مولانا عبدالمالک مجاہد کی داستان جد وجہد
قرآن حکیم۔ انسانی دنیا کا اہم ترین اور منفرد ابلاغ۔ خالق کائنات کا اپنی مخلوق کے لئے نادر تحفہ۔ اہل ِ ایمان کے لئے بے مثل ضابطہ حیات اور مکمل رہنمائی۔خود سے رجوع کرنے اور سمجھ کراپنی ہدایات پر عمل کرنے والوں کی کامیابی اور ہر طرح کی فلاح کا ضامن۔مسلمانوں نے قرآن کا پیغام دُنیا کے ہر خطے میں اور ہر قوم تک پہنچانے کے لئے تاریخ میں قربانیوں اور قوت ایمانی کی لازوال مثالیں قائم کی ہیں۔ مولانا عبدالمالک مجاہد اور ان کاادارہ دارالسلام اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان میں حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے مولانا عبدالمالک گذشتہ چالیس برس سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ وہ دُنیا کی چھبیس زبانوں میں قرآن حکیم کا مستند ترجمہ کروا کر،اعلیٰ ترین معیار کی طباعت کے ساتھ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں اس کی لاکھوں کاپیاں بھجوا چکے ہیں۔کسی ایک زبان میں بھی قرآن کا مستند ترجمہ کرانے کا کام بہت بڑی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ بہت محنت، کروڑوں کی سرمایہ کاریً اور وقت طلب کام تھا۔مولانا عبدالمالک مجاہد نے دُنیا کے بہترین معیار طباعت و اشاعت کو ذہن میں رکھتے ہوئے، والہانہ لگاؤ اور محبت کے ساتھ اس کام کے لئے اپنی زندگی وقف کئے رکھی۔ انہوں نے پاکستان میں کتابت (خوشنویسی) سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا،خود اپنے ہاتھ سے بھی قرآن حکیم کی کتابت مکمل کی۔ دارالسلام کے نام سے پبلشنگ ہاؤس قائم کیا، جس کی شاخیں دُنیا کے بہت سے ممالک میں قائم ہیں۔ وہ مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے سیکرٹری روف طاہر سے دیرینہ روابط رکھتے ہیں جن کی دعوت پروہ ٹرسٹ کے شعبہ تحقیق و تجزیہ میں تشریف لائے۔
اپنے بین الاقوامی سطح کے ادارے کی جد و جہد اور کامیابیوں کی تفصیلات بتانے سے پہلے انہوں نے بتایا کہ وہ بچپن ہی سے موالانا ظفر علی خان کے بے حد مداح رہے ہیں۔ ان کا تعلق حافظ آباد سے ہے، لیکن وہ اپنے عزیزوں کے گھر سوہدرہ اکثر جایا کرتے تھے، کرم آباد راستے میں پڑتا ہے، وہ ہمیشہ مولانا کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد آگے جاتے تھے، انہوں نے کہا کہ ان کے والد بچپن میں گھنٹوں انہیں مولانا کی بے پناہ قابلیت اور بہادری کی باتیں بتایا کرتے تھے۔انہوں نے کہا کہ وہ چالیس سال سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ایک موقع پر انہوں نے وہاں کے اردو روزنامہ ”اُردو نیوز“ کو خط لکھا کہ وہ اس میں سیرت پر روزانہ کالم لکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے چند روز بعد اس اخبار سے مجھے روف طاہر صاحب کا فون آیا کہ میں ان کے اخبار میں سیرت پر ہفتہ وار کالم لکھوں۔ لہٰذا مَیں نے اس میں ”سیرت کے اوراق“ کے عنوان سے ہفتہ وار کالم شروع کیا جو اخبار کے بند ہونے تک اس میں جاری رہا۔ اسی کالم کی تحریروں پر مشتمل میں نے ایک کتاب بھی مرتب کی۔ ویسے ان کی کل ذاتی تصنیفات اور تالیفات چالیس ہیں۔ مولانا عبدالمالک مجاہد نے کہا: میری داستان میرے ادارے دارالسلام سے شروع ہوتی اور دارالسلام پر ختم ہوتی ہے۔ میری دِلی خواہش تھی کہ زندگی میں قرآن و سنت کی اشاعت کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کرجاؤں۔ اللہ کا لاکھ شکر ہے کہ اس سلسلے میں بہت کچھ کرنے کی توفیق ملی۔
ہمارا ادارہ اس سلسلے میں اب تک سترہ سو مختلف کتب شائع کرچکا ہے۔ قرآن حکیم کا چھبیس زبانوں میں ترجمہ شائع ہوچکا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک نہیں، جس میں دارالسلام کا لٹریچر نہ پہنچا ہو۔ اس وقت سعودی عرب میں دارالسلام کی تیرہ برانچیں ہیں۔صرف ریاض میں چار برانچیں ہیں۔ ان کتب میں اردو کے علاوہ انگریزی، عربی، فارسی، ہندی، بنگالی، چینی اور سپینش وغیرہ میں ترجمہ کی گئی کتب بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب میں آنے والے زائرین اورًحجاج بھی اپنے ساتھ کتب کی فہرست لے کر آتے ہیں اور ہر سال ہزاروں کتب خرید کر لے جاتے ہیں۔تاہم پاکستانی نسبتا کم کتابیں پڑھتے ہیں۔ مدینہ اور مکہ میں دارالسلام کی برانچوں کے علاوہ بھی کوئی ایسا بک سٹور نہیں، جس پر دارالسلام کی کتب نہ ہوں۔ اسلامک لٹریچر کی پیاس دنیا میں ہر جگہ موجود ہے۔ اسلام آباد میں ہماری برانچ سے چینی لوگ بھی بڑی تعداد میں اسلامک لٹریچر خرید کر لے جاتے ہیں۔ بیس پچیس برس قبل جب امریکی فوجی مڈل ایسٹ آئے، مسلمانوں نے ان میں کام کیا، ان میں اسلامک لٹریچر تقسیم کیا گیا،جس کے نتیجے میں دو سو امریکی فوجی مسلمان ہوئے۔
ایک موقع پر مَیں نے ایک پاکٹ بک دیکھی جو پچیس گرام کاغذ پر چھپی ہوئی تھی، اس کے متعلق میں نے معلوم کیا یہ کاغذ فرانس میں بنا تھا لیکن کتاب ہالینڈ میں چھپی تھی۔ میں نے اس کاغذ پر جیبی سائزکا قرآن شائع کرانے کا پروگرام بنایا۔ فرانس سے یہ کاغذ منگوایا اور اس کی پرنٹنگ ہالینڈ سے کرائی۔ ابتداً تیس ہزار کاپیاں شائع کرائی گئیں جو دو اڑھائی ماہ میں نکل گئیں۔ ویسے اب تک ہم قرآن کی 30 لاکھ کاپیاں شائع کرچکے ہیں۔اب کتب کا مطالعہ دُنیا میں کم ہوچکا ہے، لیکن دین اسلام کا مطالعہ ایسا ہے جو کبھی کم نہیں ہوتا۔اس وقت ہمارے ادارے کی شائع کردہ کتب ایک منٹ میں دوسو سات کی اوسط سے بک رہی ہیں۔ ہمارے ادارے کی برانچیں لندن، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، سنگاپور، ہانگ کانگ، ملائیشیا وغیرہ میں قائم ہیں بہت سی جگہوں پر ہم نے فرنچائز دے رکھی ہے۔ میری کامیابی میں اچھے ساتھیوں اور ملازموں کا بہت ہاتھ ہے۔ دنیا بھر میں ہمارے نمائندے، مترجم اور ملازمین موجود ہیں۔قرآن مجید کا ترجمہ بہت حساس اورذمہ داری کا کام ہے۔ کسی ایک زبان میں ترجمہ کرانے کے لئے کم از کم تین سال تک کا وقت صرف ہوتا ہے۔ کم از کم کروڑ ڈیٹرھ کروڑ روپے کے مصارف ہوتے ہیں۔