جب بھٹو کو کمرہئ عدالت سے نکال دیا گیا
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو رہی تھی بھٹو صاحب پر نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں مقدمہ چل رہا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کی قیادت میں پانچ رکنی بنچ خصوصی سماعت کر رہا تھا۔ عدالتی کارروائی کے دوران چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین سارا وقت سنجیدہ اور سخت رویہ اختیار کئے رکھتے تھے۔ ان کی ہدایت پر سرکاری وکلاء، بھٹو صاحب کے وکلاء اور صحافیوں کے لئے خصوصی کارڈز جاری کئے گئے تھے اور ان ہی کے لئے نشستیں مخصوص کی گئی تھیں۔ عدالتی کارروائی ہر روز صبح آٹھ بجے کے بعد شروع ہو جاتی تھی۔ مقررہ وقت کے بعد وکلاء اور صحافیوں کو کورٹ روم میں داخلے کے لئے رجسٹرار سے خصوصی اجازت لینا پڑتی تھی۔ بعض اوقات چیف جسٹس تک تاخیر سے آنے والوں کا معاملہ پہنچتا اور وہ سخت وارننگ کے بعد تاخیر سے آنے والے صحافی کو اندر داخل ہونے کی اجازت ملتی تھی۔ عموماً ایسا ہوتا کہ چیف جسٹس کے حکم پر دیر سے آنے والے کو کمرہ عدالت میں کھڑا کر کے آنئدہ مقررہ وقت پر پہنچنے کی ہدایت کی جاتی اور اس کے بعد عدالتی کارروائی اس وقت شروع ہوتی جب چیف جسٹس اور ان کے ساتھی چار جج صاحبان کی طرف سے گزشتہ روز کی عدالتی کارروائی پر اظہار اطمینان کیا جاتا۔
لاہور ہائی کورٹ کے ساتھ ججز کے مخصوص راستے کو ذوالفقار علی بھٹو کی آمد و رفت کے لئے آسان بنایا گیا تھا۔ سڑک کے پار تین کمرے سیکیورٹی سٹاف کے لئے مخصوص کئے گئے۔ یہ جگہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی وسیع عمارت کے ساتھ واقع تھی۔ ایک منٹ کی مسافت کے ساتھ بھٹو صاحب اور سیکیورٹی اہلکار کمرہ عدالت میں کسی رکاوٹ کے بغیر پہنچ جاتے تھے جبکہ عدالتی کارروائی کے وقفے میں پیدل ہی واپس بھی چلے جایا کرتے تھے۔ اس لئے عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی چند لمحوں کی تاخیر کا رسک بھی نہیں لیتے تھے۔ روزنامہ ”امروز“ کی طرف سے بھٹو کیس کی رپورٹنگ کے لئے میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔ چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کے سخت طرز عمل کی وجہ سے میں صحافیوں کی پہلی صف میں موجود ہوتا تھا۔ صحافیوں کی صف سے آگے بھٹو صاحب کے وکلاء کی مخصوص نشستیں ہوتی تھیں چنانچہ کبھی کبھی بھٹو صاحب کے وکلاء یحیٰ بختیار اور ملک اللہ بخش سے مختصر بات چیت بھی ہو جایا کرتی تھی یحییٰ بختیار شرارت سے گنگنایا کرتے تھے ”سنو اک مولوی کی کہانی سنو“ اس روز جب عدالتی کارروائی کے دوران چائے کا وقفہ ہوا تو بھٹو کے وکیل نے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین سے استدعا کی کہ عدالتی کارروائی آدھا گھنٹہ تاخیر کی بجائے ایک گھنٹہ تک بڑھا دی جائے۔ چیف جسٹس نے ایک گھنٹہ تاخیر سے کارروائی شروع کرنے کی وجہ پوچھی تو فاضل وکیل نے بتایا کہ گزشتہ روز بیگم نصرت بھٹو پولیس کے لاٹھی چارج کی وجہ سے زخمی ہو گئی تھیں ان کی خیریت معلوم کرنے جانا ہے۔
چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے انکار کر دیا تو فاضل وکیل نے دو تین مرتبہ اپنی درخواست کو دہرایا جبکہ چیف جسٹس نفی میں سر کو ہلاتے ہوئے کہتے رہے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ مقررہ وقت پر کورٹ روم میں حاضر ہوں۔ وکلاء کے ساتھ والی نشست پر بھٹو صاحب بیٹھتے تھے، انہوں نے اپنے وکیل کے کوٹ کو پیچھے سے پکڑ کر کہا ”ڈیم اِٹ…… ڈیم اِٹ!! مزید درخواست کرنے کی ضرورت نہیں“ چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے بھٹو کے الفاظ سنے تو وہ ناراض لہجے میں بولے۔ ”یہ کورٹ روم ہے اور یہ کہا جا رہا ہے …… ڈیم اِٹ!“ فاضل وکیل نے کہا کہ جناب والا! بھٹو صاحب نے مجھے اپنی درخواست سے باز رہنے کی ہدایت کی ہے۔“ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیم اِٹ کے الفاظ اس عدالت کی توہین کے مترادف ہیں، برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ کوئی توہین والی بات نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے اپنی بات پر اصرار کیا اور کہا کہ مرکزی ملزم کا موقف اور طرز عمل غیر ذمے دارانہ ہے۔ اس عدالت کی توہین کی گئی ہے۔ اس مرکزی ملزم کو یہاں سے نکالا جائے۔ یہ کہتے ہوئے چیف جسٹس نے قریب کھڑے پولیس آفیسر کو اشارہ بھی کیا تو ذوالفقار علی بھٹو خود ہی کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ججز بھی بڑبڑاتے ہوئے وقفے کے لئے باہر چلے گئے۔ بعد ازاں عدالتی کارروائی شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے قرار دیا کہ مرکزی ملزم (ذوالفقار علی بھٹو) کا طرز عمل درست نہیں۔ عدالت کے آئندہ احکامات تک وہ عدالتی کارروائی میں شریک نہیں ہوں گے۔
اس کے بعد عدالتی کارروائی میں ذوالفقار علی بھٹو کو شامل نہیں کیا گیا۔ سینئر وکلاء اس بات پر بحث کرتے رہے کہ ”ڈیم اِٹ“ کہنے سے عدالت کی توہین ہوئی یا نہیں۔ اس پر بھی بحث ہوتی رہی کہ چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین اور ان کے ساتھی ججز صاحبان کا اس معاملے میں موقف درست تھا یا نہیں۔ ”ڈیم اِٹ“ کو لے کر بات بڑھانا چاہئے تھی یا نہیں؟ اکثریتی رائے یہی تھی کہ معزز ججز صاحبان کو عدالت کے ماحول اور فضا کو مثبت انداز میں کنٹرول میں رکھنا چاہئے تھا۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی اہلیہ کے زخمی ہونے پر تشویش تھی اور انہوں نے عدالتی کارروائی میں تاخیر کی درخواست کی تھی تو اس پر مثبت فیصلے سے بات کو بڑھانا نہیں چاہئے تھا۔ بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین اس موقع پر ذوالفقار علی بھٹو کی درخواست قبول کرنے کے لئے اس لئے تیار نہیں ہوئے تھے کہ وہ ہر بات اور ہر پہلو سے تنگ کرنے کے لئے سخت رویہ اختیار کئے ہوئے تھے تو اس کا بھی پس منظر تھا جو کہ اس وقت بھی موجود تھا اور آج بھی واضح ہے، ایسی باتیں کرنے سے ذوالفقار علی بھٹو کو پریشان اور تنگ کرنا ہی مقصود تھا۔ اگر مقصود میں شرارت نہ ہوتی تو ”ڈیم اِٹ“ سے بات کا بتنگڑ نہ بنتا اور شاید سیاسی اور عدالتی تاریخ بھی مختلف ہوتی۔ آج عدلیہ کو بھٹو کی پھانسی کا طعنہ نہ سننا پڑتا۔ کاش! چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے انتقام بھرے جذبات کا نشانہ نہیں بننا پڑتا۔ صورت حال قدرے مختلف ہوتی!