلوے!
لوڈ شیڈنگ نے سب کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیئے ہیں اور چودہ طبق اندھیروں کی نذر ہو گئے ہیں۔یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس نے ہر کسی کے ہوش وحواس مختل کر دیئے ہیں۔کسی کو بھی اس مسئلے کا حل سجھائی نہیں دیتا، صدر نے اعلی سطحی کانفرنسیں کر کے دیکھ لیں اور وزیر اعظم نے انرجی کانفرنسوں کا پلیٹ فارم سجایا، مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔یا تو واپڈا اور اس کی ذیلی کمپنیوں کے سر پہ جوں تک نہیں رینگتی یا پھر ہم سب اصل حقائق سے بے خبر ہیں اور بجلی ہمارے پاس ہے نہیں اور ہم اس کا اقرار کرنے یا اس حقیقت کو قبول کرنے کو تیار نہیں، بس اس مسئلے پر سیاست چمکائی جا رہی ہے، ایک بڑے صوبے کی حکومت محض ٹینٹ سروس اورموم بتی کے کاروبار کو فروغ دے رہی ہے ورنہ اٹھارہویں ترمیم سے پہلے اور بعدمیں وہ سنجیدہ ہوتی تو کم از کم ایک میگاواٹ کا اضافہ تو کر کے دکھاتی۔ وہ پنجاب بنک بنا سکتی تھی، اور لاہور کی سڑکوں کوکھڈوں اور گڑھوں میں تبدیل کرنے کے لئے خود مختار اور آزاد تھی تو اسے بجلی بنانے سے کس نے روکا تھا۔ بجلی کی کمی ایک سنگین مسئلہ ضرور ہے، لیکن اس پر ہنگاموں کا کوئی جواز نہیں، کوئی ذی ہوش شخص اس گھیراﺅ جلاﺅ کی حمایت نہیں کر سکتا۔دوسری طرف وفاقی حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ خالی خولی اعلانات نہ کرے، ان پر عمل بھی کروائے، یہ اعلان باربار ہو چکاہے کہ سحر اور افطار میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی، لیکن میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ جب کبھی اسلام آباد سے لاہور آنا ہوا تو ادھر افطاری کا اعلان ہوا، ادھر بتی چلی گئی اور روزہ دار پورا اعلان بھی نہ سن پائے،یہی حال سحری کا ہے،یہ مبارک ساعتیں ہیں اور اس دوران بتی غائب کر کے کون سے عناصر ہیں جو اذیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ، انہیں حکومتی احکامات کا ڈر نہیں ، مگر خوف خدا تومحسوس کریں اور روزہ داروں کو صرف ایک ماہ کے لئے تو بخش دیں۔ واپڈا اور اس کے ذیلی ادارے سراسروفاق کے کنٹرول میںہیں ، ان کی طرف سے حکم عدولی سمجھ سے باہر ہے، یہ شرارت اور سازش کے سوا اور کیا ہے۔ وفاقی حکومت نے بجلی کے نظام کو کنٹرول کرنے کے لئے اعلی اختیاراتی بورڈ تشکیل دیا ہے، مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایک عوامی حکومت براہ راست اپنے ووٹروں سے کہتی کہ وہ اس نظام کو مانیٹر کریں ، کونسا ایسا حلقہ ہے جہاں سے حکمران اتحاد کو اوسط اعتبار سے ساٹھ ستر فیصدووٹ نہیںپڑے ہیں اور یہ ووٹر حکومت سے کبھی غلط بیانی نہیں کریں گے، حکومت کو ہر مسئلے کی اصل حقیقت جاننے کے لئے سرکاری کمیٹیوں کے ساتھ ساتھ عوامی کمیٹیوں کا نظام بھی تشکیل دینا چاہئے،یقین جانیے عوامی دانش کا کوئی مقابلہ نہیں۔ دوسرے حکومت کو تھوڑی سی دلیری سے کام بھی لینا چاہئے اور یہ حقیقت لوگوں کے سامنے لانی چاہئے کہ بجلی کا بحران ایک روز میں پیدا نہیں ہوا، یہ ماضی کی حکومتوں کا ورثہ ہے، ویسے جس حکومت کو سوا چار سال مل جائیں وہ سارا الزام ماضی پر بھی نہیں ڈال سکتی، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ موجودہ حکومت نے سسٹم میں تین ہزار میگا واٹ کا اضافہ کیا ہے اور رینٹل منصوبوں کے ذریعے فوری حل نکالنے کی کوشش کی گئی، مگر پہلے ہمارا میڈیا آڑے آیا اور پھر عدالتی فیصلوں نے یہ راستہ بند کر دیا، اب کئی ایک منصوبے زیر تکمیل اور زیر غور ہیں ، ان میں تھر کول کا منصوبہ نہائت اہم ہے، اسی طرح صدر مملکت نے عوامی جمہوریہ چین کے پانچ دورے صرف یہ دیکھنے کے لئے کئے کہ وہاں سمال ڈیمز کے منصوبے کیسے کام کرتے ہیں، ان کی تحقیقات کا فائدہ اٹھانے میں حکومت کو تاخیر نہیں کرنی چاہئے، چھوٹے پراجیکٹ تو صوبے بھی بنا اور چلا سکتے ہیں، اس لئے صدر مملکت اپنی اسٹڈی صوبوں سے شیئر کر لیں تو صوبوں کو اس سلسلے میں نئے سرے سے تحقیق اور جستجو کے عمل سے نہیں گزرنا پڑے گا۔وار آن ٹیرر کے سلسلے میں پاکستان نے امریکہ کی بڑی مدد کی ہے، اگر اس کے بدلے میں ہم یہ کہیں کہ ہمیں صلہ نقد دو یا نہ دو ،لیکن بھارت کی طرح نیوکلیر ٹیکنالوجی دے دو یا یہ بھی منظور نہیں تو پھر لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے بچنے میں کسی بھی طرح کی مدد کرو، یہ مطالبہ بالکل جائز ہوگا، اب نیٹو سپلائی کے لئے نیا معاہدہ ہوا ہے تو پاکستان کو نیٹو اور امریکہ کے سامنے اپنا دکھڑا پیش کرنا چاہئے۔اگر امریکہ اور نیٹو کو ہماری وجہ سے فائدہ ہو رہا ہے تو اس کے صلے میں ہمارے عوام کو فائدہ کیوں نہ پہنچے۔ہم اندھیروں میں رہیں اور ان کے شہر اور قصبے بقعہ نور بنے رہیں ، یہ کہاں کا انصاف ہے۔حکومت کو یہ نکتہ بھی عوام کے سامنے رکھنا چاہئے کہ اس وقت جتنا بھی ریلیف مل رہا ہے، وہ ان تھرمل منصوبوں کی وجہ سے ہے جن کی کرپشن کے الزامات محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور جناب آصف علی زرداری پر کئی برسوں سے لگتے چلے آرہے ہیں اور گڑھی خدا بخش کی قبروں کا ٹرائل بھی کرنے کی کوشش نظر آر ہی ہے، یہ الزامات بیس برس تک ثابت نہیں ہو سکے، لیکن عمر عیار کی زنبیل ہر کوئی کھول لیتا ہے۔ بہرحال کہنے کا مطلب یہ ہے کہ منگلا اور تربیلا کے بعد اگر نیشنل گرڈ میں بجلی کا معقول اضافہ ہواتو وہ محترمہ شہید کے دور کا کریڈیٹ ہے، موجودہ حکومت کو کسی نے شارٹ ٹرم منصوبہ بندی کرنے نہیں دی ۔اس لئے اب سارا زور مستقبل کے منصوبوں پر ہے جن کاآج نہ تو عوام کو کوئی فائدہ ہے ، نہ کل کو الیکشن میں پیپلز پارٹی کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے، بلکہ الٹا نقصان کا اندیشہ لاحق ہے۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ملک اس وقت تندور بنا ہوا ہے، عوام اس میں جھلس رہے ہیں ، روزہ دار خوار ہو رہے ہیں، صنعت کا پہیہ جام ہے، کاروبار ٹھپ ہوتا جا رہا ہے اوردفتری اور گھریلو زندگی ایک جہنم بن کر رہ گئی ہے۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اس سے پہلے بجلی کے وزیر رہ چکے ہیں ، وہ مسائل سے پوری طرح آگاہ ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ حکومت کہاں تک جا سکتی ہے، عوام سے کیا وعدہ کیا جاسکتا ہے اور ان کو کس حد تک ریلیف دیا جا سکتا ہے، وزیر اعظم سے زیادہ کون اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ اب پارٹی کو الیکشن میں عوام کے سامنے بھی جانا ہے ، اس لئے کسی بھی نقصان سے بچنے کے لئے تیز رفتار اور ہنگامی اقدامات کرنا ہوںگے، ایک سو بیس کلو میٹر کی رفتار کا تو خود وزیر اعظم نے وعدہ کیا ہے، وہ اوور اسپیڈنگ نہ بھی کریں تو عوام کی کسی حد شنوائی ہو سکتی ہے اور وہ بھی بجلی کے جلوووں سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ ورنہ سر دست تو بجلی نے ان کو دن میں بھی تارے دکھا دیئے ہیں۔